ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
نواب مصطفیٰ خان شیفتہ نے جب یہ شعر کہا ہوگا تو یقینا" ان کا ذہن اس تصویر سے متعلق نہیں ہوگا۔ یہ تصویر مملکتِ خداداد پاکستان کے ابھی ریٹائرڈ ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سےمتعلق ہے اور یہ تحریر بھی اس کی ہی تفصیل ہے۔ آنے والا وقت کیا لکھے گا اور کیا پڑھے گا؟ یہ قاری کی رائے پر منحصر ہے اور ان حقائق کے جو بعد میں طَشْت اَزْ بام ہونگے۔ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔
2024-10-30 11:46:11 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ وہ تحریک پاکستان کے نامور رہنما اور کچھ متنازعہ شخصیت بھی؛ مرحوم قاضی محمد عیسٰی کے صاحبزادے ہیں اور قاضی جلال الدین کے پوتے ہیں جو کہ آزادی سے پہلے ریاست قلات کے وزیر اعظم تھے۔ چیف جسٹس عیسٰی نے اپنی ابتدائی تعلیم کوئٹہ میں حاصل کی اور “او” اور اے ” لیول کراچی گرائمر سکول سے کیا اور اسکے بعد بی اے آنرز لاء ( لندن) سے کیا ۔انھوں نے بار پروفیشنل امتحان لندن کےاِن سکول آف لاء سے کیا اور بار آف انگلینڈ اور ویلز (مڈل ٹیمپل) ۱۹۸۲میں درج ہوئے۔
جناب قاضی فائز عیسیٰ عدالت عالیہ بلوچستان میں۳۰ جنوری۱۹۸۵ میں ایک وکیل کے طور پر درج ہوئے اور ۲۱ مارچ ۱۹۹۸ کو وہ عدالت عظمٰی سپریم کورٹ میں وکیل کے طور پر منسلک ہوئے۔ اُن کو وکالت میں کارپوریٹ سیکٹر کے بہترین وکیل کی پہچان حاصل ہوئی۔ جناب قاضی فائز عیسٰی بطور وکیل بلوچستان ہائی کورٹ میں جج بننے سے قبل 27 سالوں تک مختلف عدالت عالیہ بشمول وفاقی شریعی عدالت اور عدالت عظمٰی کے سامنے پیش ہوتے رہے۔ اور وہ بلوچستان ہائی کورٹ ایسوسی ایشن ، سند ھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن آف پاکستان کے تا دم مرگ ممبر بھی ہیں۔
جسٹس فائز عیسٰی کو صوبہ بلوچستان میں اس وقت کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جج تعنیات کیا اور اُنھیں نے 5 اگست 2009 کو چیف جسٹس بلوچستان کےعہدہ کا حلف لیا۔ وہ اس عہدے پر براہِ راست تعینات ہوئے تھے؛ اُنکا اس سے قبل کسی بھی جگہ بطور جج کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ کے جج مقرر ہوئے،اور انہوں نے 17 ستمبر 2023 کو 29ویں چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف اٹھایا۔ پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ ایک سال ایک ماہ اور دس دن اس عہدے پر فائز رہے۔
پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف بیرونِ ملک غیر قانونی جائیداد بنانے کا ریفرنس بنایا گیا تھا۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جیوڈیشنل کونسل نے ان کے معاملات کو مشکوک جانا تھا اور اس کی انکوائری شروع کی تھی۔ مگر پھر انکے ساتھی ججز اُنکی مدد کو آگے بڑھے اور ایک کورٹ کے فیصلے کے تحت انکو اس سے نجات دلائی۔ ساتھی ججز؛ خاص طور پر جناب جسٹس منصور علی شاہ کے دیے گئے فیصلے کی وجہ سے جج برقرار رہے اور بعد میں چیف جسٹس بھی بنے۔
حاصلِ زندگی حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ کیا نہیں،وہ ہوا نہیں،یہ ملا نہیں،وہ رہا نہیں
جناب پاکستان کے پہلے چیف جسٹس ہوئے جن کے حکم پر پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی سماعت براہ راست نشر ہوئی۔ اور وہ کورٹ بھی فل کورٹ تھی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں چند انتہائی اہم مقدمات کی سماعت کی۔ جن میں سے ایک سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر فیصلہ دیا، سابق صدر پرویز مشرف سنگین غداری کی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عہدے قاضی القضاء کے دوران بے شمار ایسے فیصلے اور ریمارکس دیے جس نے میڈیا کی بھرپور توجہ حاصل کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بطور چیف جسٹس دور جہاں سیاسی اور عدالتی تنازعات سے بھرپور رہا تو وہیں اُن کے بعض فیصلوں کی وجہ سے ملک کے سیاسی منظرنامے میں بڑی تبدیلیاں رُونما ہوئیں۔ جناب قاضی فائز عیسیٰ کے اسٹیبلشمنٹ اور تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اختلافات رہے اور بعض فیصلوں کی وجہ سے اُنہیں شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ تمام سیاسی جماعتوں میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو خاص طور پر نشانہ بنایا اور انہوں نےاس تعلق کو مزید تلخ بنایا۔
سوشل میڈیا کی ترویج کے بعد؛ عدالتی فیصلے پر اگر کسی جج کی سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ ٹرولنگ ہوئی تو وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی تھے۔ جناب قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ججز کے درمیان اختلافات نمایاں رہے۔ یہ مسئلہ ان کی ملازمت کے آخری روز تک نظر آیا ۔ ایک فیصلے کے اختلافی نوٹ میں جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ن تمام حدیں پھلانگ دیں جب وہ دشنام طرازی پر اتر آئے۔ نتیجتا" جسٹس منصور علی شاہ سمیت سپریم کورٹ کے پانچ ججز نے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے فل کورٹ ریفرنس میں بھی شرکت نہیں کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اس بارے میں رجسٹرار کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی۔
پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی شاید اپنے والد گرامی جناب قاضی عیسی کے نقش قدم پر رہے۔ انکا نام قائدِ اعظم محمد علی جناح کے بلوچستان سے صفِ اول کے ساتھیوں میں لیا جاتا تھا مگر پھر آخری وقت میں متعدد واقعات بیان کئے جاتے ہیں جو انکو متنازعہ بناتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس میں سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ جسٹس ملک شہزاد، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک بھی شریک نہیں ہوئے۔ مگر جسٹس منصور علی شاہ نے جو خط رجسٹرار کو لکھا وہ ایک تاریخی دستاویز بن کر جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ہمیشہ پیچھا کرتا رہے گا۔ یہ شاید اس کلنک کا نمایاں ٹیکا بن کر ان سے جڑا رہے گا جس سے وہ کبھی جان نہیں چھڑا سکیں گے۔
بات کیا ہے کہ مرے دوستوں کے ہاتھوں میں
سنگ دشنام و ملامت کے سوا کچھ بھی نہیں
مینو بخشی
الوداع ! اے بدتمیزی کے نشان؛ تم نے ماحول زہر آلود کیا
تیری موجودگی وجہ بساند تھی، تیرے جانے کی دعا مانگی گئی
سڑک کنارے ردی کی ٹوکری کی مانند، تمھیں لات ماری جائے گی
تاریخ معاف نہ کرے ؛ اور خدا کرے کبھی مستقبل میں دہرائی نہ جائے
آپ کے بد مزاج وجود کی کمی، کوئی محسوس نہیں کرے گا
آپکی روانگی گندگی سے چھٹکارا ہے؛ آہا ! یہ کتنی خوشی کا موقع ہے
میری زندگی میں میری بیوی کا ویٹو پاور ہے: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
میری زندگی میں میری بیوی کا ویٹو پاور ہے ، ان کی رضامندی کے بعد بلوچستان آ گیا اور راتوں رات میری زندگی بدل گئی:چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
مرزا ہادی رسوا نے ایک شاہکار ناول ''امراؤجان ادا'' لکھا اور بقول سید وقار عظیم؛ " رسوا نےامراو جان ادا لکھ کر یہ سبق دیا کے زندگی کے سیدھے سادے معمولی اور بظاہر غیر اہم مشاہدات کے پیچھے تہذیب ، معاشرت ، سیاست ، معیشیت ، اخلاق اور بعض اوقات تاریخ کے حقائق پوشیدہ و پنہاں ہوتے ہیں" ۔”
اس ناول میں محور ایک کوٹھا ہے؛ طوائف کا کوٹھا لکھنؤ میں تہذیبی اور ادبی مرکز تھا اور اس سے نواب ،روسا اور شرفا سے لے کر مولوی ،ڈاکو ،شاعرو شاعرات تک سبھی وابستہ تھے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو فکری لحاظ سے ناول امرائو جان ادا لکھنو ی معاشر ت کے زوال کی داستان ہے لیکن اگر ہم آج اپنے معاشرے پر غور کریں تو اس ناول میں ہمیں الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ پاکستانی معاشرے اور سماج کی زوال پذیری بھی دکھائی دینے لگتی ہے۔ عظیم ادب وہی ہوتا ہے جو نہ صرف اپنے عہد بلکہ آنے والے ادوار کی بھی ترجمانی کرتا ہے۔ کیا آج ہمارے ہاں بردہ فروشی کا گھنائونا کاروبار نہیں ؟ کیا آج ہمارے ہاں ہیرا منڈیاں ، شاہی محلوں ، نائٹ کلبو ں ، بیوٹی پالروں اور فلمی دنیا کی صورت میں طوائفوں کے بالاخانے موجود نہیں ؟ رسوا کے عہد کی طوائف اور ہمار ے عہد کی سیلبریٹی ویمنز میں کیا فرق ہے؟ اس دور کے نواب، روسا اور شرفا سے لے کر مولوی، ڈاکو، شاعر اور دیگر کرداروں اور آج کے ان سے مماثل عہدوں میں بھی کیا کوئی فرق ہے؟
اس سے قبل کے ہم قاضی فائز عیسی کے کردار اور عمل کو سمجھنے کی کوشش کریں؛ مندرجہ بالا تصویر پر ایک نظر ضرور ڈالیں کہ جب عزتمآب چیف جسٹس کا حلف اٹھا رہے تھے تو ایک عجیب و غریب کارہائے نمایاں انجام دیا تھا کہ اپنی بیگم صاحبہ کو اپنے ساتھ اسٹیج پر کھڑا کیا کہ جیسے اس مقام پر انکے مرہونِ منت پہنچے ہوں۔ اب اگر انکی زندگی میں ویٹو پاور انکے پاس تھا تو کیا عدالتی فیصلوں پر بھی انکا اثرو رسوخ تھا؟
بیگم صاحبہ نے اپنے شوہر کے خلاف بددیانتی کے ریفرنس کے دوران کھل کر اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان اور انکی زوجہ بشری بیگم کے خلاف نازیبا مہم چلائی تھی؛ جو اکثر اوقات گھٹیا پن کی نظیر بنا رہا۔ عزت مآب بیگم فائز عیسی نے ایک دوسری محترم پردہ دار خاتون کے خلاف خوب ہرزا سرائی فرمائی تھی۔ ایک عورت کا شر کیا ہوسکتا ہے، یہ دنیا نے دیکھا؟ مگر عورت کا شر کیا ہوتا ہے؟
کئی دھائیوں قبل ایک روحانی ماں نے اپنے شاگرد کو مستقبل کی زندگی کے لیے نصیحت کرتے ہوئے مشورہ دیا تھا کہ " عورت کے شر سے بچنا " تو اس کمسن نوجوان نے اپنی محترم ماں سے اس کا مطلب پوچھا۔ اس پر اُس محترم ماں نے اسے عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو کے کچھ افسانے پڑھنے کا مشورہ دیا۔ طالب علم نے لائبریری سے دونوں ادیبوں کی نمائندہ تحریریں مستعار لے کر پڑھ لیں تو اس کی استانی نے اسے قدرت اللہ شہاب کی کتاب " ماں جی" پڑھنے کو مشورہ دیا۔ اس کتاب کو بھی پڑھنے کے بعد شاگرد اپنی روحانی ماں کے حضور پیش ہوا اور اپنا سوال دھرایا تو اس پر اس ماں نے اسے سمجھایا کہ عصمت اور منٹو میں بیان کردہ سب نسوانی کردار عورتوں کا شر ہیں اور یہ کہ زمانے بھر میں مرد سے وفادار "عورت " صرف اس کی ماں ہوگی۔ ماں کے سوا، ہر عورت سے فاصلہ رکھنا اور محدود رہنا۔ کمسن نوجواں نے وہ نصیحت اپنے پلے باندھ لی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الوداعی تقریب میں فرمایا تھا کہ " جب میں بلوچستان ہائی کورٹ گیا تو میں واحد جج تھا، ملک میں آئینی بحران آ چکا تھا تو مجھے کسی سے سیکھنے کو نہیں ملا، وکلا نے مجھے سکھایا اور بلوچستان کے وکلا کی مدد سے آگے بڑھے۔
حضور والا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ؛ آپ نے بغض، عناد، نفرت، ظلم اور غیر انسانی سلوک کو نظر انداز کرنا یقینا" وکیلوں سے نہیں سیکھا۔ آپکی مسلسل غیر انصافی کے رویے کے پس پردہ عوامل وہ ویٹو پاور ہے یعنی آپ کی بیگم صاحبہ؛ آپ پورے ہوش و حَواس سے اور پوری رضا مندی سےعورت کے شر کا شکار ہوئے۔ آپ نے اپنی ذات کو زن مریدی کے تحت پوری پاکستانی قوم کو رسوا کیا۔ کاش آج مرزا ہادی رسوا زندہ ہوتے تو ہم ان سے اس پر ایک ناول لکھنے کی فرمائش کرتے۔
جعفر اَز بنگال ، صادق اَز دکن و قاضی اَز پاکستان
ننگِ آدم ، ننگِ دین ، ننگِ وطن
نا قبول و نا اُمید و نا مُراد و مُردار
#قاضی_کا_سیاہ_دور ختم ہوا #یوم_نجات