ماہِ جولائی: گرم و مرطوب

جولائی جولین اور گریگورین کیلنڈر میں سال کا ساتواں مہینہ ہے۔ ماہِ جولائی رومی جنرل جولیس سیزر کے نام سے موسوم ہے۔ موسم گرما، ماہِ جولائی میں اپنی انتہائی خطر ناک شکل میں ہوتا ہے۔ یہ مہینہ آباد انسانی دنیا کے ایک بڑے حصے میں شدید گرمی کا موسم ہے۔ مگر یہی گرمی اور مرطوب فضا انسانی صحت کے لیے مفید بھی ہے۔ اس تحریر کا مقصد بینگ باکس کے قارئیں کو ماہِ جولائی سے متعلق معلومات سے آگاہ کرنا ہے۔

2024-07-04 08:31:55 - Muhammad Asif Raza

 

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

 

ماہِ جولائی: گرم و مرطوب

 

یہ بہت سال قبل یا شاید صدیوں پہلے کی بات ہے کہ ناچیز ابھی سکول کی پرائمری جماعت ہی میں تھا، اور ماہِ جولائی میں گھر کے صحن سے متعصل برآمدے میں گرمیوں کی چھٹیوں کا کام کر رہا تھا تو میرا لنگوٹیا ساتھی آن دھمکا اور مجھے مصروف دیکھ کر بولا " لکھ رہے ہو؟ اس گرمی میں ؟ باولا گیا ہےکیا؟ چل تالاب میں ڈبکیاں لگاتے ہیں"۔

یقین کیجیے کہ آج کل کی شدید گرمی میں اس تحریر کی تاب نہ ہوتی اگر ٹھنڈی مشین کا یارا نہ ہوتا۔ الحمداللہ

 

جولائی جولین اور گریگورین کیلنڈر میں سال کا ساتواں مہینہ ہے۔ ماہِ جولائی رومی جنرل جولیس سیزر کے نام سے موسوم ہے؛ کیونکہ رومن سینیٹ نے 44 قبل مسیح میں اس کو عزت بخشنے کے لیے یہ نام دیا تھا۔ جولیس خود بھی اسی مہینے میں پیدا ہوا تھا۔ اس سے پہلے اسے " کیونٹلس" کہا جاتا تھا، یہ کیلنڈر کا پانچواں مہینہ تھا جو اس وقت مارچ سے شروع ہوتا تھا۔ یہ 31 دنوں کے سات مہینوں میں سے ایک ہے۔

 

موسم گرما یا تابستان منطقہ معتدلہ کے چار موسموں میں سے ایک ہے۔ [ جغرافیہ میں معتدل آب و ہوا زمین کے درمیانی عرض بلد پر وقوع پزیر ہے۔ اسے منطقہ معتدلہ بھی کہتے ہیں۔ منطقہ معتدلہ ، منطقہ حارہ اور منطقہ باردہ کا درمیانی منطقہ ہے۔ آب و ہوا کی درجہ بندی کے لحاط سے زمین کے 35 عرض بلد شمال اور 50 عرض بلد شمال کے درمیانی علاقے کو شمالی معتدل آب و ہوا یا منطقہ معتدلہ شمالی اور زمین کے 35 عرض بلد جنوب اور 50 عرض بلد جنوب کے درمیانی علاقے کو جنوبی معتدل آب و ہوا یا منطقہ معتدلہ جنوبی سے منسوب کیا جاتا ہے۔] پاکستان میں گرمیوں کا آغاز اپریل کے وسط سے ہو جاتا ہے۔ جون جولائی سخت گرم مہینے ہوتے ہیں۔ 15 جولائی کو ساون کا آغاز ہوتا ہے اور مون سون پاکستان پہنچتا ہےتو موسم گرم اور مرطوب ہو جاتا ہے۔ جولائی کا مہینہ سال کے وسط کی طرف اشارہ کرتا ہے، کیونکہ اس سے سال کا دوسرا نصف شروع ہوتا ہے۔

 

 بہت سے لوگوں کے لیے ماہِ جولائی تفریح کا مہینہ بھی سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا کے مختلف خطوں کے تمام تعلیمی اداروں میں بڑی تعطیلات پیش کرتا ہے۔ شمالی نصف کرہ کے بیشتر حصوں میں یہ اوسطاً گرم ترین مہینہ ہے، جہاں یہ گرمیوں کا دوسرا مہینہ ہے، اور جنوبی نصف کرہ کے بیشتر حصوں میں سرد ترین مہینہ ہے، جہاں یہ سردیوں کا دوسرا مہینہ ہے۔ جنوبی نصف کرہ میں، جولائی شمالی نصف کرہ میں جنوری کے موسمی مساوی ہے۔

 

پاکستان جیسے ملک میں بھی جولائی نئے مالی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ مالی سال وہ سال ہے جس میں آپ نے آمدنی حاصل کی ہوتی ہے۔ مالی سال میں ہم آمدنی کے بارے میں بات کرتے ہیں اور پیسے کے معاملات زندہ ہو جاتے ہیں. انسانوں کو رہائش، خوراک، صحت کی دیکھ بھال کے بل، اور اچھی تعلیم جیسی چیزوں کے لیے زندگی کو ممکن بنانے کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آخرکار ہم سب خوشی کی تلاش میں ہیں۔

 

یہاں یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے خطہ میں ماہِ جولائی بارش کا موسم ہوتا ہے یعنی "مون سون" جو کہ گرم اور مرطوب موسم کے بارے میں ہے اور اسی طرح دوسرے خطوں میں بھی بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں کیونکہ سورج موسم گرما کی طرف جھک جاتا ہے۔ تمام شمالی سمندروں کو گرم کرنے کے لیے انتہائی بنفشی شعاعوں اور گرمی کی بارش ہوتی ہے اور موسم بہار ایکوینوکس کے بعد فضا میں بہت زیادہ بخارات بنتے ہیں۔ گرم اور مرطوب موسم بارشوں کی صورت میں نکلتا ہے اور آب و ہوا کو نم کر دیتا ہے۔

 

موسم گرما، ماہِ جولائی میں اپنی انتہائی خطر ناک شکل میں ہوتا ہے۔ یہ مہینہ آباد انسانی دنیا کے ایک بڑے حصے میں شدید گرمی کا موسم ہے۔ پاکستان اور دیگر برصغیر ہندوستان میں اس شدت کی دھوپ پڑتی ہے کہ دوپہر کوباہر نکلنا دشوار ترین ہوجاتا ہے۔ اس کرہ ارض کے ایک بڑے حصے میں گرمی کا موسم اپنے شباب پرہوتا ہے۔ دھوپ کی شدت اور دن میں لُو کے تھپیڑے کیا انسان اور کیا دیگر مخلوقات،، سب کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔ دوپہر ہوتے ہوتے سڑکیں ویران ہوجاتی ہیں۔اور ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ آبادی انسانوں سے خالی ہے۔

جولائی کی خوش خبریاں


جولائی کی علامت دلیری، باوقاریت اور بیرونی مہم جوئی کے علاوہ خوشی، قناعت اور دھوپ میں بہت مزہ کی بات کرتی ہے۔ یہ مہینہ سیاحوں اور تفریح پسند انسانوں کی لیے خوشخبری ہوتا ہے اور منایا جاتا ہے جو قناعت، تفریح اور محبت کے حصول کی تلاش کرتے ہیں۔ ڈیلفینیم اور واٹر للی کو جولائی کے پیدائشی پھول تصور کیا جاتا ہے، جو مہینے کی متحرک توانائی اور پر سکون خوبصورتی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہر پھول اپنی منفرد علامت اور دلکشی لاتا ہے، جو اس رواں اور پرفتن موسم گرما کے مہینے میں پیدا ہونے والوں کو منانے کے لیے ایک بہترین جوڑا بناتا ہے۔ پانی کی للی پاکیزگی، خوشی اور معصومیت کی علامت ہے۔ سفید لارکس پور محبت اور خوشی کی علامت بھی ہے۔ علاوہ اذیں جولائی میں پیدا ہونے والے لوگوں کا پیدائشی پتھر روبی ہے، جو قناعت کی علامت ہے۔

 

اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں عام طور پر گرم موسم سے بچنے یا پھرطویل دنوں کا فائدہ اٹھانے کے لیے بہترین موسم ہوتا ہے؛ سو سالانہ چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ تقریباً تمام ممالک میں بچوں کو موسم گرما کے دوارن چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ انگلینڈ، ویلز اور دیگر یورپی ممالک میں اسکول جولائی کے وسط میں ختم ہوتا ہے اور ابتدائی ستمبرمیں دوبارہ شروع ہوتا ہے۔ امریکہ میں بھی موسم گرما کی چھٹی جولائی میں شروع ہوتی ہیں اورستمبر کے آغاز میں ختم ہوتی ہیں ۔

 

لوگ موسم گرما کے دوران گھر سے باہر کسی پرفضاء مقام پر زیادہ سے زیادہ وقت صرف کر کے زندگی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ماہِ جولائی میں لوگ اپنے بچوں کے ساتھ، جن کی چھٹیاں ہوتی ہیں، ساحل سمندر، دریا، اور جھیلوں پر پکنک کا سفر کرتے ہیں۔ اس طرح پانی کے کھیل جس میں پانی کی سکیٹگ، بورڈنگ، تیراکی وغیرہ شامل ہیں، اختیار کی جاتی ہیں۔

 

ہم انسان ہر موسم کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں؛ اب جولائی ہی کو دیکھیے کہ بڑوں کے لیے گرم ہے مرطوب ہے؛ گھٹن ہے پسینہ ہے؛ ہائے ہائے کیسی گرمی ہے؟ اب کتنی دفعہ نہایا جائے؟ مگر بچوں کے لیے یہ چھٹیوں کا موسم ہوتا ہے جو ٹھنڈی قُلفیاں اور آم ساتھ لاتا ہے۔ پانی کا ٹب ہو، نہر ہو، دریا ہو، لڑکے بالے، بچے بچیاں مگن ہیں، مستیاں ہیں۔ برساتیں بچوں کو خوشیاں دان کرتی ہیں۔ بچوں کی چھٹیاں ماوں کے لیے پریشانی اور آزمائش ہوتی ہےمگر بچے؛ ان کی شادمانی کی وجہ ڈھیروں کھیل کود کے مواقٰع اور خوب مزے ہوتے ہیں۔ کھیل کیا ہوتے ہیں؟ کبھی کرکٹ، کبھی فٹبال تو کبھی گلی ڈنڈا اور کبڈی؛ کبھی چور سپاہی؛ تو کبھی کھو کھو اور شام پڑتے ہی چُھپن چھپائی۔

 

ماہِ جولائی میں لذیذ اور خوش شکل پھل میسر آتے ہیں جن کا خوش ذائقہ ہونا سورج کے ہی مرہون منت ہے۔ پھلوں کا بادشاہ آم ہے جو اسی ماہ میں ہر غریب وامیر کے دستر خواں کا حصہ بنتا ہے۔ آم وہی پھل جس کے بارے مین چچا غالب نے کہا تھا کہ "آم ہوں اور بہت سارے ہوں" اور یقین جانیے کہ بارش کا پانی لگتے ہے یہ آم چاہے لنگڑا ہو، چاہے دسہری، چاہے چونسا یا سندھڑی یا انور رٹول؛ بس ٹھنڈے ہوں اور اس وقت تک ہوں کہ آدمی تھک جائے۔ پھر اور بھی پھل ہیں، جیسے جامن، آلو بخارا ہو یا خوبانی؛ سب ماہِ جولائی میں باوافر میسر ہوتے ہیں۔ اور انگور جس کی بیٹی ام الخبائث کہلاتی ہے، اسی ماہِ جولائی میں تیار ہوکر دسترخوان کی زینت بنتے ہیں۔

یہ حبس آور گرمی ہم انسانوں کی فلاح کے لیے بہت ضروری ہے۔ تحقیق ہے کہ جسم سے پسینہ نکلنے سے صحت بہتر ہوتی ہے، کیونکہ بہتا پسینہ پیاس کی طلب بڑھاتا ہے اور زیادہ پانی پینے سے انسانی جگر، گردے اور معدہ وقتاً فوقتاً صاف ہوتا رہتا ہے اور جلد بھی صاف اور چمک دار ہو جاتی ہے۔ پانی نہ پینے والے بیمار ہوجاتے ہیں۔

حضور اکرم محمد صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے موسم گرما کی تیزی کی بابت فرمایا؛ ” جب گرمی شدت اختیار کر جائے تو اسے نماز سے ٹھنڈا کرو، پس بے شک جہنم کی گرمی اس سے کہیں شدید ہے"۔

آئیے ذرا اردو ادب کے تناظر میں ماہِ جولائی کو دیکھتے ہیں

 

ادھر آنگن میں پھولوں کے گچھے کھلے پڑے تھے۔ پتی پتی میں گھر والی کے ہیولے ابھر آئے ابھی وہ گلاب کی پتی میں چھپی ڈھکی مسکرا رہی ہو۔ ایسا لگا کہ اس کےموم ایسے پیر کنول کے سفید چوڑے چوڑے پتوں پر دھرے ہوں۔ ابھی وہ موتیا کی کومل اور نازک پتیوں میں کھل کھلا کر ہنس رہی ہوں۔ ابھی ابھی وہ سورج مکھی بن کر سارے آنگن میں سنہرے سنہرے اجالے پھیلا رہی ہیں"۔

 

گرمی کی کیا شان ہے،جب آتی ہے گھروں میں پنکھے جھلے جاتے ہیں، برف کی قلفیاں کھائی جاتی ہیں، ٹھنڈے دودھ اور شربتوں سے تواضع ہوتی ہے، فصلیں پکنے لگتی ہیں، شام میں لوگ ٹھنڈے پانی سے غسل کرتے ہیں ، صحن میں چھڑکاؤ کیا جاتا ہے، پلنگ لگائے جاتے ہیں"۔





آئیے ذرا شاعروں کے نظر سے ماہِ جولائی کو دیکھتے ہیں۔ الطاف حسین حالی نےایک نظم میں گرمی کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی وجہ سے انسانوں اور جانوروں کا کیا حال ہوگیا تھا۔ گرمی کی وجہ سے تمام جاندا تڑپ رہے تھے۔ وہ لکھتے ہیں۔

 

تھیں لومڑیاں زبان نکالے

اور لو سے ہرن ہوئے تھے کالے

چیتوں کو نہ تھی شکار کی سدھ

ہرنوں کو نہ تھی قطار کی سدھ

 

اٹھتا تھا بگولے پر بگولا

آرے تھے بدن پہ لو کے چلتے

شعلے تھے زمین سے نکلتے

تھی سب کی نگاہ سوئے افلاک

پانی کی جگہ برستی تھی خاک

________________________

 

شاہین اقبال اثر کی نظم " آم ہے اور آم ہے" پیش کی جاتی ہے۔

 

چھٹیاں ہیں میں ہوں میٹھا آم ہے

اور اب میرا بھلا کیا کام ہے

 

مینگو کھانا اور پینا ملک شیک

شغل اب اپنا یہ صبح و شام ہے

 

گرمیاں ہیں گرمیاں ہیں گرمیاں

آم ہے اور آم ہے اور آم ہے

 

ناشتہ کھانا ڈنر یا لنچ ہو

آم کے موسم میں نذر آم ہے

 

میں نہیں چھوڑوں گا اب لنگڑے کی ٹانگ

چوس لوں گا چونسا ایسا آم ہے

 

آم کہتا ہے جسے سارا جہاں

غالباً جنت کے پھل کا نام ہے

 

اس کی قوت کا بھلا کیا پوچھنا

فوق صدہا پستہ و بادام ہے

 

شوق جس کو آم کھانے کا نہیں

ذوق میں وہ ہم سر انعام ہے

 

سب پھلوں کا جب تقابل ہو اثرؔ

آم ہی بس قابل انعام ہے

----------------------------

 

پھر وہی لمبی دوپہریں ہیں پھر وہی دل کی حالت ہے

باہر کتنا سناٹا ہے اندر کتنی وحشت ہے

اعتبار ساجد

 

سورج سر پہ آ پہنچا

گرمی ہے یا روز جزا

ناصر کاظمی

 

پگھلتے دیکھ کے سورج کی گرمی

ابھی معصوم کرنیں رو گئی ہیں

جالب نعمانی

 

یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشان کرے گی

کیوں ڈھونڈ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ

اطہر نفیس

 

وہ طور والی تری تجلی غضب کی گرمی دکھا رہی ہے

وہاں تو پتھر جلا دیے تھے یہاں کلیجہ جلا رہی ہے

مضطر خیرآبادی

 

شدید گرمی میں کیسے نکلے وہ پھول چہرہ

سو اپنے رستے میں دھوپ دیوار ہو رہی ہے

شکیل جمالی

 

آتے ہی جو تم میرے گلے لگ گئے واللہ

اس وقت تو اس گرمی نے سب مات کی گرمی

نظیر اکبرآبادی

 

----------------------------

 

محمد علوی ک نظم " گرمی"۔

 

رات اب سیانی ہو گئی ہے

گڑیا کھو جائے

تو روتی نہیں!

بخار میں مبتلا

بوڑھے آسمان میں

اتنی بھی سکت نہیں

کہ اٹھ کر وضو کرے

سورج خوں خوار بلے کی طرح

ایک ایک چیز پر

اپنے ناخن تیز کرتا ہے!

ہوا کا جھونکا

چوہے کی مانند

بل سے باہر آتے ڈرتا ہے!

وقت آج کل

دوزخ کے آس پاس سے گزرتا ہے!

---------------------------

 

آزاد گلاٹی کی غزل


 

دن میں اس طرح مرے دل میں سمایا سورج

رات آنکھوں کے افق پر ابھر آیا سورج

 

اپنی تو رات بھی جلتے ہی کٹی دن کی طرح

رات کو سو تو گیا دن کا ستایا سورج

 

صبح نکلا کسی دلہن کی دمک رخ پہ لیے

شام ڈوبا کسی بیوہ سا بجھایا سورج

 

آسماں ایک سلگتا ہوا صحرا ہے جہاں

ڈھونڈھتا پھرتا ہے خود اپنا ہی سایا سورج

 

دن کو جس نے ہمیں نیزوں پہ چڑھائے رکھا

شب کو ہم نے وہی پلکوں پہ سلایا سورج

-------------------------------

 

قتیل شفائی کی غزل

 

زیست کی گرمیٔ بیدار بھی لایا سورج

کھل گئی آنکھ مری سر پہ جو آیا سورج

 

پھر شعاعوں نے مرے جسم پہ دستک دی ہے

پھر جگانے مرے احساس کو آیا سورج

 

کسی دلہن کے جھمکتے ہوئے جھومر کی طرح

رات نے صبح کے ماتھے پہ سجایا سورج

 

خوب واقف تھا وہ انسان کے اندھے پن سے

جس نے بھی دن کے اجالے میں جلایا سورج

 

شب کو بھی روح کے آنگن میں رہی دھوپ قتیلؔ

چاند تاروں نے بھی آ کر نہ بجھایا سورج

ماہِ جولائی سے متعلق چند گذارشات


گرم موسم میں دماغ اور جسم کوٹھنڈا رکھنے کیلئے چند مفید مفت مشورے پیش کئے جاتے ہیں۔

 

 پیاس کی شدت میں کمی لانے کے لیے ڈھیروں پانی استعمال کیجیے۔ اور ساتھ ساتھ لیموں پانی اور گنے کا رس کے استعمال سے جسم میں گرمی لگنے کا احساس بھی کم ہوتا ہے۔

دودھ اور دودھ والے اجزاء مثلا' بٹر ملک اور لسی کے استعمال سے گرمی کا احساس کم ہوجاتا ہے اور اس کے استعمال سے معدے کی گرمی بھی کم ہوگی۔ ٹھنڈے دودھ میں بادام کا جام فرحت بخش ہوگا۔ جو یا ستو اور گُڑ کا شربت ٹھنڈا نوش فرمائیں تو جسم اور دماغ کو فرحت ملے گی۔ صندل کے شربت کے استعمال سے معدے کی گرمی کم ہوتی ہے۔ گرمی کے موسم میں مصالحہ دار کھانوں سے احتیاط برتیں اور شوربے اور کم مرچوں والی غذائیں کھائیں۔

 

جب بھی گھر سے نکلیں تو سر اور گردن پر گیلا یا سوتی کپڑا رکھیں۔ اپنی حفاظت کریں، اپنے گھر والوں کے لیے آپ بہت قیمتی ہیں۔

ابن آدم اشرف المخلوقات ہے اور اسے چاہیے کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی دوسری مخلوقات سے پیار کرے۔ چنانچہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس تپتی گرمی میں چرند پرند کا بھی خیال رکھیں؛ جو ہمارے پاس رہتی ہیں۔ انکے لیے برتنوں میں پانی رکھیں۔

اللہ سبحان تعالی نے سارے موسم ہم انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے بنائے ہیں تو ماہِ جولائی کی نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں سے فیض یاب ہوں اور شکر گذار ہوں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔


More Posts