موجودہ دور میں روزانہ ہمیں جو خبریں سننے کو مل رہی ہیں، وہ ہمیں انسانیت کے زوال کا آئینہ دکھاتی ہیں۔ ہر دن نئے نئے کیسز سامنے آتے ہیں جو ہماری روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
موجودہ دور میں روزانہ ہمیں جو خبریں سننے کو مل رہی ہیں، وہ ہمیں انسانیت کے زوال کا آئینہ دکھاتی ہیں۔ ہر دن نئے نئے کیسز سامنے آتے ہیں جو ہماری روح کو جھنجوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ جنسی زیادتی کے واقعات ہمارے معاشرے میں ایک کالی حقیقت بن چکے ہیں، اور ان میں اضافہ ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ہم کتنے بے حس ہو چکے ہیں۔ ان واقعات نے نہ صرف خواتین کو خوف زدہ کیا ہے بلکہ ہر شخص کے دل میں ایک بے چینی، عدم تحفظ اور ایک گھٹن بھر دی ہے۔
یہ دنیا روز بروز تاریکی کی طرف بڑھ رہی ہے، اور انسانیت کے دعوے دار روز بروز بے نقاب ہو رہے ہیں۔ کولکتہ میں ایک انتہائی افسوسناک اور وحشیانہ واقعہ پیش آیا، جہاں ایک خاتون ڈاکٹر کو نہ صرف جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، بلکہ اسے ایسی اذیتوں سے گزارا گیا کہ وہ جان کی بازی ہار گئی۔ اس کی برہنہ لاش ملنے کے بعد، ہر دل کانپ گیا، ہر آنکھ اشکبار ہو گئی، اور ہر ضمیر جھنجوڑا گیا۔
یہ خاتون، جو لوگوں کی زندگیاں بچانے کا حلف اٹھا چکی تھی، اپنے ہی شہر میں درندوں کے ہاتھوں ظلم و بربریت کا شکار ہو گئی۔ وہ جنہوں نے اپنے سفید کوٹ کی عزت میں لوگوں کی خدمت کرنے کا عزم کیا تھا، انہی کا جسم تاریکیوں میں چھپے بھیڑیوں نے نوچ لیا۔
کیا یہ ہمارا معاشرہ ہے؟ کیا یہ وہ جگہ ہے جہاں ایک عورت، جو دوسروں کی زندگی بچانے کا فریضہ انجام دیتی ہے، خود اتنی غیر محفوظ ہو چکی ہے کہ اسے اپنی جان تک بچانے کا حق نہیں؟ کیا یہ وہی معاشرہ ہے جہاں ہم اپنی بیٹیوں کو محفوظ سمجھتے ہیں؟
پاکستان کے ایک قصبے میں ایک شخص کی خوفناک حرکت نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس درندے نے قبر سے نکال کر مردہ خواتین کی لاشوں کو اپنی حیوانیت کا نشانہ بنایا۔ یہ واقعہ ہماری انسانیت پر ایک بد نما داغ ہے۔ سوچیں وہ ماں، وہ بہنیں جنہوں نے اپنی بیٹیوں، بہنوں کو دفنایا، انہیں کتنی اذیت ہوتی ہوگی جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ان کی عزیزوں کی لاشیں بھی محفوظ نہیں؟ کیا ہم اتنے گر چکے ہیں کہ مردہ لاشوں کو بھی نہیں بخش رہے؟
بدلاپور میں دو معصوم چار سالہ بچیوں کے ساتھ زیادتی کا واقعہ ہمارے معاشرے کے چہرے پر ایک طمانچہ ہے۔ یہ بچیاں، جو ابھی کھیلنے کودنے کی عمر میں تھیں، ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا کہ انسانیت شرمندہ ہو گئی۔ ایک ماں کے دل پر کیا گزرتی ہوگی جب وہ اپنی بیٹی کو اس حالت میں دیکھتی ہے؟ یہ وہ معصوم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا کو جاننا شروع کیا تھا، مگر ان کے ساتھ جو ہوا، اس نے ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل دی۔
یہ صرف چند واقعات ہیں۔ ایسی کئی داستانیں ہیں جو سنائی نہیں دیتیں، لیکن وہ موجود ہیں۔ کبھی کسی ورکنگ وومن کو دفتر میں ہراساں کیا جاتا ہے، کبھی کوئی طالبہ اپنے استاد کی درندگی کا شکار ہو جاتی ہے، تو کبھی کسی عورت کو سڑک پر چلتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ یہ خوف، یہ بے چینی، یہ عدم تحفظ کا احساس، ہر عورت کے دل میں گھر کر چکا ہے۔
جو لوگ ان واقعات کو سن کر بھی خواتین کی آواز کو "فیمینزم کا شور" کہتے ہیں، وہ جان لیں کہ یہ شور نہیں، یہ ایک فریاد ہے۔ یہ وہ درد ہے جو ایک عورت اپنے دل میں محسوس کرتی ہے جب اس کے جسم اور روح پر حملہ کیا جاتا ہے۔ فیمینزم خواتین کے حقوق کی بات کرتا ہے، ان کی عزت کی بات کرتا ہے، ان کی آزادی کی بات کرتا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ صرف ایک شور ہے، وہ شاید اس درد کو نہیں سمجھ سکتے جو ہر روز جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین اور بچیوں کے دل میں ہوتا ہے۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمارا معاشرہ کہاں جا رہا ہے؟ کیا ہم نے اپنی انسانیت کھو دی ہے؟ کیا ہماری عورتیں، ہماری بچیاں اس قدر غیر محفوظ ہو چکی ہیں کہ انہیں اپنے ہی گھروں میں بھی سکون نہیں؟ ہمیں اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا، ہمیں اپنی آواز بلند کرنی ہوگی تاکہ ہم ایک محفوظ معاشرہ بنا سکیں، جہاں ہر عورت، ہر بچی، ہر ماں، ہر بہن بے خوف ہو کر زندگی گزار سکے۔
یہ وقت ہے جاگنے کا، کھڑے ہونے کا، اور ان درندوں کے خلاف لڑنے کا، جو ہمارے معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں۔ ہمیں ان واقعات کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے، اور نہ ہی ان خواتین کو جو اس ظلم کا شکار ہوئیں۔ ان کی کہانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے، اور ہمیں کیا نہیں کرنا۔