مِنَ الوَصَايـَا النَّبَوِيـَّةِ الـجَامِعَةِ نبوی احکام میں سے

Holy Book Al Quran is the final Holy Book revealed upon the Last of Prophets Hazrat Muhammad (PBUH). The Quran & Sunnah is the only source of holy guidance as it entails detailed instructions for each and every walk of human life. Here an important aspect of Islamic Faith “Sunnah of Holy Prophet PBUH”( مِنَ الوَصَايـَا النَّبَوِيـَّةِ الـجَامِعَةِ نبوی احکام میں سے) is discussed wrt the holy guidance from Quran and Hadith of Prophet ﷺ. This is an approved Jumma Khutba in the Sultanate of Oman.

2024-01-05 18:05:17 - Muhammad Asif Raza

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ


مِنَ الوَصَايـَا النَّبَوِيـَّةِ الـجَامِعَةِ

نبوی احکام میں سے۔


الحَمْدُ للهِ رَبِّ العَالَمِينَ، يَحْفَظُ عِبَادَهُ وَهُوَ خَيْرُ الحَافِظِينَ، وَأَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيـكَ لَهُ، وَلِيُّ المُؤْمِنِينَ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ، خَيْرُ النَّبِيِّينَ وَصَفْوَةُ المُرْسَلِينَ، صَلَوَاتُ اللهِ وَسَلامُهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَأَتْبَاعِهِ الْمُؤْمِنِينَ الصَّادِقِينَ


 أَمَّا بَعْدُ، فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم- بسم اللہ الرحمن الرحیم 


وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَةً وَّیَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ اُولٰٓئِکَ لَهُمْ عُقْبَی الدَّارِ

Surah Raad – 22


رَبِّ ٱشۡرَحۡ لِى صَدۡرِى. وَيَسِّرۡ لِىٓ أَمۡرِى- وَٱحۡلُلۡ عُقۡدَةً۬ مِّن لِّسَانِى- يَفۡقَهُواْ قَوۡلِى- آمین ثم آمین

Surah Taha – 25-28


تمام تعریفیں اللہ ہی کے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے، وہ اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے اور وہ بہترین محافظ ہے. میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ مومنین کا ولی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم، اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، انبیاء میں سب سے افضل اور سب سے بہتر رسول۔ درود و سلام ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ کے اہل و عیال، اصحاب، پیروکاروں اور سچے مؤمنین پر- تلاوت کی گئ آیت کا ترجمہ ہے


اور جو لوگ اپنے رب کی رضاجوئی کے لیے صبر کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ (دونوں طرح) خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعہ برائی کو دور کرتے رہتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت کا (حسین) گھر ہے

Surah Raad – 22


اے اللہ کے بندو- تقویٰ اختیار کرو اور اس کی اطاعت کرو اللہ سے ڈرو - کیونکہ جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے وہ اللہ کی حفاظت میں ہوگا، وہی اللہ کی محبت اور اطمینان حاصل کرے گا. اللہ کی اپنے بندوں کے لئے اس فرمان عالیشان کے مطابق ایک خوشخبری ہے


يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱذۡكُرُواْ نِعۡمَتَ ٱللَّهِ عَلَيۡڪُمۡ إِذۡ هَمَّ قَوۡمٌ أَن يَبۡسُطُوٓاْ إِلَيۡكُمۡ أَيۡدِيَهُمۡ فَكَفَّ أَيۡدِيَهُمۡ عَنڪُمۡ‌ۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ‌ۚ وَعَلَى ٱللَّهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ

اے ایمان والو! الله کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب لوگوں نے ارادہ کیا کہ تم پر دست درازی کریں پھر الله نے ان کے ہاتھ تم پر اٹھنے سےروک دیئے اور الله سے ڈرتے رہو اور ایمان والوں کو الله ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے 

Surah Al Maeda – 11


اے ایمان والو- یہ ہمارے لیے آزمائش ہے کہ ہم سرزمینِ فلسطین اور اس کے بے دفاع لوگوں کے خلاف قابضین کی جارحیت کے طویل دن جی رہے ہیں، اور آپ انہیں ان کے گھروں کو مسمار کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، جس وہ بارش اور شدید سردی میں کسی بھی پناہ کے بغیر رہنے پر مجبور ہیں- شدید سردی کے عالم میں ان کے پاس، سردی سے حفاظت کے لیے نہ انکے پاس کپڑے ہیں، اور نہ ہی کھانے پینے کے لیے خوراک، درحقیقت ان کے لیے پانی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہو گیا ہے۔ یہ لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے ہیں. جب وہ پناہ لینے کیلئے کسی دوسری جگہ پہنچتے ہیں، تو وہاں بھی نقصان، بمباری، قتل اور زخمی ہونے سے محفوظ نہیں رہتے. وہ نہ تو منتقل ہو نے سے پہلے محفوظ تھے اور نہ اب. وہ انتہائی صبر کرنے والے ہیں، انہوں نے اپنی جان و مال سے جدوجہد کی ہے اور اپنا سب کچھ اللہ کی رضا کے لیے پیش کر دیا ہے. بے شک اللہ کا قانون ہے کہ صبر کے بعد فتح آتی ہے اور کمزوری کے بعد طاقت آتی ہے۔


ہمارے ربِ بابرکتِ اعلیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں پہلے گذری اقوام کا ذکر کیا ہے. ان میں سے ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم ہے. ماسوائے چند ایک کے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے، باقی سب بدترین عذاب کا شکار ہوئے. سورت القصص میں اس بارے میں فرمایا 


وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى ٱلَّذِينَ ٱسۡتُضۡعِفُواْ فِى ٱلۡأَرۡضِ وَنَجۡعَلَهُمۡ أَٮِٕمَّةً۬ وَنَجۡعَلَهُمُ ٱلۡوَٲرِثِينَ (٥) وَنُمَكِّنَ لَهُمۡ فِى ٱلۡأَرۡضِ وَنُرِىَ فِرۡعَوۡنَ وَهَـٰمَـٰنَ وَجُنُودَهُمَا مِنۡهُم مَّا ڪَانُواْ يَحۡذَرُونَ

اور ہم چاہتے تھے کہ ان پر احسان کریں جو ملک میں کمزور کیے گئے تھے اورانہیں سردار بنا دیں اور انہیں وارث کریں (۵) اور انہیں ملک پر قابض کریں اور فرعون ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ چیز دکھا دیں جس کا وہ خطرہ کرتے تھے

Surah Al Qasas – 5-6


اللہ کے بندو- ہمیں پر امید رہنا چاہیے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فتح اللہ کی طرف سے آئے گی۔


وَمَا ٱلنَّصۡرُ إِلَّا مِنۡ عِندِ ٱللَّهِ

اور مدد تو صرف الله ہی کی طرف سے ہے

Surah Al Anfal – 10-Part


اور اللہ وبرکاتہ، اپنے بندے کی اس کے بارے میں اچھی رائے پر ہے، لہذا ہمیں اللہ کے بارے میں اچھا خیال کرنا چاہئے، اور ان عظیم جامع احکام کا جو پیغمبر رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف سے آئے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک روایت کے مطابق- (اور جان لو کہ فتح صبر کے ساتھ آتی ہے، اور یہ کہ راحت تکلیف کے ساتھ آتی ہے، اور یہ کہ سختی کے ساتھ آسانی ہوتی ہے) آئیے دیکھتے ہیں - اللہ آپ پر رحم کرے - ان عظیم پیغمبرانہ کلمات پر جو دلوں میں امید اور رجائیت پیدا کرتے ہیں، اور آئیے دیکھتے ہیں کہ پیغمبر رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم نے کیسے اپنے پیروکاروں کی تربیت کی ہے- خاص طور پر، وہ بچوں کی پرورش امید، رجائیت اور اللہ پر بہترین اعتقاد پیدا کرنے میں کرتے ہیں۔ اور اس بات کا یقین بھی پیدا کرتے ہیں کہ مومن مردوں اور عورتوں پر جو بھی مصائب اور مشکلات آتی ہیں، وہ خیر کے سوا کچھ نہیں ہے، چاہے اس کی ظاہری شکل بری ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ مومن مرد اور مومن عورتیں شکر اور صبر کے درمیان ہیں اور جس طرح شکر ادا کرنا بہتر ہے اسی طرح صبر بھی بہتر ہے اور جو شخص اللہ کے ساتھ ہے، اللہ اس کے ساتھ ہے اور ہمارے لئے اب ذوالجلال کے کلام میں کتنی بڑی خوشخبری ہے جب وہ سورت النحل میں ارشاد فرماتے ہیں


إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَواْ وَّٱلَّذِينَ هُم مُّحۡسِنُونَ

بے شک الله اُن کے ساتھ ہے جو پرہیزگار ہیں اور جو نیکی کرتے ہیں

Surah An Nahl – 128


اے ایمان والو، ایمان ایک مبارک درخت کی طرح ہے یہ جب بویا جاتا ہے تو بالکل چھوٹا پودا ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ بڑھتا ہے، اسی طرح ایمان وقت کے ساتھ مزید پختہ ہوتا جاتا ہے. اس کی بنیاد اللہ کی محبت اور لوگوں کے لئے نیکی کی محبت پر ہے اور اللہ کی محبت الفاظ کے ساتھ ساتھ عمل سے متاثر ہوتی ہے۔ لوگوں کے ساتھ بھلائی، ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی مدد سے ظاہر ہوتی ہے، بے شک مومن کے لیے اللہ کی مدد بندوں کو اس کی مدد سے حاصل ہوتی ہے، اور اس ہدایت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا


جو شخص کسی مومن کو دنیا کی پریشانیوں سے نجات دلائے گا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کی پریشانیوں سے نجات دے گا اور جو شخص کسی مشکل میں پڑنے والے کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا اللہ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانیاں پیدا کرے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ اس کی دنیا اور آخرت میں پردہ پوشی کرے گا، اوراللہ تب تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔ پردہ پوشی کو حفاظت کے معنی میں بھی سمجھا جا سکتا ہے. 


آئیے دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے، ان کی مدد کرنے اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے سے یہ پیغمبرانہ بشارتیں، عظیم نیک اعمال اور اعلیٰ درجات کیسے حاصل ہوتے ہیں، آئیے جان لیں کہ ایمان کا درخت بغیر کیڑوں اور بیماریوں کے زندہ رہتا ہے اور پرورش پاتا ہے، اس کی دیکھ بھال کرنے، وقتاً فوقتاً اس کی پیروی کرنے، اور اسے باقاعدگی سے پانی پلانے سے یعنی فضائل، اور کثرت سے اللہ کو یاد کرنے سے پھلتا پھولتا ہے اور یہی پھر شیطان سے بچاتا ہے۔ 


اسی وجہ سے نبئی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نوجوانوں کے دلوں میں ایمان اور عقیدے کا بیج بونے اور اسے مسلسل تعلیم سے شناس آور ہونے کے خواہشمند تھے، جس کی بنیاد آج بھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہیں قرآن مجید نے انسان کی عملی زندگی کیلئے ایک بہترین مثال بتایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جس میں وہ بچوں کے دلوں میں ایمان کا درخت نہ اگائیں اور اس سے فائدہ نہ اٹھائیں. اور ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تربیت میں ایک بہترین مثال حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ہے- اللہ ان دونوں سے راضی ہو۔


أقولُ مَا تَسْمَعُونَ، وَأَسْتَغْفِرُ اللهَ العَظِيمَ لِي وَلَكُمْ، فَاسْتَغْفِرُوهُ يَغْفِرْ لَكُمْ، إِنَّهُ هُوَ الغَفُورُالرَّحِيمُ، وَادْعُوهُ يَسْتَجِبْ لَكُمْ، إِنَّهُ هُوَ البَرُّ الكَرِيمُ

یہ کہو میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اور آپ کے لیے بخشش مانگتا ہوں پس اس سے معافی مانگو وہ تمہیں بخش دے گا۔ وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اور اُسے پکارو تو وہ تمہاری بات کا جواب دے گا کیونکہ وہ سخی راستبازی ہے۔


 ========================================================


   الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَلِيُّ الصَّالِحِينَ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ الْأُسْوَةُ الْحَسَنَةُ لِلْمُؤْمِنِينَ، صَلَوَاتُ اللهِ وَسَلامُهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَأَتْبَاعِهِ الرَّاشِدِينَ الْمُحْسِنِينَ

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور صالحین کا ولی، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، مومنوں کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ درود و سلام ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر، ان کے اہل و عیال، ان کے اصحاب اور صالح پیروکاروں پر۔


حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے سگے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی الله عنہ کے فرزند ہیں۔ ہجرت سے پہلے شعب ابی طالب میں بنو ہاشم کی قید کے دنوں میں پیدا ہوئے۔ حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کے منھ میں اپنا لعاب مبارک ڈالا۔ آپ کی والدہ اُم فضل لبابہ بنت الحارث رضی الله عنہا، اُم المؤمنین حضرت میمونہ رضی الله عنہا اور حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ کی والدہ ، یہ تینوں خواتین آپس میں سگی بہنیں تھی۔


حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ، حضور صلی الله علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت تین سال کے تھے۔ ان کے خاندان نے ہجرت نہیں کی تھی، بلکہ اس وقت تک ان کے والدعباس رضی الله عنہ نے اسلام ظاہر بھی نہیں کیا تھا۔


ذوالقعدہ7ھ میں عمرہٴ قضا کے موقع پر حضور صلی الله علیہ وسلم نے مکہ سے 12 کلو میٹر دور ”سَرِف“ کے مقام پر ان کی خالہ حضرت میمونہ رضی الله عنہا سے نکاح کیا تھا۔اس نکاح کے انتظامات میں حضرت عباس رضی الله عنہ او ران کی اہلیہ پیش پیش تھے- عبدالله بن عباس رضی الله عنہ اس وقت دس برس کے تھے۔


اگلے سال فتح مکہ کے بعد 8ھ کے اواخر میں حضرت عباس رضی الله عنہ اپنے خاندان سمیت مدینہ منورہ منتقل ہو گئے۔ اس وقت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ کی عمر گیارہ سال تھی۔ حضور صلی الله علیہ وسلم سے انہیں تقریباً اڑھائی سال استفادے کا موقع ملا۔ قریبی رشتہ داری کی وجہ سے ہر وقت بارگاہ ِ رسالت میں حاضر ہوسکتے تھے ۔ 


اس مختصر سی مدت میں ہی ان کی عملی جستجو اور طالب علمانہ ذوق کا اندازہ ہو گیا۔ کبھی کبھی اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی الله عنہا کے ہاں رات کو بھی ٹھہر جاتے، تاکہ معمولات نبویہ کا مشاہدہ کریں۔ اس دوران ہرممکن خدمات بھی انجام دیتے اور دعائیں لیتے۔ایک بار اسی طرح بیت ِنبوی میں ٹھہرے ہوئے تھے تو حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے وضو کے لیے ایک برتن میں پانی ڈال کر رکھ دیا۔ آپ صلی الله عیہ وسلم نے دیکھا تو دریافت فرمایا:” پانی کس نے رکھا ہے؟“


حضرت میمونہ رضی الله عنہا نے فرمایا:” عبدالله بن عباس نے۔“


رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دعا فرمائی:

اللھم فقھہ في الدین وعلمہ التاویل․“ (اے الله! اسے فقہ ِ دین اور علم تفسیر عطا فرما


ایک بار معمولات نبویہ دیکھنے کے لیے خالہ کے گھر رُکے او رتہجد کے وقت حضور صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہی اٹھ گئے۔ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نوافل کے لیے کھڑے ہوئے تو یہ اقتدا کے لیے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے انہیں کھینچ کر اپنے برابر کھڑا کر دیا۔ جب حضور صلی الله علیہ وسلم نے نماز شروع کی تو یہ پھر ذرا سا پیچھے ہٹ گئے۔


جب حضور صلی الله علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:” یہ کیا کیا؟


انہو ں نے عرض کیا:”أو ینبغي لأحد أن یصلي حذائک وأنت رسول اللہ؟“

(کسی کو کہاں زیب دیتا ہے کہ آپ کے برابر کھڑے ہو کر نماز پڑھے، جب کہ آپ الله کے رسول ہیں۔ )


حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس ذہانت اور فہم سے خوش ہو کر دعادی : ”اے الله! ان کے علم اور سمجھ میں اضافہ فرمایا۔) حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے وقت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ تیرہ برس کے تھے۔ اس لیے انہیں پوری طرح استفادے کا موقع نہیں ملا تھا، مگر علوم نبوت کی جستجو دل میں جاگ چکی تھی۔ اس لیے ایک ایک صحابی کے پاس جا کر احادیث یاد کیں۔


یہ وہ ذوق تھا، جو نبئی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے دل میں پیدا کیا، اور یہ عنایات انہی کو حاصل ہوتی ہیں جو اس کی تمنا اور جستجو کرتے ہیں. 


وَمَا يُلَقَّٮٰهَآ إِلَّا ٱلَّذِينَ صَبَرُواْ وَمَا يُلَقَّٮٰهَآ إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ۬

یہ بات ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو برداشت کرنے والے ہیں۔ اور ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے صاحب نصیب ہیں

Surah Fussilat/Sajda – 35


حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مذکوری مختصف حالات زندگی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبئی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چھوٹے بچے کی طرف رجوع کیا اور اسے فصیح و بلیغ انداز میں ایک واضح سبق دیا جو آج تک قائم ہے اور آخرت تک رہے گا اور ان پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں. حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا: ”اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چند اہم باتیں بتلا رہا ہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کرو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تم مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور (تقدیر کے) صحیفے خشک ہو گئے ہیں- ترمذی نے اسے روایت کیا ہے


خوشحالی کے وقت مومن کا اللہ تعالیٰ سے گہرا تعلق ہوتا ہے، چنانچہ جب مشکل کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے یہ تعلق اسے اس مشکل پر قابو پانے کی طاقت دیتا ہے، اور اللہ کا ذکر اس کے معاملات کو اس طرح آسان کر دیتا ہے جس کی اسے توقع نہیں ہوتی۔ پس جس نے اللہ کو خوشحالی میں پہچانا، اللہ اسے مشکل میں پہچانے گا اور حق تعالیٰ نے فرمایا ہے


وَأَوۡفُواْ بِعَہۡدِىٓ أُوفِ بِعَهۡدِكُمۡ

اور پورا کرو تم میرے عہد کوپورا کروں گا میں تمھارے عہدوں کو

Surah Al Baqarah – 40-Part


ایک اور مقام. پر فرمایا: اور اللہ وبرکاتہ کی باتیں واضح حق ہیں۔


فَٱذۡكُرُونِىٓ أَذۡكُرۡكُمۡ وَٱشۡڪُرُواْ لِى وَلَا تَكۡفُرُونِ

پس مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور ناشکری نہ کرو

Surah Al Baqarah – 152-Part


اسی وجہ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایسی کئی ہدایات ملیں، جو آج پورے مسلمانوں تک پہنچ چکی ہیں


اے اللہ کے بندو، خوشحالی میں اپنے رب کو پہچانو، اور وہ تمہیں مشکل میں نکال لے گا۔ جو بھی اس پرورش کے ساتھ پروان چڑھا اور اس راہ پر گامزن ہو اسے ہر جگہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کی طرح محسوس کرنا چاہیے۔ اور آپ دیکھیں گے وہ ان کی مدد کرتا ہے اور ان کے لیے دعا کرتا ہے اور یہ وہی یکجہتی ہے جو آج کرہ ارض کے مسلمانوں نے دکھائی ہے. سرزمینِ فلسطین میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی ہر ممکن مدد فراہم کرنا، یہ اس ایمان کا اثر ہے، جو سب سے معتبر دست بستہ قابلِ اعتماد رشتہ ہے.


اے اللہ کے بندو، اللہ کے اس فرمان کو ہمیشہ یاد رکھیں 


قُلۡ يَـٰعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ أَسۡرَفُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُواْ مِن رَّحۡمَةِ ٱللَّهِ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَغۡفِرُ ٱلذُّنُوبَ جَمِيعًا‌ۚ إِنَّهُ ۥ هُوَ ٱلۡغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ

کہہ دو اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے الله کی رحمت سے مایوس نہ ہو بے شک الله سب گناہ بخش دے گا بے شک وہ بخشنے والا رحم والا ہے

Surah Az Zumr – 53


هَذَا وَصَلُّوا وَسَلِّمُوا عَلَى إمَامِ الْمُرْسَلِينَ؛ مُحَمَّدٍ الهَادِي الأَمِينِ، فَقَدْ أَمَرَكُمْ رَبكُمْ بذَلكَ حينَ قَالَ

إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلَـٰٓٮِٕڪَتَهُ ۥ يُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِىِّۚ يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ صَلُّواْ عَلَيۡهِ وَسَلِّمُواْ تَسۡلِيمًا

Surah Al Ahzaab – 56


اللَّهُمَّ صَلِّ وسَلِّم عَلَى نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ وسَلَّمتَ عَلَى نَبِيِّنَا إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ نَبِيِّنَا إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى نَبِيِّنَا إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ نَبِيِّنَا إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَارْضَ اللَّهُمَّ عَنْ خُلَفَائِهِ الرَّاشِدِينَ، وَعَنْ أَزْوَاجِهِ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ وَعَنْ سَائِرِ الصَّحَابَةِ أَجْمَعِينَ، وَعَنِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ، وعَنْ جَمْعِنَا هَذَا بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ

اللَّهُمَّ اجْعَلْ جَمْعَنَا هَذَا جَمْعًا مَرْحُوْمًا، وَاجْعَلْ تَفَرُّقَنَا مِنْ بَعْدِهِ تَفَرُّقًا مَعْصُوْمًا وَلا تَدَعْ فِينَا وَلا مَعَنَا شَقِيًّا وَلا مَحْرُومًا

اللَّهُمَّ أَعِزَّ الإِسْلامَ وَاهْدِ الْمُسْلِمِينَ إِلَى الْحَقِّ، وَاجْمعْ كَلِمَتَهُمْ عَلَى الخَيْرِ، وَاكْسِرْ شَوْكَةَ الظَّالِمِينَ، وَاكْتُبِ السَّلامَ وَالأَمْنَ لِعِبادِكَ أَجْمَعِينَ 

اللَّهُمَّ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ يَا ذَا الجَلالِ وَالإِكْرَامِ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ بِكَ نَستَجِيرُ وَبِرَحْمَتِكَ نَستَغِيثُ أَلاَّ تَكِلَنَا إِلَى أَنفُسِنَا طَرفَةَ عَينٍ، وَلاَ أَدنَى مِنْ ذَلِكَ وَأَصلِحْ لَنَا شَأْنَنَا كُلَّهُ يَا مُصلِحَ شَأْنِ الصَّالِحِينَ

اللَّهُمَّ رَبَّنَا احْفَظْ أَوْطَانَنَا وَأَعِزَّ سُلْطَانَنَا وَأَيِّدْهُ بِالْحَقِّ وَأَيِّدْ بِهِ الْحَقَّ يَا رَبَّ العَالَمِينَ، اللَّهُمَّ أَسْبِغْ عَلَيْهِ نِعمَتَكَ، وَأَيِّدْهُ بِنُورِ حِكْمَتِكَ، وَسَدِّدْهُ بِتَوفِيقِكَ، وَاحفَظْهُ بِعَينِ رعَايَتِكَ

اللَّهُمَّ أَنْزِلْ عَلَيْنَا مِنْ بَرَكَاتِ السَّمَاء وَأَخْرِجْ لَنَا مِنْ خَيْرَاتِ الأَرْضِ، وَبَارِكْ لَنَا في ثِمَارِنَا وَزُرُوعِنَا وكُلِّ أَرزَاقِنَا يَا ذَا الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ

رَبَّنَا آتِنَا في الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِينَ وَالمُؤْمِنَات، المُسْلِمِينَ وَالمُسْلِمَات، الأَحْيَاءِ مِنْهُمْ وَالأَمْوَاتِ، إِنَّكَ سَمِيعٌ قَرِيبٌ مُجِيبُ الدُّعَاءِ

عِبَادَ الله إِنَّ ٱللَّهَ يَأۡمُرُ بِٱلۡعَدۡلِ وَٱلۡإِحۡسَـٰنِ وَإِيتَآىِٕ ذِى ٱلۡقُرۡبَىٰ وَيَنۡهَىٰ عَنِ ٱلۡفَحۡشَآءِ وَٱلۡمُنڪَرِ وَٱلۡبَغۡىِ‌ۚ يَعِظُكُمۡ لَعَلَّڪُمۡ تَذَكَّرُونَ

بے شک الله انصاف کرنے کا اوربھلائی کرنے کا اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم کرتا ہے اوربے حیائی اوربری بات اور ظلم سے منع کرتا ہے تمہیں سمجھاتا ہے تاکہ تم سمجھو

Surah An Nahl-90


========================================================


اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ، ہمیں احکامات الہیہ کو جاننے، سمجھنے اور ان پر عمل کرنے اور اپنے اہل و اعیال اور اعزا و اقارب کو ان اعمال میں شامل ہونے کی ترغیب کی توفیق عطا فرمائیں. آمین ثم آمین

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین- سبحان ربک رب العزة عما يصفون، وسلام على المرسلين، والحمد لله رب العالمين

More Posts