ماہِ دسمبر؛ جاڑے کا موسم اور شاعری
December is the last month of our Calendar. Our natural year comprises four seasons. All the seasons are beautiful and life-giving, but people like some seasons better than others according to their nature. The Urdu poetry is rich in expressions about the human feelings about the last month of the year, which incidentally falls as cold winter. Here in this write up, some selection from Urdu Poetry is being shared along with mesmerizing images of the season.
2023-12-26 16:26:17 - Muhammad Asif Raza
تمھاری یاد کا ہمدم سمندر لوٹ آیا ہے
ابھی تک تم نہیں لوٹے دسمبر لوٹ آیا ہے
______________________________________
دسمبر لوٹ آیا ہے
تمھارے لوٹ آنے کی
نئی امید جاگی ہے
ابھی پچھلے برس تم نے
میرے سینے پر سر رکھ کر
حیا سے منہ چھپایا تھا
ابھی پچھلے برس ہی تو
دسمبر کے مہینے میں
تمھیں بانہوں میں تھاما تھا
مگر اپریل آنے تک
تمھاری جھیل آنکھوں میں
نیا سپنا سمایا تھا
میرے چھوٹے سے آنگن میں
تمھیں وحشت سی ہوتی تھی
مجھے تم نے بتایا تھا
کسی کی قید میں رہنا
مجھے اچھا نہیں لگتا
میں اک آزاد پنچھی ہوں
سنا ہے پھر سے تنہا ہوں
ستمبر کے مہینے میں
بہت خاموش رہتی ہو
کہ جس کو تم نے چاہا تھا
وفا کے نام سے اس کو
بہت وحشت سی ہوتی ہے
وہ اک آزاد پنچھی تھا
کسی کی قید میں رہنا
اسے اچھا نہیں لگتا
سنا ہے میرے آنگن کی
تمھیں اب یاد آتی ہے
سنا ہے تم پشیماں ہو
چلو پھر ایسا کرتے ہیں
دسمبر کا مہینہ ہے
نیا آغاز کرتے ہیں
تمھیں بانہوں میں لے لوں میں
میرے سینے پر سر رکھ کر
حیا سے منہ چھپا لو تم
دسمبر لوٹ آیا ہے
سنو اب لوٹ آؤ تم
دسمبر میں کہا تھا ناں کہ واپس لوٹ آؤ گے
ابھی تک تم نہیں لوٹے دسمبر لوٹ آیا ہے
__________________________________________
بھیگا بھیگا سا یہ دسمبر ہے
بھیگی بھیگی سی تنہائی ہے
ان کتابوں میں جی نہیں لگتا
مجھ کو سجنی کی یاد آئی ہے
(ابرار الحق)
دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی شامیں
کہر میں لپٹی دھندلی سی صبحیں
درختوں سے گرتے ہوئے
خشک زرد پتّے
وہ گاؤں کے تمام رستے
محبتّوں کے تمام رشتے
خیال آباد کرتے ہیں
تمہیں سب یاد کرتے ہیں۔
دسمبر اور یادیں
کسی سر سبز وادی میں
کسی خوش رنگ جگنو کو
کبھی اُڑتے ہوئے دیکھوں
“مجھے تم یاد آتے ہو“
خوابوں میں، سوالوں میں
محبّت کے حوالوں میں
تمہیں آواز دیتی ہوں
تمہیں واپس بلاتی ہوں
یوں خود کو آزماتی ہوں
کوئی جب نظم لکھتی ہوں
اُسے عنوان دیتی ہوں
“مجھے تم یاد آتے ہو“
کبھی باہر نکلتی ہوں
کسی رستے پہ چلتی ہوں
کہیں دو دوستوں کو کھلکھلاتے،
مسکراتے دیکھہ لیتی ہوں
کسی کو گنگناتے دیکھ لیتی ہوں تو پھر؛؛
میری رفاقت کے اوّل و آخر
“مجھے تم یاد آتے ہو“
دسمبر میں جو موسم کا مزہ لینے کو جی چاہے
کوئی پیاری سہیلی فون پر بولے
بڑا ہی مست موسم ہے
چلو باہر نکلتے ہیں
چلو بوندوں سے کھیلیں گے
چلو بارش میں بھیگیں گے
تو اُس لمحے
تمہاری یاد ہولے سے
کوئی سرگوشی کرتی ہے
یہ پلکیں بھیگ جاتی ہیں
دو آنسو ٹوٹ گرتے ہیں
میں آنکھوں کو جھکاتی ہوں
بظاہر مسکراتی ہوں
فقط اتنا ہی کہتی ہوں
مجھے کتنا ستاتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو
دسمبر میں چلے آؤ۔ ۔ ۔
قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر کی ہواؤں سے رگوں میں خون کی گردش ٹھہر جائے
جسم بے جان ہو جائے
تمہاری منتظر پلکیں جھپک جائیں
بسا جو خواب آنکھوں میں ہے وہ ارمان ہوجائے
برسوں کی ریاضت سے
جو دل کا گھر بنا ہے پھر سے وہ مکان ہو جائے
تمہارے نام کی تسبیح بھلادیں دھڑکنیں میری
یہ دل نادان ہو جائے
تیری چاہت کی خوشبو سے بسا آنگن جو دل کا ہے
وہ پھر ویران ہوجائے
قریب المرگ ہونے کا کوئی سامان ہوجائے
قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر کی یہ ننھی دھوپ کی کرنیں
شراروں کی طرح بن کر، میرا دامن جلا ڈالیں
بہت ممکن ہے
پھر دل بھی برف کی مانند پگھل جائے
ممکن پھر بھی یہ ہے جاناں۔ ۔ ۔
کہ تیری یاد بھی کہیں آہ بن کر نکل جائے
موسمِ دل بدل جائے ۔ ۔ ۔
یا پہلے کی طرح اب پھر دسمبر ہی نہ ڈھل جائے
!قبل اس کے۔ ۔ ۔
دسمبر اور ہم تیری راہوں میں بیٹھے تم کو یہ آواز دیتے ہیں
کہ تم ملنے چلے آؤ
دسمبر میں چلے آؤ
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
سرہانوں کی چَڑیں سب مر چکی ہیں
رضائیوں میں تروپے لگ گئے ہیں
ڈبوکیں اپنے کُپّوں میں پڑی ہیں
اسے کہنا کہ اس کی سب جرابیں
انگوٹھوں کی طرف سے پھٹ چکی ہیں
اسے کہنا کہ لنڈا لگ گیا ہے
وہاں سے جا کے کچھ کپڑے خریدے
اسے کہنا کہ چلغوزے بھی لائے
پھر ان کو چھیل کر تحفے میں بھیجے
محبت صرف اک دعویٰ نہیں ہے
محبت ایسا ٹھنڈا پاؤں ہے جو
گرم بستر میں ہو تو عاشقوں کی
اچانک سے نکل جاتی ہیں چیخیں
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
ہر اک لہجہ زُکامی بن گیا ہے
جنہیں چھاتی پہ ریشہ جم گیا تھا
انہیں کہنا دسمبر لنگ گیا ہے
(فیصل جمیل کاشمیری)
ہوئی فصل گل تو کھلیں گے ہم رہی زندگی تو ملیں گے ہم
کسی اور دھیان کے روبرو کسی اور خواب کے درمیاں
احمد مشتاق
__________________________________________
شاید کہ مِل سکیں نہ نئے موسموں میں ہم
جاتی رتوں کے آخری منظر بھی دیکھ لیں
جاڑے کے سرد موسم کا طلسم آپ کو اپنے سحر میں ایسے لپیٹتا ہے جیسے کوئی کمبل اوڑھ لیتا ہے یا رضائی میں سمٹ کر آگ تاپتا ہے اور کسے کے سنگ بیٹھا آنے والے سمے کی خوبصورتی کو مانگ کرتا ہے۔
جاڑے کی بہاریں
نظیر اکبرآبادی
جب ماہ اگھن کا ڈھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور ہنس ہنس پوس سنبھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
دن جلدی جلدی چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور پالا برف پگھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
چلا غم ٹھونک اچھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
تن ٹھوکر مار پچھاڑا ہو اور دل سے ہوتی ہو کشتی سی
تھر تھر کا زور اکھاڑا ہو بجتی ہو سب کی بتیسی
ہو شور پھپو ہو ہو کا اور دھوم ہو سی سی سی سی کی
کلے پہ کلا لگ لگ کر چلتی ہو منہ میں چکی سی
ہر دانت چنے سے دلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ہر ایک مکاں میں سردی نے آ باندھ دیا ہو یہ چکر
جو ہر دم کپ کپ ہوتی ہو ہر آن کڑاکڑ اور تھر تھر
پیٹھی ہو سردی رگ رگ میں اور برف پگھلتا ہو پتھر
جھڑ باندھ مہاوٹ پڑتی ہو اور تس پر لہریں لے لے کر
سناٹا باؤ کا چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ہر چار طرف سے سردی ہو اور صحن کھلا ہو کوٹھے کا
اور تن میں نیمہ شبنم کا ہو جس میں خس کا عطر لگا
چھڑکاؤ ہوا ہو پانی کا اور خوب پلنگ بھی ہو بھیگا
ہاتھوں میں پیالہ شربت کا ہو آگے اک فراش کھڑا
فراش بھی پنکھا جھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
جب ایسی سردی ہو اے دل تب روز مزے کی گھاتیں ہوں
کچھ نرم بچھونے مخمل کے کچھ عیش کی لمبی راتیں ہوں
محبوب گلے سے لپٹا ہو اور کہنی، چٹکی، لاتیں ہوں
کچھ بوسے ملتے جاتے ہوں کچھ میٹھی میٹھی باتیں ہوں
دل عیش وطرب میں پلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ہو فرش بچھا غالیچوں کا اور پردے چھوٹے ہوں آ کر
اک گرم انگیٹھی جلتی ہو اور شمع ہو روشن اور تس پر
وہ دلبر، شوخ، پری، چنچل، ہے دھوم مچی جس کی گھر گھر
ریشم کی نرم نہالی پر سو ناز و ادا سے ہنس ہنس کر
پہلو کے بیچ مچلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ترکیب بنی ہو مجلس کی اور کافر ناچنے والے ہوں
منہ ان کے چاند کے ٹکڑے ہوں تن ان کے روئی کے گالے ہوں
پوشاکیں نازک رنگوں کی اور اوڑھے شال دو شالے ہوں
کچھ ناچ اور رنگ کی دھومیں ہوں عیش میں ہم متوالے ہوں
پیالے پر پیالہ چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ہر ایک مکاں ہو خلوت کا اور عیش کی سب تیاری ہو
وہ جان کہ جس سے جی غش ہو سو ناز سے آ جھنکاری ہو
دل دیکھ نظیرؔ اس کی چھب کو ہر آن ادا پر واری ہو
سب عیش مہیا ہو آ کر جس جس ارمان کی باری ہو
جب سب ارمان نکلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
Wintery December is also a month of romance and remembrance. The month is the last month of the year, which offers time to reflect upon the whole year. The nature slows down the life and it shows some enchanting beauty. The gives moments to embrace the enchanting dance of snowflakes on branches, as trees stand resilient, embracing the serene beauty of the snowy season.
دسمبر
ابھی پھر سے پھوٹے گی یادوں کی کونپل
ابھی رگ سے جاں ہے نکلنے کا موسم
ابھی خوشبو تیری مرے من میں ہمدم
صبح شام تازہ توانا رہے گی
ابھی سرد جھونکوں کی لہریں چلی ہیں
کہ یہ ہے کئی غم پنپنے کا موسم
سسکنے سلگنے تڑپنے کا موسم
دسمبر دسمبر دسمبر دسمبر
ندیم گلانی