ماہِ صیام تقوی و علم

Al Quran is the final Holy Book revealed upon the Last of Prophets Hazrat Muhammad (PBUH). Quran and Sunnah is only source of holy guidance with detailed instructions for each and every walk of human life for a Muslim. Life is a journey which offers its bounty to only those who undertake this journey as per some principles and time tested methods. This write up in Urdu "ماہِ صیام تقوی و علم" is a discussion for successful observance of the holy month of Ramazan for people of knowledge.

2025-03-16 11:41:22 - Muhammad Asif Raza

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے


ماہِ صیام تقوی و علم

 

تمام تعریفیں اللہ سبحان تعالی کو سزاوار ہیں جوہمارا خالق و مالک ہے؛ جس نے ہمیں پیدا کیا اور ہمیں موت دیتا ہے اور روزِ قیامت ہمیں اکھٹا کرے گا تاکہ ہمارے اعمال کا حساب کتاب فرمائے۔ یہ اللہ تعالی کا احسان ہے کہ وہ سالانہ ہمیں اُس احتساب میں کامیاب کرنے لیے آسانیاں عطا فرماتا ہے اور وہ آسانی ماہِ صیام ہے۔ اللہ سبحان تعالی، رحمن و رحیم کی وہ ذات ہے جس نے ہمیں ماہِ رمضان کی گراں قدر دولت سے نوازا ہے تاکہ ہم تقوی کا حصول کرسکیں۔

 

اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم پرہیز گار/ متقی بن جاؤ۔ القرآن سورۃ البقرۃ آیت 183

 

آیت میں بتایا گیا کہ روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں نفس پر گرفت سکھائی جاتی ہے۔ حلال جائز اعمال اور کھانے پینے سے رکنا ہوتا ہے؛ جس سے خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے۔ ماہِ صیام ضبط ِنفس اور حرام سے بچنے کی مشق ہے اور یہی ضبط ِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیاد ہے جس کے ذریعے مسلمان غلط اور صحیح کے ادراک کا شعور پختہ کرتا ہے؛ اور گناہوں سے بچتا ہے، محفوظ ہوتا ہے۔ یہی تقوی اور پرہیز گاری ہے۔ مذکورہ بالا قرآنی آیت مبارکہ میں روزے کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ اور اگر انسان روزہ رکھ کر بھی تقویٰ حاصل نہیں کرتا تو پھر اس نے روزے کے حقیقی مقصد کو نہیں پایا۔


اس مضمون کا مقصد علم والوں کے لیے ماہِ صیام کی افادیت اور اہمیت پر توجہ دلانا ہے۔ عربی میں ’’صوم‘‘ کا لغوی معنی کسی ارادی فعل سے باز رہنے اور رُک جانے کا ہے۔ آئیے غور کیجیے کہ کہ آج کی علم اور فن کی جدید دنیا میں طالبعلم؛ عالم اور علم والے افراد اور دانش مندوں کو علم اور شعور کی تلاش میں کہاں رک جانا چاہیے؟ اور کس سطح کی تگ و دو سے باز رہنا چاہیے؟

 

ہم انسان خاص طور پر مسلمان؛ آج جس دنیا میں جی رہے ہیں اور جس طرح کی تہذیب برت رہے ہیں وہ برِّ اعظم ایشیاء اور افریقہ کی نوآبادیاتی غلامی کے بعد میں قائم ایک نظام ہے جس کے مَدار الْمَہام یورپی اور امریکی قومیں اور تہذیب ہے۔ ان ممالک میں زیادہ تر عیسائی بستے ہیں جو محض نام ہی کے حضرت عیسی علیہ السلام کے ماننے والے پیروکار ہیں؛ درحقیقت انکی بڑی واضع اکثریت لبرل ہیں؛ آزاد انسان جن کا اوڑھنا بچھونا نفس کی بے مہابا آزادی کے ساتھ پیروی کرنا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ہے کہ انسانوں کی فکر انکے زندگی کے نظریات کی بنیاد ہوتے ہیں؛ اور وہی نظریات انسانوں کے دیگر معاملات زندگی پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ تو بھلا علم کیسے انکے نظریات اور فکری آزادی سے محفوظ رہتا؟

 

آج مغربی اقوام نے بلاشبہ سائنس اور ٹیکنولوجی اور اس کے نتیجے میں صنعت و حرفت میں بے تحاشہ ترقی کررکھی ہے۔ اور ہر طرف انکا ڈنکہ بجتا ہے۔ علم کے حصول کے لیے دنیا بھر کے ذہین افراد مغربی درسگاہوں ار جامعات کا رخ کرتے ہیں۔ اور کیاعجب ہے کہ پھر ان ہی کے غلام بن کر رہتے ہیں۔ ان سا رہن سہن، بول چال، رکھ رکھاو اور آخر میں انہی کے نظریات کے حامل بن جاتے ہیں۔ اور کمال یہ کرتے ہیں کہ اپنے آباو اجداد کو گمراہ، اجڈ، گنوار اور بے فیض ماننے لگتے ہیں۔ یہ مضمون ذہین افراد کو متنبہ کرنا ہے کہ علم کے حصول کے لیے جہاں چاہو جائیں مگر یاد رکھیے گا کہ ہدایت اور دانش کی واحد کتاب قرآن ہے؛ سو اسے کسی صورت میں پس پشت مت کرنا۔

 

اللہ سبحان تعالی نے سورۃ نجم کی آیت 29 ، 30 میں فرمایا ہے اور تنبیہ کی ہے۔غور فرمائیے؛-۔

 

سو آپ اپنی توجّہ اس سے ہٹا لیں جو ہماری یاد سے رُوگردانی کرتا ہے اور سوائے دنیوی زندگی کے اور کوئی مقصد نہیں رکھتا۔

یہ ان کے علم کی انتہا ہے۔ بیشک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے جس نے ہدایت پائی۔

 

اللہ سبحان تعالی نے سورۃ الروم کی آیت 7 میں عالم مغرب کے علم کی حد بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:-۔

وہ صرف آنکھوں کے سامنے کی دنیاوی زندگی کو جانتے ہیں اور وہ آخرت سے بالکل غافل ہیں ۔

 

سورۃ الزمر کی آیت 9 میں اللہ تعالی عقل والے دانش مند افراد سے متعلق مزید فرمایا ہے کہ

بھلا (یہ مشرک بہتر ہے یا) وہ (مومن) جو رات کی گھڑیوں میں سجود اور قیام کی حالت میں عبادت کرنے والا ہے، آخرت سے ڈرتا رہتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے؛ فرما دیجئے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں؟ بس نصیحت تو ( اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ) عقل مند لوگ ہی قبول کرتے ہیں۔

 

علم کی اہمیت کے ضمن میں آقا کریم محمدﷺ کا بیان پیش کرتے ہیں کہ

حضرت کثیر ابن قیس ؓ فرماتے ہیں کہ میں (ایک صحابی) حضرت ابودردا ؓ کے پاس دمشق (شام) کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں سرکار دو عالم ﷺ کے شہر سے آپ کے پاس ایک حدیث کے لئے آیا ہوں جس کے بارے میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسے آپ سرکار دو عالم ﷺ سے نقل کرتے ہیں۔ آپ کے پاس میرے آنے کی اس کے علاوہ اور کوئی غرض نہیں ہے ( یہ سن کر) حضرت ابودردا ؓ نے فرمایا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے یہ سنا کہ جو آدمی کسی راستہ کو (خواہ لمبا ہو یا مختصر) علم دین حاصل کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بہشت کے راستہ پر چلاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی رضا مندی کے لئے اپنے پروں کو بچھاتے ہیں اور عالم کے لئے ہر وہ چیز جو آسمانوں کے اندر ہے (یعنی فرشتے) اور جو زمین کے اوپر ہے (یعنی جن وانس) اور مچھلیاں جو پانی کے اندر ہیں دعائے مغفرت کرتی ہیں اور عابد پر عالم کو ایسی ہی فضیلت ہے جیسے کہ چودہویں کا چاند تمام ستاروں پر فضیلت رکھتا ہے اور عالم انبیاء (علیہم السلام) کے وارث ہیں۔ انیباء وراثت میں دینار و در ہم نہیں چھوڑ گئے ہیں، ان کا ورثہ علم ہے لہٰذا جس نے علم حاصل کیا اس نے کامل حصہ پایا۔ [مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ]

 

ہر مسلمان نماز کے لیے اللہ تعالی کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کرتا ہے تو اللہ سے عرض گذار ہوتا ہے "اهدنا الصراط المستقيم"؛ یعنی ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر چل کر انسان اس قول کا حامل بنتا ہے کہ "يقول ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار"؛ "یعنی اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا"۔

 

صراط المستقیم انسان کو دنیا و آخرت میں حسنۃ، خیر و بھلائی عطا کرتا ہے۔ علم کا حصول بھی تو خیر اور بھلائی کے لیے کیا جاتا ہے۔ مگر محصول شدہ علم ہی تباہی کی جانب لے جائے تو تلاش کی منزل درست نہیں ہوگی۔ آج کی دنیا کا علم حاصل کرنے سے ارضی راحت اور سکون حاصل ہوجائے گا مگر آخرت کی بھلائی جو اصل مغز یعنی اصل مقصد زندگی ہونا چاہیے؛ اس کا کیا؟ علم کا حصول کریں؛ کسی بھی قوم کے افراد سےزیادہ لگن اور محنت سے جڑ جائیں؛ مگر یہ جان رکھیں کہ دنیا کی زندگی میں خیر کی تلاش نکلے گا الصراط المستقیم سے؛ یعنی اس دنیا میں زندگی گذارنے کا سیدھا طریقہ، سیدھا راستہ جو ایسا حصول علم ہو جو اللہ سبحان تعالی کی رضا کا باعث ہو اور فلاح انسانیت کا موجب ہو۔

 

دنیا میں کسی بھی دین نے تعلیم وتعلم کا وہ اہتمام نہیں کیا جو دین اسلام نے کیا ہے۔ دین اسلا م میں جہاں علم کے حصول پر زور دیا گیا وہیں تقویٰ کو بھی علم کے حصول کا جزو لازم قرار دیا۔ اللہ سبحان تعالی نے سورۃ فاطر کی آیت 28 میں فرمایا ہے کہ " اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چوپایوں کے مختلف رنگ ہیں ۔ اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں بیشک اللہ عزت والا، بخشنے والا ہے"۔ ’’اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں اور اس کی صفات کو جانتے اور اس کی عظمت کو پہچانتے ہیں اور جو شخص جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا علم رکھتا ہو گا وہ اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو گا اور جس کا علم کم ہو گا تو ا س کا خوف بھی کم ہو گا "۔

 

اللہ سبحان تعالی نے سورۃ التوبہ کی آیت 122 میں جہاد اور دین کی سمجھ بوجھ کے ضمن میں فرمایا ہےجو بہت قابلِ غور ہے کہ " علم حاصل کرنے کے لئے سب مسلمانوں کا اپنے وطن سے نکل جانا درست نہیں کہ اس طرح شدید حَرج ہوگا توجب سارے نہیں جاسکتے تو ہر بڑی جماعت سے ایک چھوٹی جماعت جس کا نکلنا انہیں کافی ہو کیوں نہیں نکل جاتی تاکہ وہ دین میں فقاہت (علم اور سمجھ) حاصل کریں اورا س کے حصول میں مشقتیں جھیلیں اور اس سے ان کا مقصود واپس آ کر اپنی قوم کو وعظ و نصیحت کرنا ہو تاکہ ان کی قوم کے لوگ اس چیز سے بچیں جس سے بچنا انہیں ضروری ہے"۔


اے علم کے متوالو( اُولُوا الۡاَلۡبَابِ )؛ عقل و خرد کے دیوانو؛ آو؛ آج کی دنیا میں پھلیےعلم کے سمندر میں سے وہ خزانے، جو اللہ سبحان تعالی کی حقانیت اور وحدانیت سے معمور ہوں اور شرک اور عدوان سے مبرا ہوں اور فلاح انسانیت کے لیے ہوں؛ کو الگ کرلیں اور ملک قوم اور امت کی رہنمائی کے لیے پیش کریں۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ علم کا حصول دنیا کی دولت اور شہرت کے لیے نہیں ہونا چاہیے بلکہ تقوی کے حصول کے لیے کرنی چاہیے۔ اور یہی علم والوں کے لیے ماہِ صیام کا پیغام ہے۔

More Posts