کرنل کی ڈائری سے : تم آسٹریلیا کب جا رہے ہو؟

زندگی ماہ و سال کی کہانی ہے؛ ہر گذرتا دن تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور سو یہ زمین پر بسنے والے انسانی تاریخ کی کہانی بن جاتی ہے۔ انسانی تاریخ قوموں کے عروج و زوال کی داستان ہے؛ اس داستان کا اہم سبق عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام ہے۔ معاشرہ اور قوم مساوات اور قانون پر مبنی اصولوں پر ترقی پاتے ہں۔ یہ تحریر ایک ایسے معاشرے کا نوحہ اور ماتم ہے جو شاید کسی انسانی رویوں سے عاری ہے؛ قانون انصاف اور مساوات تو بہے بعد کی باتیں ہیں۔ یہ تحریر لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ) کی آپ بیتی ہے۔

2024-03-06 17:12:03 - Muhammad Asif Raza

 

کرنل کی ڈائری سے : تم آسٹریلیا کب جا رہے ہو؟

 

یہ کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے ہم کراچی کے ایک شاپنگ مال سے واپسی پہ سی ویو سے گزر رہے تھے۔ اس دوران ہم اپنے صاحب زادے کو وطنِ عزیز میں رہ کر اس کو سنوارنے کا درس دے رہے تھے جبکہ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے آسٹریلیا جانے کے لیے بضد تھا۔۔۔

 

اسی بحث کے دوران ایک سیاہ اور چمچماتی ہوئی لینڈ کروزر سڑک کے کنارے کھڑی نظر آئی۔ ابھی ہماری موٹر کار کچھ فاصلے پہ تھی کہ لینڈ کروزر کے شیشے نیچے ہوئے اور اس میں بیٹھے ہوئے افراد میں سے کسی نے مکئ کے بھٹے کھا کر بچے ہوئے بھٹے اور منرل واٹر کی خالی بوتلیں سڑک پہ پھینک دیں۔ ہمارے نوجوان صاحب زادے نے یہ منظر دیکھا تو گاڑی روک لی تاکہ وہ سڑک سے گندگی اٹھا کر کسی کوڑے دان کے سپرد کر سکے۔

 

اسی اثنا میں لینڈ کروزر کے ڈرائیور نے ٹھیلے کے سامنے سے موٹر کار کو تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھا لیا۔ ہم بھی گندگی کو کوڑا دان میں ڈال کر آگے بڑھے تو وہی گاڑی ایک بار پھر سے سڑک کے کنارے کھڑی دکھائی دی اور ایک بیس بائیس سالہ نوجوان جو غالباً گاڑی چلا رہا تھا نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں رکنے کا اشارہ کیا۔ ہمیں غالب یقین تھا کہ لینڈ کروزر کے سوار اپنی غلطی پہ نادم ہوں گے اور معافی کے طلب گار ہوں گے لہذٰا ہم نے بیٹے کو گاڑی روک لینے کو کہا اور شیشہ نیچے کر دیا۔ اتنے میں اسی کے ساتھ کھڑا دوسرا نوجوان ہماری گاڑی کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس کے بعد جو کچھ ان کانوں نے سنا وہ سب ضبطِ تحریر میں لانے کی نہ ہمت ہے اور نہ ہی آپ وہ سب کچھ پڑھنے کی سکت رکھتے ہوں گے۔۔۔ گویا سڑک سے گندگی صاف کرنا بھی ہمارا ہی جرم ٹھہرا۔

 

ان موصوف کی نظر میں یہ سب کچھ ہم نے سوشل میڈیا پہ ان کو رسوا کرنے کی غرض سے کیا تھا۔۔۔ حالانکہ یہ ہمارے بچوں کی تربیت تھی جو ہمارے والدین نے ہمیں سکھائی اور ہم نے اپنے بچوں کو سکھا کر اپنا فرض پورا کیا مگر جناب ہم کسی مجرم کی طرح کھڑے تھے اور وہ نوجوان ہمارے خلاف چارج شیٹ پڑھ رہے تھے۔

 

 مسلسل بدتمیزی کے دوران نوجوان نے گاڑی سے منرل واٹر کی ایک بڑی بوتل نکالی، پانی ہماری گاڑی پہ گرایا اور خالی بوتل سڑک پہ پھینک کر کہا کہ اب یہ گند بھی تم ہی صاف کرو گے۔ اس کا غصہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ گاڑی کے کالے شیشے نیچے ہوئے اور ایک نوجوان لڑکی کی صورت نظر آئی ہم نے سوچا کہ یہ عورت ذات ہے تو معاملے کو رفع دفع کرنے میں معاون ثابت ہو گی مگر ان کی "انگریزی" تو مردوں کی انگریزی سے بھی زیادہ "بائیولوجیکل" تھی۔

 

ابھی ان کی سائنس سے بھرپور انگریزی کو بھگت ہی رہے تھے کہ دوسری طرف بیٹھی ہوئی ادھیڑ عمر خاتون نے الیکٹرانک سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے غالبا اپنے بچوں کی سمع خراشی کو کم جانتے ہوئے ان کی اور ہماری سائنسی معلومات میں “مفید” اضافہ کیا۔۔

 

جب تماشا دیکھنے والوں کا رش بڑھا تو لینڈ کروزر میں بیٹھی ایک خاتون نے مرد حضرات کو وہاں سے چلنے کو کہا اور جاتے جاتے ہاتھ کی انگلی کے بے ہودہ اشارے سے اپنے خاندان کا تعارف کروایا۔ ان کے نکلنے کی دیر تھی کہ لوگوں کا رش بھی چھٹ گیا۔ میں نے اس سارے واقعے کے دوران اپنے صاحب زادے کا ہاتھ پکڑے رکھا تاکہ بات آگے نہ بڑھے کیونکہ جانتا تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ لینڈ کروزر والے غیر مسلح ہوں۔

 

لینڈ کروزر دور جا چکی تھی۔۔۔ ہمارے برخوردار گاڑی سے اترے اور پانی کی خالی بوتل سڑک سے اٹھا لی۔۔۔سی ویو سے خیابانِ بخاری میں واقع اپنی رہائش گاہ تک کے سفر میں ہم میں سے کوئی ایک لفظ بھی نہ بولا۔۔۔ لیکن گھر داخل ہوتے ہی میں نے بیٹے سے پوچھا تم آسٹریلیا کب جا رہے ہو؟۔



لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ)

🪀: 0340 4303030

📧: khanabrar30c@gmail.com


ایک شاعرہ ہیں۔ شبینہ ادیب صاحبہ؛ انہوں نے ایسے اصحاب کی کیا خوب تصویر کشی کی ہے؟

 

جو خاندانی رئیس ہیں وہ مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا

تمہارا لہجہ بتا رہا ہے تمہاری دولت نئی نئی ہے

 

ذرا سا قدرت نے کیا نوازا کہ آ کے بیٹھے ہو پہلی صف میں

ابھی سے اڑنے لگے ہوا میں ابھی تو شہرت نئی نئی ہے

 

بموں کی برسات ہو رہی ہے پرانے جانباز سو رہے ہیں

غلام دنیا کو کر رہا ہے وہ جس کی طاقت نئی نئی ہے


More Posts