Memory is an intrinsic part of our life experience۔ Our memories define our sense of self as they are actually our past. Memories are integral part of human cognition, and it allows us to recall and draw upon past events to frame our understanding of the present. This write up in Urdu " مہکتی یاد " تیری یاد آگئی، غم خوشی میں ڈھل گئے is an attempt to frame poetic expressions in this regards.
" مہکتی یاد "
تیری یاد آگئی، غم خوشی میں ڈھل گئے
زندگی روز و شب کی کہانی ہے اور ہر گزرتا لمحہ ماضی کا حصہ بنتا جاتا ہے؛ ایک یاد کا حصہ بن جاتا ہے۔ یاد کے سائے تلخ بھی ہوتے ہیں اور حسین بھی ہوتے ہیں۔ مگر انسان بڑا ناشکرا ہے؛ ہر دم غموں کی گٹھری اٹھائے پھرتا ہے اور ان انگنت حسین اور خوشگوار اشیاء سے صرفِ نظر کرکے گزر جاتا ہے۔ مگر جو کبھی ایک لمحے کو ٹھر کر اور ذرا توقف کرکے ماہ و سال کو دیکھا جائے تو یادوں کے سائے حسین لمحات کو سامنے ابھار دیتے ہیں اور انسان مسکرا دیتا ہے۔ وہ یادیں جو چہرے پر مسکراہٹیں بکھیر دیں؛ مہکتی یادیں ہوتی ہیں۔ اور کسی پیارے کی یاد مایوسی کے عالم میں خوشی بن جاتی ہے۔ غم خوشی میں ڈھل جاتے ہیں۔
آئیے ذرا شاعروں کی زبانی ان لمحات کو پہچانتے ہیں۔
ہر طرف زیست کی راہوں میں کڑی دھوپ ہے دوست
بس تری یاد کے سائے ہیں پناہوں کی طرح
سدرشن فاکر
تمہاری یاد کے سائے میں یوں ہر وقت رہتا ہوں
میں تنہا رہ بھی جاؤں تو کبھی تنہا نہیں ہوتا
پون کمار
فراز دار سے پہلے کا وقت مشکل تھا
کسی کی یاد کے سائے میں کٹ گیا آخر
منیر انور
ہر لمحہ تری یاد کے سائے میں کٹا ہے
تھک تھک کے ہر اک گام پہ جب بیٹھ گیا ہوں
تابش صدیقی
کسی کی یاد کے سائے کو ہم سفر سمجھا
لگا سکو تو لگا لو جنوں کا اندازہ
شاکر خلیق
مرے آنگن میں ٹھہرے ہیں تمہاری یاد کے سائے
تمہارے آنے تک دل سے لگا کر ساتھ رکھنا ہے
آرتی کماری
بادل جو ایک یاد کا چھایا خوشی ہوئی
بارش میں اس کی خوب نہایا خوشی ہوئی
امیر امام
اس کو دکھ درد کوئی چھلے گا نہیں اس کی دنیا کا سورج ڈھلے گا نہیں
تیرے بچپن کی خوشیاں جسے یاد ہیں تیرے دامن کا جگنو جسے یاد ہے
علیم عثمانی
کتنے ہی چاند تھے اُفقِ دل پہ جلوہ گر
یادوں سے جن کی آج بھی چھنتی ہے روشنی
شکیب جلالی
وہ سر خوشی دے کہ زندگی کو شباب سے بہرہ یاب کر دے
مرے خیالوں میں رنگ بھر دے مرے لہو کو شراب کر دے
حفیظ جالندھری
ذیل میں ایک فلمی نغمہ پیش ہے جس کے لکھاری ہیں جناب سُرور بارہ بنکوی اور اس دوگانے کو آواز کا طلسم دیا تھا محترمہ مالا اور جناب مسعود رانا نے۔
تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے
اک چراغ کیا جلا سو چراغ جل گئے
راہ گزر میں پیار کی تم تھے میرے ہم قدم
تم تو ہو گئے جُدا اور بھٹک رہے ہیں ہم
دیکھتے ہی دیکھتے راستے بدل گئے
غم خوشی میں ڈھل گئے
آج بھی نگاہ میں پِھر رہا ہے وہ سما
شرم سے جُھکے جُھکے مل گئے تھے تم جہاں
ایسی بجلیاں گریں سارے خواب جل گئے
غم خوشی میں ڈھل گئے
تیری یاد آگئی غم خوشی میں ڈھل گئے
اک چراغ کیا جلا سو چراغ جل گئے
یادیں ہمیشہ خوشگوار نہیں بھی ہوتیں۔ اور جب ایسا ہوتا ہے تو کرب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس احساس کی ردا جاننے کے لیے جناب فیض اللہ خان کی نظم " تیری یاد " پیش خدمت ہے
کتنے موسم گزر گئے
ان یادوں کے سائے میں
اب بھی وہی لمحے
پھولوں کی خوشبو سے مہکتے ہیں
تمہارے دوپٹے کی سرسراہٹ
ہوا میں آج بھی سنائی دیتی ہے
تمہارا آہستہ چلنا
آج بھی دل کو گدگداتا ہے
چھت پر آنے کی وہ باتیں
اور پاگلوں کی طرح انتظار
کیسا دیوانہ پن تھا
کتنی خاموشی تھی،
لیکن دل کی دھڑکنیں
باتیں کرتی تھیں
آج بھی تمہیں ڈھونڈتا ہوں
ہر چہرے میں تمہیں دیکھنے کی کوشش
لیکن تم ہو کہ
دور کسی خواب کی طرح
بہت دور جا چکی ہو
وہ شبنم کی بوندیں
جو تمہارے گالوں پر جڑتی تھیں
وہ لمحے جیسے
کسی تیز بارش میں گم ہو گئے
کتنے برس بیت گئے
تمہارے لمس کی خوشبو سے
محرم ہو گئے
رابطے بہہ گئے،
خطوط کے الفاظ سرد ہو گئے
تمہارا دیا ہوا قلم
اب بھی میری محبت کی داستانیں لکھتا ہے
لیکن وہ لمحے
اب خواب بن گئے ہیں
تم نے کچھ نہیں کہا
نہ کوئی شکوہ، نہ کوئی گلہ
بس خاموشی سے
ایک راستہ چن لیا
اور میں،
میں آج بھی اسی خاموشی میں
تمہیں ڈھونڈتا ہوں
کبھی تم میرے تھے
یہ خیال دل کو سنبھالنے دیتا ہے
لیکن حقیقت
میری خوابوں سے مختلف ہے
تم میری نہیں رہی
اور یہ احساس
آج بھی میری راتوں کو جاگنے پر مجبور کرتا ہے
اس موضوع پر ایک انگریزی زبان کی شاعرہ میری ہیرس کی نظم " مہکتی یاد " کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے جس کی مترجم و انتخاب محترمہ " رومانیہ نور " صاحبہ ہیں
اینٹوں کی ایک بد رنگ دیوار کے ساتھ
اس کی یادوں کے چمن میں
شوخ سرخ رنگ کا پھول
اس کے خالی پن کو رنگیں بنا رہا تھا
آنکھیں بند کر کے اس نے کل کو محسوس کیا
وقت کا دھارا اس لمحے سے اٹھا کر اسے
گزرے ہوئے ایام کی کسی پیار بھری آغوش کی یاد تازہ کر گیا
اس کے ہونٹوں پر اس کا نرم بوسہ
اس کا مانوس اور پر جوش لمس
اس کی دیرپا خوش بو
ہوا کے ایک نرم جھونکے نے اس کی محویت کو توڑا
اسے یاد دلایا ہے کہ وہ چلا گیا ہے
خلا میں کہیں تقسیم شدہ
اور شوخئ تقدیر کے ہاتھوں
جان و دل ہوئے جدا
وہ ہوا میں اڑتے پتوں کی طرح بہہ رہی تھی
اپنے پسندیدہ پھول سے ٹوٹ کر جب یہ دلکشی سے کھلا تھا
خوشبو اس کے حواس میں بھر رہی تھی
ہمیشہ یہ خوشبو، اس کی تنہائی کو مہکاتی تھی
مہکتی یادوں میں سانس لیتے ہوئے وہ ہار گئی
ایک خاموش آنسو کے بہنے کی طرح
جو اس کے چہرے کے خدوخال کا سفر کرتا ہوا
اس کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر آ گرا
گزرے کل میں پہنچتے ہوئے
اس نے اپنا گال دھندلائے ہوئے پتھر پر رکھ دیا
اور اترتی رات سے سرگوشی کی
مجھے اپنے اندھیروں کے سائے میں ڈھانپ لے،
اس کی یاد مجھے تھامے
پھر وہ مجھے نرمی سے چومے اور مجھے شب بخیر کہے
جب کہ چمن کی خوشبو ہمیں محبت کی آغوش میں لپیٹ لے
Poem " Fragrant Memory " by Marie Harris
Fragrant Memory۔۔۔۔
Against a fading brick wall
In the garden of her memories
A flower of passionate red
Bled the color of her emptiness
Closing her eyes she felt yesterday
Lifting her from this moment in time
Taking her back to his loving embrace
His tender kiss upon her lips
His touch so warm and familiar
His essence lingering
A breeze softly nudged her reverie
Reminding her that he was gone
A split in space and the mercurial whimsy
Of fate and the separation of heart and soul
She was drifting like a wind tossed petal
From her favorite flower as it bloomed beautifully
The fragrance wafting, filling her senses with
An aroma of forever, perfuming her loneliness
Inhaling the scented memories she succumbed
To the silent fall of a glistening tear
As it traveled the contours of her face
Landing on her outstretched hand
Reaching for yesterday
She laid her cheek against the fading stone
And whispered to the descending night
Cover me within your shade of darkness
There, let his memory hold me
Then let him kiss me softly and bid me a sweet goodnight
While the fragrance from the garden wraps us in love’s embrace