منیر نیازی اور ایڈگر ایلن پو کی شاعری میں عجیب ارتباط
Munir Niazi and Edgar Allan Poe were poets from two different eras, countries, times and have lived a different lives. However, there are strange similarity in their works. This write up in Urdu " منیر نیازی اور ایڈگر ایلن پو کی شاعری میں عجیب ارتباط" is an attempt to explore the commonality and strange correlation between the poetic works of the two.
2025-01-20 15:20:39 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
منیر نیازی اور ایڈگر ایلن پو کی شاعری میں عجیب ارتباط
منیر نیازی پاکستان کے مشہور شاعر تھے (19 اپریل 1928 - 26 دسمبر 2006)۔ وہ تقسیمِ برصغیر پاک و ہند سے قبک کی ہندوستان کے شہر ہوشیار پور کے قصبے خان پور میں ایک پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے۔ منیر نیازی ایک سال کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا اور ان کی پرورش ان کی ماں اور ماموں نے کی۔ ان کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور ان سے ہی ادبی اوصاف منیر نیازی میں منتقل ہوئے۔
منیر نیازی نے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد رائل انڈین نیوی میں سیلر / ملاح کے طور پر ملازمت اختیار کر لی۔ لیکن نیوی کا سخت نظم و ضبط کا نظام ان کے مزاج کے خلاف تھا۔ البتہ نیول سروس کے دورانیہ میں وہ بمبئی کے ساحلوں پر اکیلے بیٹھ کر سعادت حسن منٹو کی کہانیاں اور میراجی کی نظمیں ’’ادبی دنیا‘‘ کے نام سے شائع ہونے والے رسالے میں پڑھا کرتے تھے۔ انہی دنوں ان کا ادبی شوق پروان چڑھا اور انہوں نے نیوی سروس سے استعفیٰ دے کر اپنی تعلیم مکمل کی اور ساتھ ہی لکھنے لکھانے کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا۔ یہاں یہ کہنا زیادہ موزوں ہوگا کہ لڑکپن سے ہی منیر کو جب بھی کوئی چیز حیران کرتی تھی وہ اسے ادبی و شعری واردات میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
برطانیہ سے آزادی کے بعد منیر نیازی کا خاندان پاکستان ہجرت کر گیا۔ اس کے بعد، انہوں نے دیال سنگھ کالج لاہور سے گریجویشن (بی اے) کیا۔ انہوں نے یونیورسٹی میں گریجویشن کے دوران کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ انہوں نے گریجویشن کے بعد فلموں کے لیے بھی گانے لکھے۔ تاہم منیر نیازی نے اپنی زندگی کے نصف حصے کے بعد زیادہ تر پنجابی اور اردو زبانوں میں شاعری کی ہے۔
منیر نیازی کثرت سے شراب پیتے تھے اور شاید وہ اس بری عادت کا شکار تھے؛ کیونکہ وہ شراب کو اپنے علاوہ ہر کسی کے لیے برا سمجھتے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہیں سانس کی بیماری ہوئی اور اسی بیماری سے ان کا انتقال ہوگیا۔
انھوں نے اردو کی کلاسیکی روا یت یا دبستان کا اثر نہیں قبول کیا بلکہ اک نئے دبستان کی طرح ڈالی۔ منیر نیازی کی شاعری میں داخلی کیفیات، احساسات اور درد کی شدت کو بڑی سچائی سے بیان کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری میں جذباتی عکاسی اور ذہنی انتشار کی گونج محسوس ہوتی ہے۔ ان کی شاعری میں تنہائی، اداسی اور ماضی کے یادگار لمحوں کی اہمیت ہے۔ وہ اکثر انسان کی اندرونی تشویش اور دکھ کی کیفیات کو اجاگر کرتے ہیں۔
منیر نیازی کی شاعری میں جگہ جگہ ڈر جھانکتا نظر آتا ہے۔
ان کی شاعری کے مجموعے پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ڈر، خوف اور وحشت غالباً اپنے تنہا ہونے کے احساس کی وجہ سے ان میں پید ہوا۔ سب میں ہوتے ہوئے بھی وہ اکیلے پن کا شکار رہے۔ اسی باعث انہوں نے چڑیلوں، سانپوں جیسے تصوراتی حصار سے خود کو ایک عمر تک باندھے رکھا۔ ان کی شاعری میں ویران جگہوں، غیرآباد ٹھکانوں اور اُن میں پائی جانے والی ویرانی، گھپ اندھیرا، طوفانِ باد و باراں، ان کی اپنی تنہائی کی تصویر کشی کرتی ہے۔ منیر نیازی کے یہاں بے پناہ انانیت تھی
ذیل میں ان کی نظم "صدا بصحرا" کو اسی مطابقت کو ظاہر کرنے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
چاروں سمت اندھیرا گھپ ہے اور گھٹا گھنگھور
وہ کہتی ہے کون
میں کہتا ہوں میں
کھولو یہ بھاری دروازہ
مجھ کو اندر آنے دو
اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور
منیر نیازی کی ایک غزل کے دو اشعار میں مایوسی اور غصہ صاف دکھتا ہے جسے ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔
اس شہرِ سنگ دل کو جلا دینا چاہیے
پھر اس کی خاک کو بھی اُڑا دینا چاہیے
ملتی نہیں پناہ ہمیں جس زمین پر
اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہیے
منیر نیازی نے فلموں کے لیے گیت اور نغمے لکھے ہیں؛ ذیل میں کچھ پیش کیے جارہے ہیں جو منیر نیازی کے عمومی رویوں کا ظاہر کرتے ہیں۔
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا
__________________________
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
ایڈگر ایلن پو ; امریکی شاعر
ایڈگر ایلن پو (جنوری 19,1809 - اکتوبر 7,1849) ایک امریکی مصنف، شاعر، ایڈیٹر، اور ادبی نقاد تھے جو بوسٹن، میساچوسٹس، ریاستہائے متحدہ میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنی شاعری اور مختصر کہانیوں کے لیے سب سے زیادہ پہچانے جاتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی کہانیوں میں اسرار اور مکافاتِ عمل شامل ہیں۔ ایڈگر ایلن پو کی ہنگامہ خیز زندگی نے ان کی تحریر کو بہت متاثر کیا۔ انہوں نے بے شمار ذاتی نقصانات کا سامنا کیا، اندرونی شیطانوں سے لڑا، اور زندگی بھر نشے کے ساتھ جدوجہد کی۔ یہ تجربات ان کے ادبی کاموں میں ظاہر ہوئے؛ جو انکے ادبی خدمات کو منفرد اور ممتاز مقام کی صداقت پر دلیل ہے۔
ایڈگر ایلن پو غالباً جاسوسی افسانے کی صنف کو ایجاد کرنے کے لیے مشہور ہیں جیسے کہ "دی مرڈرز ان دی رو مورگ" (1841) اور "دی پورلوئنڈ لیٹر" (1845) اس میں نے کئی مشہور نظمیں بھی لکھیں جن میں '' ریون '' (1845) شامل ہیں، جو خود ان کی موت کا مترادف بن گیا ہے۔
"دی ریوین" ایڈگر ایلن پو کی ایک داستانی نظم ہے۔ جو پہلی بار جنوری 1845 میں شائع ہوئی، نظم کو اکثر اس کی موسیقی، طرز کی زبان اور مافوق الفطرت ماحول کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ ایک پریشان کن عاشق کے بارے میں بتاتا ہے جسے ایک پراسرار کاغ (کوا جیسا کہ ہم دنیا کے بہت سے حصوں میں جانتے ہیں) کی طرف سے ملاقات کی جاتی ہے جو بار بار ایک لفظ بولتا ہے۔ نظم میں اس بات کی کھوج کی گئی ہے کہ کس طرح غم ایک شخص کی حالِ موجود میں رہنے اور معاشرے کے ساتھ مشغول ہونے کی صلاحیت پر قابو پا سکتا ہے۔ نظم کے دوران، شاعر کی اپنی کھوئی ہوئی محبت "لینور" کو فراموش کرنے میں ناکامی اسے مایوسی اور پاگل پن کی طرف لے جاتی ہے۔
نظم "دی ریوین" میں ایڈگر ایلن پو نے کاغ / کوے کو بطور علامت استعمال کیا۔ ایک سفید ریوین اکثر اچھی قسمت کی علامت ہوتا ہے۔ ایڈگر ایلن پو کا سیاہ کوے کا استعمال انڈرورلڈ یا موت کی نمائندگی کر سکتا ہے۔ پو نے استعارہ کا بھی استعمال کیا۔ کوے کا موازنہ ایک نبی کے ساتھ ساتھ فرشتوں اور شیاطین سے بھی کیا۔ مزید خاص طور پر، یہ نظم زندہ پر موت کے اثرات کی کھوج کرتی ہے، جیسے غم، ماتم، اور مرنے والوں کی یادوں کے ساتھ ساتھ ایک سوال جو اکثر ان لوگوں کو اذیت دیتا ہے جنہوں نے اپنے پیاروں کو موت سے محروم کر دیا ہے: کیا اس کے بعد کی زندگی ہے؟ جس سے وہ مرنے والوں کے ساتھ مل جائیں گے۔
ذیل میں ایڈگر ایلن پو کی نظم کاغ / کوا؛ "ریون" کے کچھ حصے کا آزاد ترجمہ ہیش کیا جاتا ہے:-۔
ایک بار ایک آدھی رات کو، جب میں سوچ رہا تھا، کمزور اور تھکا ہوا،
بھولی بسری کہانیوں کے بہت سے عجیب اور متجسس حجم-
جب میں نے سر ہلایا، تقریباً جھپکی، اچانک ایک دستک آئی،
جیسا کہ کوئی میرے چیمبر کے دروازے پر آہستہ سے کھٹکھٹا کر رہا ہے۔
’’یہ کوئی مہمان ہے،‘‘ میں نے بڑبڑاتے ہوئے کہا، ’’میرے چیمبر کے دروازے پر دستک کرتے ہوئے-
صرف یہ اور کچھ نہیں."
آہ، مجھے واضح طور پر یاد ہے کہ یہ تاریک دسمبر میں تھا۔
اور ہر ایک الگ مرتے انگارے نے فرش پر اپنا بھوت سوار کیا۔
میں نے بے تابی سے کل کی خواہش کی؛ بیکار؛ میں نے قرض لینے کی کوشش کی تھی۔
میری کتابوں سے دکھ کی بھرمار - کھوئے ہوئے لینور کے لیے غم۔
اس نایاب اور چمکدار لڑکی کے لیے جسے فرشتے لینور کہتے ہیں۔
یہاں ہمیشہ کے لیے بے نام۔
اور ہر ایک ارغوانی پردے کی ریشمی، اداس، غیر یقینی سرسراہٹ
مجھے پرجوش کر دیا — مجھے ایسے خوفناک خوف سے بھر دیا جو پہلے کبھی محسوس نہیں ہوا تھا۔
تاکہ اب، میرے دل کی دھڑکن کو برقرار رکھنے کے لیے، میں دہرانے کھڑا رہا۔
’’یہ کچھ مہمان میرے چیمبر کے دروازے پر داخل ہونے کی درخواست کر رہے ہیں۔
کچھ دیر سے آنے والے میرے چیمبر کے دروازے پر داخلے کی درخواست کرتے ہوئے؛-
یہ ہے اور کچھ نہیں"
کوٹھڑی میں واپس مڑتے ہوئے، میری ساری روح میرے اندر جل رہی ہے،
جلد ہی میں نے ایک بار پھر پہلے سے کچھ زیادہ زور سے دستک کی آواز سنی۔
"یقیناً،" میں نے کہا، "یقیناً یہ میری کھڑکی کی جالی پر کوئی چیز ہے۔
پھر میں دیکھتا ہوں کہ اس میں کیا ہے، اور اس اسرار کو دریافت کرتا ہوں-
میرے دل کو ایک لمحہ رہنے دو اور اس اسرار کو دریافت کرنے دو؛
’یہ ہوا ہے اور کچھ نہیں!
پھر یہ آبنوس پرندہ میری اداس فینسی کو مسکراہٹ میں ڈھالتا ہے،
اس کے چہرے کی سخت اور سخت آرائش سے،
میں نے کہا، "اگرچہ تیرا سینہ کاٹا جائے اور منڈوا دیا جائے،" میں نے کہا، "یقینی طور پر کوئی لالچ نہیں ہے،
رات کے ساحل سے بھٹکتے ہوئے خوفناک اور قدیم ریوین-
مجھے بتائیں کہ رات کے پلوٹونین ساحل پر تیرا رب کا نام کیا ہے!
دی ریوین " بولا؛ کبھی نہیں۔"
ذیل کا ترجمہ جناب نعیم اللہ لغاری صاحب کا ہے جسے " فیس بک " سے لیا گیا ہے۔
تھی پھر سے قفس میں میری وہ سوختہ روح،
دروبام پہ پھر سےاک بلند سی دستک۔۔
دریچے سے یہ کس نے صدا دی ہم کو
دل مظطر ایک پل کو ٹھہر مجھے دیکھنے دے
ہوگا اسرار میں لپٹا کوئی اندیشہءجاں۔۔
دیکھا تو ہر بار یہ معلوم ہوا
ہوا کا جھونکا تھا ا کے چلا بھی گیا۔۔
اور پھر سے قفس میں تھی میری وہ سوختہ روح۔۔۔۔۔
[ بھی نہیں " تکرار کے ساتھ۔ ۔" ]
چونکہ " ریون " نثری نظم ہے اور یہ چند اشعار میں نہیں ہے، اس لیے دلچسپی رکھنے والا قاری اس کی تفصیل درج ذیل لنک میں پڑھ سکتا ہے:-۔
https://www.poetryfoundation.org/poems/48860/the-raven
عجیب و غریب شاعرانہ ارتباط؟
ایڈگر ایلن پو اور منیر نیازی کی شاعری میں گہری مماثلت ہے۔ حالانکہ دونوں ایک الگ الگ جہانوں کے بسنے والے تھے۔ دونوں الگ الگ ادوار میں پیدا ہوئے؛ اس طرح کے ایڈگر ایلن پو کے وفات کے تقریبا" 80 سال کے بعد پیدا ہوئے۔ ایڈگر ایلن پو نے محض چالیس سال کی عمر میں وفات پائی اور منیر نیازی نے دگنی یعنی تقریبا" 80 سال کی عمر پائی۔ ایڈگر ایلن پو نے مغربی تہذیب میں وقت گذارا اور منیر نیازی مشرقی تہذیب کے تیسری دنیا میں زندگی بسر کی۔
ایڈگر ایلن پو اور منیر نیازی دو مختلف ادوار؛ تہذیب، روایات اور ممالک کے باسی تھے؛ اور دونوں نے عمر بھی مختلف پائی مگر شاید دونوں کی روح ایک ہی سوتے سے ابھری تھی؛ دونوں نے انتہائی مخلتلف حالات اور واقعات سے ایک جیسے نتائج اخذ کئے اور ایک جسے تجربات سے گذرے اور شاید اسی لیے پھر اییک جیسا اظہار بھی کیا۔ دونوں کی شاعر میں ایک جیسا خوف ہے؛ ڈر ہے؛ تنہائی ہے، پراسراریت ہے اور حیرت انگیز طور پر رد کردینے کا رویہ ہے۔
عجیب و غریب شاعرانہ ارتباط؟
ایڈگر ایلن پو اور منیر نیازی کی شاعری میں گہری مماثلت ہے۔ حالانکہ دونوں ایک الگ الگ جہانوں کے بسنے والے تھے۔ دونوں الگ الگ ادوار میں پیدا ہوئے؛ اس طرح کے ایڈگر ایلن پو کے وفات کے تقریبا" 80 سال کے بعد پیدا ہوئے۔ ایڈگر ایلن پو نے محض چالیس سال کی عمر میں وفات پائی اور منیر نیازی نے دگنی یعنی تقریبا" 80 سال کی عمر پائی۔ ایڈگر ایلن پو نے مغربی تہذیب میں وقت گذارا اور منیر نیازی مشرقی تہذیب کے تیسری دنیا میں زندگی بسر کی۔
ایڈگر ایلن پو اور منیر نیازی دو مختلف ادوار؛ تہذیب، روایات اور ممالک کے باسی تھے؛ اور دونوں نے عمر بھی مختلف پائی مگر شاید دونوں کی روح ایک ہی سوتے سے ابھری تھی؛ دونوں نے انتہائی مخلتلف حالات اور واقعات سے ایک جیسے نتائج اخذ کئے اور ایک جسے تجربات سے گذرے اور شاید اسی لیے پھر اییک جیسا اظہار بھی کیا۔ دونوں کی شاعر میں ایک جیسا خوف ہے؛ ڈر ہے؛ تنہائی ہے، پراسراریت ہے اور حیرت انگیز طور پر رد کردینے کا رویہ ہے۔