کتب خانہ: تہذیب و تمدن کا نشان امتیاز

Library is a sign of national pride of civilization and culture. Reading and writing of books and formation of library j=has been a trademark of Muslims' civilization. Similarly, the Molvi Khuda Bukhsh Oriental Public Library was a sign of philanthropy by a Muslim in India during British Raj in India.

2023-09-13 19:25:25 - Muhammad Asif Raza

ہر قوم کی ایک تہذیبی پہچان ہوتی ہے۔ سب تہذیبوں میں کچھ مماثلتیں ہوتی ہیں، لیکن بعض ایسی انفرادی خصوصیتیں ہوتی ہے جو ایک قوم کی تہذیب کو دوسری تہذیبوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ 


اسلام کی بنیاد میں علم اور تعلیم کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ جس کے نتجیے میں ایک ایسی تہذیب و تمدن نے جنم لیا جہاں بے شمار کتب خانے معرضِ وجود میں آئے۔ تعلیم و تدریس میں معلم اور کتب خانوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اور مسلمانوں نے اس پر خوب توجہ بھی دی۔ اسلامی تہذیب پر ہلاکو خان کی یلغار کا سب سے ستم ظریف قدم بغداد کے کتب خانوں اور اس کی کتابوں کو تلف کرنا تھا۔ 


سرزمینِ بر صغیر ہند میں مسلمان تقریبا" ایک ہزار سال تک حکمران رہے ہیں۔ مسلمانوں کا طرہ امتیاز علم کا فروغ اور کتب بینی اور کتاب لکھنا رہا ہے۔ مسلمانوں سے قبل ہندو مت میں علم روائے عام نہی تھا اور صرف کچھ مخصوص طبقے ہی اس کے طرف رغبت رکھتے تھے۔ 


آئیے سرزمینِ ہندوستان کے ایک کتابوں کے رسیا کا ذکر کریں۔ 

مولوی خدابخش خان پٹنہ کے مشہور خدا بخش اورئینٹل پبلک لائبریری کے بانی تھے جسے استنبول عوامی کتب خانہ (ترکی) کے بعد دنیا کے دوسرے سب سے بڑے کتب خانہ کہا جاتا ہے۔ آج یہ ہندوستانی قومی اہمیت کے ادارے کے طور پر مان لیا گیا ہے کیونکہ 1969ء میں بھارت کے پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کی رو سے اس کتب خانے کی نگرانی حکومت اپنے ہاتھ میں لے چکی ہے۔ یہاں پر اردو، فارسی اور عربی کے ہزاروں دستاویزات موجود ہیں۔


خدا بخش صوبہ بہار کے رہنے والے تھے۔ وہ ایک ، نادر مخطوطوں کا جمع کرنے والے تھے؛ جنہوں نے ابتدائی طور پر سنہ 1880 میں ایک پرائیویٹ لائبریری قائم کی تھی۔ جسے بعد میں 1891 میں عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ انہوں نے اپنے والد محمد بخش سے 1400 نادر نسخے حاصل کئے۔ اور بعد میں 2600 کا اضافہ کر کے اسے دنیا میں فارسی، عربی اور اردو نسخوں کے نایاب ترین مجموعوں میں سے ایک بنا دیا۔ 


ان کے بھرپور مجموعے سے متاثر ہو کر، ایک موقع پر برٹش لائبریری نے انہیں اپنا مجموعہ خریدنے کے لیے بہت ہی خوبصورت رقم کی پیشکش کی۔ جسے انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ "میں غریب آدمی ہوں۔ جو رقم پیش کی گئی ہے وہ امیرانہ خوش قسمتی ہوسکتی ہے؛ جو ایک غریب کے لیے نہی ہوسکتی۔ میں کیسے پیسے کو اس کام کے اوپر فوقیت دوں جس کے لیے میں نے اور میرے والد نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں۔‘‘

بعد میں انہوں نے کتابوں کے مجموعے کے بارے میں کہا۔ "جمع کرنے کا فن وہ ہے جو اوپر اٹھتا ہے اور تعزیرات کے ضابطوں کی خلاف ورزی کی زد مں نہی آتا ہے۔

اندھے آدمیوں کی تین قسمیں ہیں- وہ جو بینائی سے محروم ہیں۔ وہ لوگ جو قیمتی کتابیں کسی دوست کو بھی دیتے ہیں۔ اور جو لوگ اس طرح کی جلدیں واپس کرتے ہیں، ایک بار جب وہ ان کے قبضے میں چلے جائیں"۔ 



وطن عزیز پاکستان مین ہم کب ایسی کوئی ذاتی کتب خانہ دیکھ پائیں گے؟ کیا زندہ رہنے کو اینٹ پتھر کے گھر کافی ہوتے ہیں؟ آخر کار ہم کتب بینی اور کتب خانوں کو ایک قومی افتخار اور امتیاز کا نشام کیوں نہی سمجھ سکتے؟

ذیل میں خدا بخش خان کی ایک حقیقی تصویر ہے۔

(خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کے بانی - پٹنہ بہار، انڈیا۔)

More Posts