A heart felt expression in difficult times being faced with reference to good times spent with child hood friends.
وہ میرا لنگوٹیا یار ہے؛ میرے بچپن کا ساتھی۔ وہ میرے ساتھ ساتھ بڑا ہوا ہے اور زندگی کے سرد گرم؛ دکھ سکھ ، اونچ نیچ اور اچھے برے دنوں کے رسیا رہا ہے۔
ایسا یار ہے کہ پہلے پہلے پیار کی طرح ہے؛ جو دل کی نہاں خانے میں چپک رہتا ہے؛ اسے آپ خود سے الگ نہی کرسکتے۔ کھرچ نہی سکتے، دور نہی کرسکتے۔ خوش نصیبی ہوتی ہے کہ اگر ایک سے زیادہ ہوتے ہیں۔ میرا بخت بلند رہا ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ ایک مٹی تلے جا سویا ہے اور دوسرے غم روزگار میں شہر اور وطن چھوڑ گئےہیں۔
ایک یار آج آیا، ساتھ ناشتہ کیا ہے اور سیر حاصل گپ شپ لگائی؛ مگر آج اس نے عجب فرمائش کی۔ کہا کہ اپنی آنکھ بند کرلوں اور خود کو خول میں بند کرلوں اور غمِ دنیا کو بھول جاوں۔
وہ مجھے جانتا ہے اور میں اسے جانتا ہوں۔ ایک عمر تھی زندگی کا حسن آنکھوں کا بھاتا تھا، شعر و نغمہ میں دلکشی اور رعنائی کا اظہار بھی بھلا لگتا تھا۔ حسن یوسف اور زلیخا کا قصہ پسند آتا تھا۔ اس نے کہا کہ عارض اور رخسار کی باتیں کروں؛ گل کی پنکھڑیوں اور آنکھوں میں تیرتے اشاروں اور شکایتوں کی بات کروں۔ ایسی ہی فرمائش ایک دوسرے یار نے بھی کچھ دن قبل کی تھی کہ احتیاط کروں۔
میرے عزیزِ جان ساتھیو؛ بھلا کربل میں بیٹھ کر کوئی طربیہ گیت کیسے بیان کروں؟ ہاں یہ درست ہے جو فیض نے کہا ہے
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہو جائے
اور رب کریم کا احسان ہے کہ سب کچھ حاصل ہے؛ تقدیر سے کوئی شکوہ نہی؛ سنگت کا کوئی دکھ نہی؛ لیکن کیا زندگی محض ذاتی محور میں قید ہے؟ کیا زمانے میں محبت کے سوا اور کوئی دکھ نہی اور کیا وصل کی راحت کے سوا اور کوئی راحت نہی؟
بشیر فاروقی نے ایک بات کی ہے کہ
آگہی کرب وفا صبر تمنا احساس
میرے ہی سینے میں اترے ہیں یہ خنجر سارے
امیر مینائی نے شاید میری ہی ترجمانی کی جب کہا کہ
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
میرے ساتھیو؛ یقین کریں کہ کوشش خوب ہوگی مگر دل و دماغ کو مقید کیسے کریں؟ جب جا بہ جا بکتے ہوں کوچہ و بازار میں جسم؛ قانون خود عامیوں کو خاک میں لتھڑائے؛ خون میں نہلائے۔ کوئی کیسے نظر انداز کرے وہ روحیں جو امراض میں لپٹے ہوں اور ہوں معاشرے کے ناسور؛ مگر اپنی پیپ کو مرحم بنا کر پیش کریں۔ خود کو کیسے تسلی دوں کہ "لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے"؟
بہرحال پہلی محبت کی طرح یاروں کی فرمائش ہے تو دل لے کر بازار میں نکلتا ہوں؛ دیکھتا ہوں کہ کیا خریدار آتے ہیں؟ دیکھوں تو سہی کونسا چاند ستاروں سے آنکھ بچا کر میری چھت پر اترتا ہے۔ کوئی یہ نا کہے کہ کیا خوش فہمیاں ہیں جو خود کو یوسف سمجھ کر سرِ بازار آ گئے ہیں۔ اب چھیڑنے لگا ہوں قامتِ گیسو کی حکایتیں؛ سو اگر ذکر آجائے دار و رسن کا تو دیوانہ سمجھ کر درگذر کیجیے۔
اب دوستوں کا حکم تو استاد غالب کا فرمان ہے
تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
تحریر محمد آصف رضا
Planning hibachi catering for a business event can be a fantastic way to impress your clie...