زندگی ماہ و سال کی کہانی ہے؛ ہر گذرتا دن تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور یہ زمین پر بسنے والے انسانی تاریخ کی کہانی بن جاتی ہے۔ انسانی تاریخ قوموں کے عروج و زوال کی داستان ہے؛ اس داستان کا اہم حصہ اقوام کی ثقافتی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ شادی بیاہ ہر تہذیب اور تمدن میں اییک اہم ثقافتی حصہ ہوتی ہے۔ اور یہ تحریر ایسی ہی اہم رسوماتِ زندگی میں چالیس سال قبل کے دنوں میں ایک روزن ہے جسے لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ) نے قلم زد کیا ہے۔
کرنل کی ڈائری سے
یادِ ماضی: 80 کی دہائی کی شادیاں
موجودہ دور کی شادیاں جو زیادہ تر بینکوٹ ہال/ مارکی، شادی لان، فائیو اسٹار ہوٹل یا فارم ہاؤسز میں منعقد ہوتی ہیں میں شرکت تو ہم سبھی نے کی ہو گی۔ لیکن بہت سے قارئین ایسے بھی ہوں گے جنھوں نے 80 اور 90 کی دہائی کے اوائل تک ہونے والی وہ شادیاں نہ دیکھی ہوں گی جن کے لیے کبھی گھروں کے سامنے سڑک پہ ہی رنگ برنگے سندھی رلی سے مشابہت رکھنے والے شامیانے لگا کرتے تھے۔۔۔
شادی سے کئی دن پہلے ہی دونوں گھروں میں ڈھولکی کی رسومات شروع ہو جاتیں۔ ہونے والی دلہن کو پیلے کپڑے پہنا کے مایوں بٹھا دیا جاتا اور خوب ابٹن لگائی جاتی۔ محلے کے کسی گھر سے ڈھولکی کی آواز آنے کی دیر ہوتی کہ پورے محلے کی لڑکیاں اور خواتین بِن بلائے شادی والے گھر کی خوشی میں شریک ہونے پہنچ جایا کرتیں اور مہندی والی رات ہونے والے ٹپے اور ماہیے کے مقابلے کی تیاریاں شروع ہو جاتیں۔ مہندی کے فنکشن عموماً گھر کے اندر ہی ہوتے۔ پہلے ٹپے اور ماہیے گائے جاتے پھر ڈانس کے مقابلے ہوا کرتے۔ لڑکیاں ڈانڈیوں کے ساتھ گول چکر میں ڈانس کیا کرتیں جبکہ لڑکے بھنگڑا، ڈسکو اور بریک ڈانس کیا کرتے۔ مہندی میں رات کے کھانے میں کہیں لاہوری چنے اور گرما گرم پوریاں تو کہیں چکن قورمہ اور نان ہوتے۔ مہندی والے دن سے دونوں گھر رنگ برنگے برقی قمقموں کی لڑیوں سے سج جاتے۔قمقوں کی ان لڑیوں کو ان کی بناوٹ، لال اور سبز رنگوں کی مناسبت سے "مرچیں" کہا جاتا تھا۔ موجودہ دور میں ان لڑیوں کی جگہ ایل ای ڈی کی لڑیوں نے لے لی ہے۔ مہندی کے فنکشن پہ عموماً مہمان خواتین کو دلہا کے گھر والوں کی طرف سے ملنے والے تحائف اور کپڑے دکھائے جاتے۔ لڑکی کے ساتھ جانے والا سامان بھی مہمانوں کو دکھایا جاتا۔
اس وقت شادیاں زیادہ تر دوپہر میں منعقد کرنے کا رواج تھا۔ بارات گھر سے نکلنے سے پہلے دولہا کے گھر 'سہرا بندی' کی رسم ہوتی۔ سہرے کو سات شادی شدہ افراد کے ماتھے پہ لگا کر دلہا کے خاندان کا کوئی بزرگ یا دلہا کے والدین دلہا کے سر پہ باندھا کرتے۔ اور وہاں موجود رشتے دار دلہا اور شابالے کو سلامی بھی دیتے۔ اس رسم کے فوراً بعد بارات گھر سے نکلا کرتی۔ دلہا کی گاڑی جو پوری کی پوری پھولوں سے سجی ہوتی دلہن کے گھر سے کچھ دور روک دی جاتی۔ پورا محلہ ہی دلہا کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے جمع ہوتا۔ بارات کے ہمراہ بینڈ باجے والے موجود ہوتے جو شادی کے مشہور گانوں کی دھنوں سے ماحول کو خوشگوار بنا دیتے۔ گاڑی سے اترنے کے بعد سہرے سے ڈھکا چھپا دلہا خوبصورتی سے سجائے ہوئے گھوڑے پہ ڈرتے ڈرتے براجمان ہو جاتا۔ دلہا ڈرتا اس لیے کہ کہیں بینڈ باجے کی آواز سے گھوڑا بدک ہی نہ جائے۔ کیونکہ ایسے متعدد واقعات پہلے رونما ہو بھی چکے ہیں۔ جبکہ ان ساری پریشانیوں سے بےپروا دلہا کے دوست اور بھائی لڈی ڈالتے ہوئے آہستہ آہستہ آگے چلتے جاتے۔ گھر کے نزدیک دلہن کے بھائی 'رستہ روکائی' کی رسم کے لیے کھڑے ہوتے اس موقع پہ دلہن کے بھائیوں کی دلہا کے بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ خوب بحث و تکرار ہوا کرتی لیکن دلہا جیب ڈھیلی کرنے کے بعد ہی اندر جا پاتا۔ بارات کے ہمراہ آئے افراد کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے جبکہ دلہن کے والد دولہا کے گلے میں بڑے نوٹوں والا ہار ڈالتے۔ اسی طرح بہت سے دوسرے رشتے دار بھی سلامی کے طور پہ دلہا کو نوٹوں والے ہار ہی پہنایا کرتے۔ دلہا کے ہمراہ شیروانی یا تھری پیس سوٹ میں ملبوس شابالا بھی ہوتا جو عموماً دلہا کا بھتیجا یا بھانجا ہوتا جس کا پروٹوکول دلہا سے ہرگز کم نہ ہوتا بلکہ وہ سلامی کا بھی حقدار بھی ٹھہرتا۔
بارات کی آمد کے دوران دلہا کے دوست اور کزن ہوا میں کرنسی نوٹ لٹا رہے ہوتے۔ تھوڑی زیادہ پرانی بات کریں تو کرنسی نوٹوں کے جگہ سکے ہوا میں اچھالے جاتے۔ غرباء کے علاوہ شادی میں آئے ہوئے مہمانوں کے بچے بھی اس بات سے بےخبر کہ یہ صدقہ و خیرات کے پیسے ہیں، نوٹ اور سکے جمع کر رہے ہوتے اور وہاں موجود ریڑھیوں پہ آئس کریم کھانے پہنچ جاتے۔
شادی کے شامیانے نظر آنے کی دیر ہوتی کہ وہاں قلفی، آئس کریم، پاپڑ، ریت والی چھلی، گیس کے غبارے اور غباروں پہ نشانہ لگانے والے پہنچ جایا کرتے اور انھیں وہاں دیکھ کر بچے یہ چیزیں خریدنے پہنچ جاتے اور عموماً آئس کریم اور قلفی کھا کر اپنے کپڑے بھی خراب کر لیتے۔ اگر صوبہ پنجاب کی بات کریں تو مختلف ریڑھی والوں کے علاوہ گڑوی بجا کر گانا گانے والی خواتین جبکہ مردانے میں ہارمونیم اور طبلہ بجا کر گانے والے اور جگت باز یا بھانڈ ہاتھ میں چمڑے کا لتر لیکر شادیوں میں بن بلائے ہی پہنچ جایا کرتے۔ دوسری طرف خاندان کے کچھ افراد بن بلائے مہمانوں، بھیک مانگنے والوں اور گانا بجانے والوں کو روکنے پہ یا باہر نکالنے پہ مامور ہوتے مگر یہ لوگ کھانا اور پیسہ لیے بغیر جان نہ چھوڑتے۔ شادیوں میں اکثر لوگ بھانڈوں کو پیسے دے کر اپنے دوستوں پہ جگت لگوا کر مزا لیا کرتے۔ کبھی کبھی یہ بھانڈ جاتے جاتے جگت بازی میں دلہا تک بھی پہنچ جاتے ایسے موقع پہ ان کو پیسے دیکر رخصت کرنا ہی مناسب ہوتا۔
نکاح کے فوراً بعد بچے اور بڑے یکساں طور پہ چھوہاروں کے انتظار میں ہوتے۔ اس کے فوراً بعد روٹی کھلنے کا اعلان ہو جاتا۔ کھانا عموماً دو شفٹوں میں کھایا جاتا۔ ایک شفٹ میں مرد حضرات اور دوسری شفٹ میں عورتیں اور بچے کھانا کھاتے۔ اس وقت کھانا کھانے کے لیے کرسیوں اور میزوں کا رواج نہ تھا بلکہ مہمان کھڑے ہو کر ہی کھانا کھاتے تھے۔
80 کی دہائی تک شادیوں میں اسٹیل کے برتن ہی استعمال ہوا کرتے تھے۔ پینے کے پانی کے لیے ایک بڑے ٹب میں برف ڈال دی جاتی اور اس سے اسٹیل کے جگ بھرے جاتے، کچھ جلدباز لوگ گلاس ہی ٹب سے بھر لیتے۔ بعد ازاں اسٹیل کے کولر یا حمام کے آنے سے ٹب والا نظام ختم ہو گیا۔ اس وقت لوگ بازاری برف والا یہ پانی پی کے بھی کبھی بیمار نہ پڑتے۔
کھانے کے بعد دلہا کو زنانہ شامیانے میں لے جایا جاتا جہاں اسٹیج پر دلہن موجود ہوتی۔ یہاں سب سے پہلے سلامیوں کا دور چلتا۔ کچھ علاقوں میں مردانہ اور زنانہ دونوں جگہوں پہ خاندان کے قریبی مرد اور عورت سلامی دینے والے کے نام کے آگے رقم بھی لکھا کرتے شکر ہے یہ رواج اب دم توڑ چکا ہے۔ سلامی کے بعد 'جوتا چھپائی' اور 'دودھ پلائی' کی رسمیں ادا ہوتیں۔ دلہا دلہن تو خاموش بیٹھے ہوتے البتہ ان دونوں کے بہن بھائیوں، کزنز اور دوستوں میں دلچسپ جملوں کا تبادلہ ہو رہا ہوتا۔ دلہا بار بار تہ شدہ رومال اپنے منہ پہ رکھ لیتا جو شرم و لحاظ اور شرافت کا معیار شمار ہوتا اسی طرح دلہن بھی شرم و حیاء کی پیکر بنے گھونگھٹ میں ہی منہ چھپائے بیٹھی رہتی۔ 80 کی دہائی کے نصف حصے میں شادیوں کی وڈیو بھی بننے لگی۔ پہلے پروفیشنل فوٹوگرافر کا رواج نہ تھا بلکہ خاندان یا محلے کا ہی کوئی فرد یا جان پہچان والا فوٹوگرافر ہی شادی کی تصاویر کھینچ دیا کرتا۔
رخصتی کے وقت بھی پورا محلہ اکھٹا ہو جایا کرتا۔ دلہن کی رخصتی پہ ماں، بہنیں اور سہلیاں تو رو لیتیں لیکن باپ ناجانے کیسے اپنے آنسوؤں پہ قابو پاتا۔ ایسے میں ماحول اداس اور بعد میں گھر سونا سونا ہو جاتا۔۔۔یہ سلسلہ تو اب بھی قائم ہے۔
اس وقت کی شادیوں میں کھانا بنانے کے لیے گاریگر جنہیں عموماً نائی کہا جاتا گھر کے نزدیک خالی پلاٹ یا میدان میں ہی دیگیں چڑھا دیا کرتے۔ دیگوں کے نیچے انیٹیں رکھ کر خشک لکڑیوں سے آگ دہکائی جاتی۔ کھانا پکانے کے عمل کے دوران محلے کے بچوں اور بزرگوں کی خوب رونق ہوا کرتی۔ خاص طور پہ سردیوں کے موسم میں تو آگ سینکنے والے افراد کا خوب رش ہوتا۔ سفید پوش گھرانوں کی شادیوں کا مینو بالکل سادہ ہوا کرتا جو عموماً چکن قورمہ، گردن پلاؤ اور زردے پہ ہی مشتمل ہوا کرتا۔ چاولوں کو بڑے بڑے جست یا اسٹیل کے ٹبوں میں بھگوا دیا جاتا اور پانی خشک کرنے کے لیے ایک چارپائی پہ ململ کا کپڑا بچھا کر چاول اس پر بھکیر دیئے جاتے۔ کھانے کے دوران دیگوں پہ خاندان کا کوئی بڑا فرد بیٹھا کرتا جو عموماً دلہن یا دلہا کا خالو یا پھوپھا ہی ہوتا۔ دیگ پہ بیٹھنے والے کی اہمیت اور اختیارات فیس بک گروپ کے ایڈمن سے کم ہرگز نہ ہوتے یعنی کس ڈونگے میں کتنی اور کون سی بوٹیاں ڈالنی ہیں یہ اس کی مرضی پہ ہی منحصر ہوتا۔ جبکہ جوان بھائیوں کے دوست یار کھانے کے دوران تھوڑے تھوڑے فاصلے پہ ایسے کھڑے ہوتے کہ دیگ سے کھانے کی پَرات یا ڈونگے ایک دوسرے کو پکڑا کر آگے میز تک پہنچا دیتے۔ رخصتی میں بارات والوں کا خاص خیال رکھا جاتا اسی طرح ولیمے پہ لڑکی کے گھر والوں کے لیے کھانے کا خصوصی انتظام ہوتا۔ خاص طور پہ دوسرے شہر سے آنے والی بارات کی خوب آؤ بھگت ہوتی۔ ویسے یہ رواج تو اب بھی عام ہے۔
اب کچھ بات شادی میں دوسرے شہروں سے آئے مہمانوں کی ہو جائے۔ اس وقت سادگی کا دور تھا۔ سونے کے لیے فرشی نظام یعنی قالین یا چاندنی پہ روئی کے گدئے بچھا دیئے جاتے۔ زنانہ اور مردانہ کے لیے الگ الگ کمرے ہو جاتے۔ گرمیوں میں صحن اور چھت پہ چارپائیاں بچھا کر سونے کا رواج بھی عام تھا۔ اس دور میں دوسرے شہر سے آئے مہمان صرف شادی والے گھر کے نہ ہوتے بلکہ وہ پورے محلے کے مہمان ہوتے۔ اپنے گھر میں گنجائش نہ ہوتی تو محلے والے مہمانوں کو خوشی خوشی اپنے گھروں میں ٹھہرا لیتے۔ مہمانوں کے لیے برتن، رضائی، کمبل، گدے، چادریں اور تکیے وغیرہ بھی محلے سے مل جایا کرتے۔ مہمان مرد زیادہ تر تاش کی بازیاں لگاتے جبکہ بچے کیرم بورڈ، لڈو، منوپلی، 'نام چیز جگہ' اور اسکریبل کھلتے۔ خواتین کی تو باتیں اور قصے ہی نہ ختم ہوتے۔ چائے کے دور بھی خوب چلتے البتہ کھانے میں محض دال سبزی اور چٹنی سے بھی سب لوگ مطمئن ہو جاتے۔
شادی کے بعد مہمانوں کے جانے سے شادی والا گھر پھر سے سونا ہوتا اور گھر کے سب افراد اداس ہو جاتے۔۔۔ گزرا ہوا وہ دور بہت یاد آتا ہے جب ہمارے گھر چھوٹے مگر دل بڑے ہوا کرتے تھے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پھر سے قناعت پسند بنا دے۔ سادگی کو پھر سے ہمارا شعار بنا کے جہیز جیسی لعنت سے سفید پوشوں کی تذلیل کو اس معاشرے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دے۔ ہماری جو بہنیں اور بیٹیاں شادی کی عمروں کو پہنچ چکی ہیں ان کے حق میں اچھے رشتے مقدر فرما دے۔ ہماری خواتین کو اچھی بہو اور اچھی ساس بننے کی توفیق عطا فرما۔ موجودہ دور کے ٹی وی ڈراموں نے ان خوبصورت رشتوں کا تقدس پامال کیا ہوا ہے یا اللہ ان رشتوں کا تقدس ہمیشہ قائم رکھنا، آمین۔
لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ)
کراچی
16 اکتوبر 2024
📧: khanabrar30c@gmail.com