محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی؟

حضرت آدم علیہ السلام بنی آدم کے جد ہیں جسے اس زمین پر ایک امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے۔ انسان تاریخ کا اصل دورانیہ تو شاید معلوم نہین مگر یہ حقیقت واضع ہے کہ آدمی تو آدمی ہی رہے گا؛ لیکن زمین کی زندگی میں تغیر آتا رہتا ہے؛ اور خیر و شر کی جدوجہد جاری رہتی ہے مگر کبھی ایسا بدلاو آتا ہے کہ " آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں؛ محوِ حیرت ہوں کہ دنیا، کیا سے کیا ہو جائے گی"۔ یہ مضمون اس حیرت کدہ میں ہونے والے خیر و شر کو واضع کرتا ہے۔

2024-11-30 09:15:55 - Muhammad Asif Raza

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

 

محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی؟

 

اللہ سبحان تعالی نے یہ دنیا بنائی اور حضرت آدم علیہ السلام کی معرفت ابنِ آدم کو خلافتِ ارضی عطا کی۔ یہ زمین اور اس پر موجود ساری تاریخ؛ ساری داستانیں اور آثار الصنادید اس پر گواہی دیتے ہیں کہ انسان نے اس زمین پر وادیاں، پہاڑ، اور بستیاں آباد کیں۔ انسان کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ امن، دل و انصاف کو رواج دے گا۔ مگر ایسا ہوا نہیں۔ ابنِ آدم نے اپنے نفس کی غلامی کو ترجیح دی اور شیطان مردود کی پھیلائی گمراہی میں کھو گیا۔ جب انسان اپنے خالقِ حقیقی کی راہ کھو دیتا ہے تو وہ اپنی زندگیوں کو برباد کردیتا ہے اور اپنی بستیوں کو اس طرح تاراج کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

 

انسان ابلیسیت کی راہ پر چل کر ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیتا ہے کہ تاریخ ان کے چلن پر حیران ہوتی ہے۔ ایسے حالات بن جاتے ہیں کہ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ انسانوں کی بستی میں یہ حیوانِ ناطق نما درندہ صفت گروہ کون ہیں؟ یہ وہ اَسْفَلُ السّافِلِین ہیں جودراصل " الْقِرَدَةَ وَ الْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَ " کی تفسیر ہیں۔

 

راکھ کر دے گی یہ چمن سائیں

اب کے بھڑکی ہے جو اگن سائیں

فرحانہ امبر

 

اولادِ آدم انسان اللہ سبحان تعالی کی بہترین مخلوق ہے؛ یعنی اشرف المخلوقات کا مقام عطا فرمایا ہے خالقِ کُل نے؛ مگر ایک دشمن ابلیس بھی ساتھ جوڑ دیا ہے اور خود بنی آدم کی ذات کا حصہ بنایا " نفس " کو جو آمجگاہ ہے شیطان کی؛ اور شیطان کی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ بنی آدم بد ترین حقارت کے مقام، پست ترین درجہ تک گر جاتا ہے۔ پست ترین حقارت آمیز انسان کون ہوتے ہیں؟ طاغوت ’’ طغیٰ‘‘ سے ہے جس کا مطلب ہے حد سے تجاوز کرجانا، سرکش ہو جانا اور عبد الطاغوت وہ بندے؛ لوگ، انسان ہیں جو انسانیت کے حد سے گذر جاتے ہیں۔ قرآن نے انکی مثالیں بیان کی ہیں مگر آج انسان سمجھتا ہے کہ وہ اساطیر ہیں؛ کہانیاں ہیں بادشاہوں کی اور ظالموں کی؛ مگر ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایسے افراد کبھی اکیلے نہیں ہوتے۔ ایک گروہِ حیوان انکا قبیل ہوتا ہے اور وہ جتھہ بن کر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ تاریخ نام تو چنگیز اور ہلاکو کا لیتی ہی مگر وہ اکیلے ہی تباہی نہیں مچاتے تھے؛ انکے ہمراہ ایک جتھہ ہوتا تھا۔

 

 

بتاؤ آگ لگانی ہے کس کے گھر کو ابھی

یہاں پہ لوگ بڑھاوے میں آ ہی جاتے ہیں

جہانزیب ساحر

 

ہر نمرود اور فرعون کو عَبَدَ الطَّاغُوْتَ کا گروہ میسر ہوجاتا ہے۔ اس گروہ کے افراد کی پہچان قرآن نے بیان کردی ہے؛ بندر اور خنزیر والی خصلتوں والے لوگ ہوتے ہیں۔ ایسے انسانوں کا گروہ لگڑ بھگڑوں کا ریوڑ ہوتا ہے؛ جو اکیلے ہوں تو گیڈر اور جتھہ بردار ہوں تو شیر پر بھی حملہ کردیں۔ اور بھوکے ہوں تو اپنوں ہی میں سے کمزور کو کھا جائیں۔ ایسے انسانوں کی بستی ویرانوں اور جنگلوں سے بدتر ہوجاتی ہے جب "عبد الطاغوت " چھتر سایہ بن جاتے ہیں۔ منگول لشکروں نے آبادیاں ویران کر دیں تھیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ جب اللہ سبحان تعالی کسی بستی کو انکی گمراہی کے سبب اجاڑنا چاہتے ہیں تو تبھی "عبد الطاغوت " وہاں پھیل جاتے ہیں۔ ایسی بستی میں عقل کی بات سمجھانےوالے کی آواز صدا بہ صحرا ہوجاتی ہے۔

 

کتنا چپ چاپ ھے ماحول میری بستی کا

ماتمی خانہ بدوشوں کے بسیروں جیسا

مُحسن نقوی

 

شاعرِ عوام جناب حبیب جالبؔ نے مصائب زدہ معاشرے کا نوحہ کچھ یوں لکھا تھا۔ ایک ایسا معاشرہ جو عبد الطاغوت سے بھرا ہو۔

 

اے نظامِ کہن کے فرزندو

اے شبِ تار کے جگر بندو

یہ شبِ تار جاوداں تو نہیں

یہ شبِ تار جانے والی ہے

تابکے تیرگی کے افسانے

صبحِ نَو مُسکرانے والی ہے

 

اے شبِ تار کے جگر گوشو

اے سَحر دُشمنو سِتم گوشو

صُبح کا آفتاب چمکے گا

ٹوٹ جائے گا جہل کا جادُو

پھیل جائے گی اِن دیاروں میں

علم و دانش کی روشنی ہر سُو

 

اے شبِ تار کے نگہبانو

شمعِ عہدِ زیاں کے پروانو

شہرِ ظُلمات کے ثنا خوانو

شہرِ ظُلمات کو ثبات نہیں

اور کُچھ دیر صُبح پر ہنس لو

اور کُچھ دیر کوئی بات نہیں

 

اردو زبان کی شاعرہ پروین شاکر نے اپنی زمین پر ایک احسان یہ کیا ہے کہ انہوں نے عورت کے جزبات کو؛ ان دکھوں کو جو معاشرہ اور انسان کسی عورت پر وارد کرتے ہیں، کو بہت خوبصورت طریقے سے بیان کیا ہے۔ آئیے ذیل میں انکی ایک نظم پڑھتے ہیں جو ہمارے مضمون کو مزید واضع کرتا ہے۔

 

مَیں رنگ میں دیکھتی تھی ،خُوشبو میں سوچتی تھی!

مُجھے گُماں تھا

کہ زندگی اُجلی خواہشوں کے چراغ لے کر

مرے دریچوں میں روشنی کی نوید بن کر اُتر رہی ہے

میں کُہر میں چاندنی پہن کر

بنفشی بادل کا ہاتھ تھامے

فضا میں پرواز کر رہی تھی

سماعتوں میں سحاب لہجوں کی بارشیں تھیں

بصارتوں میں گلاب چہروں کی روشنی تھیں

ہوا کی ریشم رفاقتیں تھیں

صبا کی شبنم عنائتیں تھیں

حیات خوابوں کا سلسلہ تھی!

کُھلیں جو آنکھیں

 تو سارے منظر دھنک کے اُس پار رہ گئے تھے!

نہ رنگ میرے ، نہ خواب میرے

ہُوے تو بس کچھ عذاب میرے

نہ چاند راتیں ، نہ پُھول باتیں

نہ نیل صبحیں ، نہ جھیل شامیں

نہ کوئی آہٹ ، نہ کوئی دستک

حروف مفہوم کھو چکے تھے

علامتیں بانجھ ہوگئی تھیں

گلابی خوابوں کے پیرہن راکھ ہوچکے تھے!

 

زمین پر جب بھی انسان اپنی حد سے بڑھا ہے اور اس نے اپنے نفس کی پیروی کرتے ہوئے اقدامات اٹھائے ہیں؛ اس نے ابلیس کی پیروی کی ہے۔ اور ماوں کی گود اجاڑی ہے؛ سہاگنوں کا آنگن سونا کیا ہے؛ بچوں کو یتیم کیا ہے۔ اور ایسا سب کچھ محض چند سکوں اور عارضی لذت دہن و بدن کے حصول کے یے کرتے ہیں۔ وقتی طور پر انکا نام گونجتا ہے مگر پھر تاریک انکو دشنام عطا کرتی ہے۔ پھر انکو کوئی سلام نیں کرتا۔ کوئی انکے مزار نہیں ہوتے اور نہ کوئی چراغ جلائے جاتے ہیں۔

 

 " اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ "



کوئی سلام نہیں اُن لوگوں پر:

جنہوں نے ماوں کے گھر کی روشنی گل کر دی؛

کئی سہاگنوں کے آنگن کو تاراج کیا؛

اور بستیوں کو کبھی نہ ختم ہونے والی تاریکی میں دھکیل دیا۔

 

کوئی سلام نہیں اُن پر:

جنہوں نے جوان دلوں کی دھڑکن اور بدن کی گرمی چھین لی؛

اور پر امنگ، پر امید خدا پرست روحوں کو جسموں سے الگ کرڈالا؛

اور بچوں کو ایسی تنہائی میں چھوڑ دیا جہاں قربت ڈرانے لگی؛

 اور وہ زندگی سے بھاگنے لگے۔

 

کوئی سلام نہیں اُن پر:

جنہوں نے زمین میں دھوکہ دہی کا بیج ہے بویا؛

حسین خوابوں کو بے رحمی سے ہے کچل ڈالا؛

اور وادیوں کو، بستیوں کو سکونِ قلب سے ہے محروم کر ڈالا۔

 

کوئی سلام نہیں اُن پر:

جو شہیدوں کو ہمیشہ کی زندہ دے کر؛ پیچھے والوں کو اندر سے مار گئے؛

کوئی بھلا لاشوں سے ایسا کرتا ہے؛

جنگ تو زندہ سے کی جاتی ہے۔

 

میرے عدو ! تو طاغوت کی نشانی ہے؛

کوئی سلام نہیں تجھ سے؛ تو یزیدت کا حامی، ابلیسیت کا مظہر ہے؛

تجھ پر سدا کی لعنت ہے۔

 

اللہ خالق و مالک کُل نے یہ زمین بنی آدم کے لیے عارضی مستقر بنیایا ہے۔ یہاں ہمیشہ خیر و شر کی جدوجہد جاری رہتی ہے؛ یہی جَلَّ جَلالُہ وَ جَلَّ شانُہ کی منشاء اور شریعت ہے۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ اس کا بندہ اس دارالامتحان میں کیسے وقت گذارتا ہے؟ اس نے انسانوں کے مشعل راہ کے لیے کتابیں اور رسول بھیجے ہیں؛ اور بتایا ہے کہ زندگی کیسے گذارنی ہے؟

 

جس قوم کے دل میں ہوں جذبات براہیم

اس ملک پہ نمرود حکومت نہیں کرتا ( ترمیم شدہ)

پکڑا ہی گیا ہوں تو مجھے دار پہ کھینچو

سچا ہوں مگر اپنی وکالت نہیں کرتا

 

دنیا میں قتیلؔ اس سا منافق نہیں کوئی

جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

قتیل شفائی


اے بنی آدم؛ اس زمین پر ہماری زندگی ایک امتحان ہے؛ جسے خیر و شر کی جدوجہد سے تشبیہ دیا جاتا ہے؛ اور اس کشمکش میں کامیابی کا راستہ اپنے نفس پر قابو پانے سے ہے؛ اور اس کی کنجی چاہِ دنیا اور کششِ دینار و درھم سے اجتناب کرنا ہے اور سادہ زندگی اختیار کرنا ہے۔ وَ مَا عَلَیۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿ ۱۷﴾سورة يس


More Posts