کیا عزت و احترام بھیک میں مل سکتی ہے؟
اگرعزت و احترام کی باہمی دوستی درکار ہے تو یقین جانیے کہ وہ بھیک میں نہیں ملے گی۔ جب دو فریق ایک دوسرے کی پرواہ کرتے ہیں تو رشتہ ایماندارانہ اور مخلص ہوتا ہے۔ یہ انفرادی سطح ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی معاملات کے لیے بھی درست ہے۔ قوموں کا حقیقی احترام ہر ملک کی اندرونی طاقت کی بنیاد پر ہوتا ہے اور اس میں وہ اپنے قومی معاملات کو مقدم رکھتے ہیں۔ یہ تحریر امریکہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے بارے میں تازہ ترین پیش رفت پر ایک مختصر رائے ہے۔ "حِمیّت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے"۔
2024-07-02 19:18:30 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
کیا عزت و احترام بھیک میں مل سکتی ہے؟
موجودہ ورلڈ آرڈر دوسری جنگ عظیم کے نتائج پر مبنی صورتحال پر منتج ہوا ہے اور پاکستان کو 1947 میں دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد آزادی ملی۔ تاہم، پاکستان کی حکمران اشرافیہ قومی ریاست کی ارتقاء اور قومی عزت و وقار کے اصولوں کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔
یو این او کے قیام کے بعد نیو ورلڈ آرڈر کا آغاز کیا گیا اور کلیدی اصول جسے آج کل ہم " بزر ورڈ "ت کہتے ہیں تو وہ ہیں؛ قانون کی حکمرانی، جمہوریت، انسانی حقوق، سائنس اور ٹیکنالوجی اور آزاد بازار سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام معیشت ۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ اپنی دانشمندی پر نازاں عقل آزمائی کرتی رہی جو غلامانہ اور گھٹیا تھی؛ جس کے نتیجے میں ملک اپنی قوم غیرت کھو بیٹھا اور عالمی معاملات میں بے عزت ہوکر ہنسی مذاق بن گیا۔ انتہا اس وقت پہنچی جب ملک کے چیف ایگزیکٹیو نے کہا کہ سنہ’’بھکاری کو انتخاب کا حق نہی ہوتا‘‘ اور ’’ہم وینٹی لیٹرز پر زندہ ہیں۔‘‘ جو پاتال میں گرنا تھا۔
محل یا سرکس:
سنہ 2022 میں حکومت کی تبدیلی کا ایک آپریشن کیا گیا اور ایسے انداز میں بروئے کار لائی گئی کہ غلاظت میں لتھڑی سیاست نے محلاتی سازشیں میں گھری ایسی مضحکہ خیز صورتحال پیدا کی کہ مشہور مثل "جب مسخرہ محل میں داخل ہوتا ہے تو وہ بادشاہ نہیں بنتا بلکہ محل سرکس میں بدل جاتا ہے" سچ ثابت ہوا۔ لیکن بین الاقوامی معاملات تفنن طبع کے لیے کوئی تفریح خیز کھیل نہیں ہوتا؛ جسے ہنسی مذاق میں اڑا دیا جائے۔ لہٰذا حکومت کی تبدیلی کے پسِ پردہ منتظمین کردار بے نقاب ہو گئے اور مسخروں کی کٹھ پتلی طور طریقوں سے بے چین ہو گئے جنہوں نے اپنے کھیل میں سفاکانہ انداز اپنا لیا تھا؛ (ایک مسخرے کو مذاق کرنے اور مزاحیہ حرکتوں اجازت ہوتی ہے لیکن بد مزاحی کی تعریف نہ کرنے پر سامعین کو اشتعال دلانے اور بھڑکانے کو معاف نہیں کیا جا سکتا؛ اور تشدد کی جائے تو)۔
دوست نہیں ماسٹرز
ایک بار جب کسی طاقت کو کوئی فرد آقا تسلیم کر لے تو پھر وہ فرد یا ملک بھیک مانگ کر یا آقا کی انا کو چمکا کر کبھی بھی اسی طاقت سے باہمی احترام کا مقام حاصل نہیں کر سکتا۔ ایسا افراد کے ساتھ نہیں ہوتا اور نہ ہی بین الاقوامی معاملات میں ہوتا ہے۔ اس لیے مندرجہ ذیل کا ایسا ہونا لازم تھا خاص طور پر جب تشدد زدہ سامعین میں سے چند آقاؤں کے ضمیر کو جگا سکیں یا آقاؤں کی منافقت کو بے نقاب کر سکیں۔ ( کون بادشاہ پسند کرے گا کہ اس کے ساتھ مسخرے جیسا سلوک کیا جائے؟)
1. امریکی کانگریس نے "پاکستانی انتخابات کی تحقیقات کے لیے قرارداد منظور کی۔"
امریکی ایوان نمائندگان نے بدھ (26 جون 2024) کو پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت میں ایک دو طرفہ قرارداد منظور کی اور پاکستان کے 2024 کے انتخابات میں مداخلت کے دعووں کی "مکمل اور آزاد تحقیقات" کا مطالبہ کیا۔ قرارداد -- جس کے حق میں 98 فیصد ووٹنگ کے ساتھ منظور کیا گیا -- نے امریکی صدر جو بائیڈن پر زور دیا کہ وہ "جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے" میں پاکستان کے ساتھ تعاون کریں۔
2. جنیوا میں مقیم یو این ورکنگ گروپ آن آربیٹریری ڈیٹینشن کا کہنا ہے کہ خان کی قید بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتی ہے اور 'فوری' رہائی کا مطالبہ کرتی ہے۔
پیر (01 جولائی 2024) کو جاری کردہ ایک رائے میں، جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کے صوابدیدی حراستی گروپ نے کہا کہ "مناسب علاج یہ ہوگا کہ مسٹر خان کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور انہیں معاوضے اور دیگر معاوضوں کا ایک قابل نفاذ حق دیا جائے۔ بین الاقوامی قانون ورکنگ گروپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس کی حراست کی کوئی قانونی بنیاد نہیں تھی اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد اسے سیاسی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے سے نااہل قرار دینا تھا۔ اس طرح، شروع سے، وہ استغاثہ قانون کی بنیاد پر نہیں تھا اور مبینہ طور پر اسے سیاسی مقصد کے لیے آلہ کار بنایا گیا تھا۔
سنہ1951 میں پہلے وزیر اعظم کے قتل کے بعد پاکستان کی قومی غیرت اور وقار کا سرنڈر شروع ہوا۔ پھر اسے پہلے سی ایم ایل اے جنرل ایوب خان نے بعد میں صدر بھی پالش کیا۔ انہوں نے " فرینڈز ناٹ ماسٹرز " کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ انہوں نے 65 کی جنگ اور بھٹو کی بغاوت سے پہلے 1964 میں اس کتاب کو ڈکٹیٹ کرنا شروع کیا تھا۔ انہوں نے 10 سالہ حکمرانی کا جشن منانے سے کافی پہلے امریکی اور مغربی آقاوں کی نا التفاتی کو اچھی طرح محسوس کیا مگر وہ اس میں ترمیم نہیں کر سکے، کیونکہ، ان کے پاس صلاحیت نہیں تھی۔ اس مسئلے کا سامنا تقریباً ہر اس شخص کو جو ملک پاکستان اعلی عہدوں تک پہنچتے ہیں ایک طرح کے مخصوص حالات گرفتار رہتا ہے۔ یہ مسئلہ اس قدر گہرا ہے کہ یہ ملک کے تمام اداروں اور تمام سطحوں میں اعلیٰ عہدوں پر پہنچنے والے تقریباً تمام افراد کو متاثر کرتا ہے۔
پاکستان کی حکمران اشرافیہ اس ورلڈ آرڈر کے بارے میں کب سیکھ سکے گی جو 1800 عیسوی کے بعد نوآبادیاتی نظام نے نافذ کیا؟ اور جنگِ عظیم اول کے بعد قومی ریاست کا ابھرنے والا تصور اور صدیوں سے نافذ قومی عزت و وقار کے اصولوں کے بارے میں سیکھے گا؟