زندگی ماہ و سال کی کہانی ہے؛ ہر گذرتا دن تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور یہ زمین پر بسنے والے انسانی تاریخ کی کہانی بن جاتی ہے۔ انسانی تاریخ قوموں کے عروج و زوال کی داستان ہے؛ اس داستان کا اہم حصہ اقوام کی افواج ہوتی ہیں۔ یہ تحریر پاکستان کے اہم عساکر مرکز ملتان شہر میں غیر عسکری زندگی کے متعلق معلومات پر مبنی ہے اور اس زندگی میں ایک روزن ہے جسے لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ) نے قلم زد کیا ہے۔
کرنل کی ڈائری سے
فورٹ کالونی - ملتان چھاؤنی
چہار چیز است تحفۂ ملتان، گرد، گرما، گدا و گورستان کی گردان سنتے سنتے ملتان چھاؤنی میں قدم رکھتے ہی گرد اور گدا والی باتیں کسی غلط فہمی کا نتیجہ معلوم ہوتی ہیں۔ اور ملتان چھاؤنی کی مشہور و معروف اور سر سبز و شاداب فورٹ کالونی میں قدم رکھتے ہی پوری کی پوری کہاوت ہی بے معنی لگنا شروع ہو جاتی ہے۔۔۔
ہر چند شہرِ کرامات و سرزمینِ اولیاء ہمارا ننھیالی شہر ہے لیکن اس سے جڑی خوشگوار یادوں کے تانے بانے ہماری فوجی زندگی سے بھی جا ملتے ہیں۔ یہ محض حسنِ اتفاق ہی ہے کہ بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ پاکستان ملٹری اکیڈمی، کاکول سے میری پہلی تعیناتی بھی ملتان چھاؤنی میں ہی ہو گئی۔ یوں لیفٹین صاحب مع ایک عدد کالا بکسا اور بستر بند راولپنڈی سے ریل گاڑی میں سوار ہو کے ملتان چھاؤنی جا پہنچے۔ لیکن چھاؤنی میں ایک ہی رات بسر کرنا نصیب ہوئی کہ اگلی ہی صبح ہم موسم سرما کی مشقوں میں حصہ لینے کی غرض سے چاند گاڑی نما فوجی جیپ میں خیرپورٹامیوالی جا پہنچے جہاں ہمیں اگلے دو سے ڈھائی مہینے گزارنے تھے۔ یوں ملتان چھاؤنی کو دیکھنے کا موقع میسر نہ آسکا۔ موسم سرما کی مشقوں سے واپسی ہوئی تو عصرِ حاضر کے افسران کے ساتھ ملتان چھاؤنی کی خوب سیر کی۔ جبکہ اندرونِ شہر تو ہم خالہ اور ماموں زاد بھائیوں کے ساتھ پہلے بھی کئی مرتبہ دیکھ ہی چکے تھے۔ ویک اینڈ پہ چمن زارِ عسکری اور ملتان گیریژن کلب سے ملحقہ پارک میں سرِ شام ہی شہریوں کا رش دیکھنے کو ملتا۔ ویک اینڈ اور تہواروں پہ تو رش کے باعث ٹریفک میں خلل بھی پیدا ہو جاتا۔
ملتان چھاؤنی سے واقفیت تقریباً مکمل ہو چکی تھی بس اب فورٹ کالونی دیکھنے کی خواہش باقی تھی۔ اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے ہی لیفٹین صاحب کو فوجی کورس پہ نوشہرہ چھاؤنی جانے کا حکم نامہ جاری ہو گیا۔ ہمارے اسی کورس کے دوران رجمنٹ ملتان سے لاہور جا پہنچی۔ یوں فورٹ کالونی دیکھنے کی حسرت دل میں ہی رہ گئی۔ لاہور کے بعد سیاچن، کھاریاں، نوشہرہ، ڈیرہ بگٹی، سوئی، تربیلہ، ٹیکسلا، باجوڑ، پشاور حتیٰ کہ بیرونِ ملک (ہیٹی) کی تعیناتی کے بعد قسمت ہمیں پھر سے ملتان لے آئی۔ سوچا اب کی دفعہ فورٹ کالونی ضرور دیکھوں گا۔ کیا پتہ تھا کہ اس دفعہ فورٹ کالونی ہی ہمارا مسکن ہو گا۔ ملتان آمد کے ساتھ ہی لین ٧ بی میں واقع وسیع وعریض لان والا شاندار بنگلہ الاٹ ہو گیا۔ یہاں تین سالہ تعیناتی کے دوران ہم نے اپنے باغبانی کے شوق کو دل بھر کے پورا کیا۔ ویسے تو ہر روز ہی کچھ نہ کچھ وقت ہم اس لان کی دیکھ بھال میں لگا لیا کرتے مگر اتوار کا تو پورا ہی دن لان کے نام ہوتا جس سے مالی چاچا کچھ کچھ جبکہ بیگم صاحبہ مکمل طور پہ خفا رہتیں۔
فورٹ کالونی میں سرِ شام ہی بچوں کی فوج اپنی اپنی سائیکلوں پہ سوار پوری کالونی کا چکر لگا کر اپنے آخری اسٹاپ "ہیپی ہوم" جا پہنچتی۔ جہاں بیشتر والدین پولو گراؤنڈ کے چار پانچ چکر لگا کر اپنے اپنے بچوں کے انتظار میں وہاں موجود ہوتے۔ جو افسران ملتان میں تعینات رہ چکے ہیں وہ ہیپی ہوم کی رونق سے بخوبی واقف ہوں گے۔ یہاں بچے اور خواتین بڑے شوق سے کھٹے میٹھے گول گپے، چٹخارے دار دہی بھلے، چٹپٹے اور کرارے چپس اور ٹھنڈے ٹھار لمکا سوڈے سے لطف اندوز ہوتے ہیں جبکہ مرد حضرات کا زیادہ رش بار بی کیو کارنر پہ ہی ہوتا ہے۔ سردیوں میں چکن کارن سوپ اور کشمیری چائے زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ موجودہ ہیپی ہوم کو نہ صرف مزید بہتر بنا دیا گیا ہے بلکہ یہاں پولو کیفے کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔ جہاں برگر، اسٹیک، پیزا اور چائنیز کھانے رہائشیوں میں خاصے مقبول ہو چکے ہیں۔ ہیپی ہوم کے لان میں نصب بڑی سی اسکرین پہ کرکٹ میچ دیکھنے کا الگ ہی مزا ہے۔ میچ اگر روایتی حریف سے ہو تو ناظرین کا جوش و خروش بھی دیدنی ہوتا ہے۔
اسی کمپلیکس میں اے ٹی ایم مشین بھی نصب ہے جس پر یکم سے دس تاریخ تک رش دیکھا جا سکتا ہے۔ دس تاریخ کے بعد فوجی کا اے ٹی ایم مشین پہ بھلا کیا کام؟ اے ٹی ایم سے ملحقہ ہی ایک چھوٹی سی لائبریری میں بچے اور بڑے اپنی اپنی پسند کی کتب گھروں میں لے جاتے اور بزرگ حضرات عموماً اخبار بینی کرتے نظر آتے۔
فورٹ کالونی میں بچوں کو محظوظ کرنے کے لیے جھولوں سے مزّین چند پارک بھی بنائے گئے ہیں۔ ان پارکوں کے علاوہ مصنوعی روشنی کی سہولت کے ساتھ باسکٹ بال کورٹ، فٹبال گراؤنڈ اور اسکیٹنگ کا ٹریک بھی موجود ہے۔ بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کی تفریح کے لیے ملتان گالف کورس بھی اسی کالونی کا حصہ ہے۔ بچوں اور بڑوں کے بعد خواتین کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ تو ان کے لیے قندیل لیڈیز کلب کی شاندار عمارت بھی فورٹ کالونی کا حصہ ہے۔ کالونی کے وسط میں نمازیوں کے لیے شاندار جامع مسجد بھی تعمیر کی گئی ہے۔
ملتان سی ایم ایچ کے علاوہ کالونی کے رہائشیوں کو فوری طبی امداد پہنچانے کی غرض سے یہاں غالبا لین ٦ میں میڈیکل بٹالین کی جانب سے ایک طبی مرکز (ایم آئی روم) قائم ہے جس میں صبح شام ایک ڈاکٹر اور میڈیکل اسٹاف موجود ہوتا ہے۔
کالونی کے اندر آرمی پبلک اسکول کی موجودگی والدین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ کیونکہ یہاں ٹریفک حادثات سے بے خطر بچے بآسانی اپنی سائیکلوں پہ بھی اسکول آجا سکتے ہیں۔
یہاں کے رہائشیوں کی سہولت کے لیے ہیپی ہوم میں گوشت، مرغی، سبزی، فروٹ، کریانہ، اسٹیشنری، درزی، حجام کی دکانوں کے علاوہ خواتین کے لیے بیوٹی پارلر کی سہولت بھی موجود ہے۔
موسم بہار میں فورٹ کالونی کی رونقیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ کینٹ بورڈ کے زیرِ اہتمام سالانہ پھولوں کی نمائش کے ساتھ ساتھ خوبصورت ترین لان کے مقابلوں میں پودوں اور پھولوں سے شغف رکھنے والے شوقین حضرات اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ مقابلے کے دن کالونی کے چاروں اطراف رنگ برنگے پھولوں کی ایسی بہار ہوتی ہے کہ دیکھنے والے خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
یوں تو شہرِ صد چراغ میں مینہ کم کم ہی برساتا ہے لیکن جب کبھی بھولے سے بادل کا کوئی ٹکڑا اس خطے پہ مہربان ہوتا ہے تو ملتانی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو دیر تک سانسوں میں بسی رہتی ہے۔ بارش کے قطرے درختوں، پودوں اور گھاس سے اپنی دوستی نبھاتے ہیں تو ہری بھری گھاس، پھول اور پتے نکھر کے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اپنے بنگلے کے لان میں موجود جھولے پہ بیٹھ کے چائے اور بارش کا لطف اٹھانے والا وہ منظر بہت یاد آتا ہے۔۔۔
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ پہلی مرتبہ ملتان تعینات ہونے والا فوجی بھی روتا ہے اور واپس جانے والا بھی۔ آنے والا اس لیے کہ اس نے صرف یہ کہاوت "چہار چیز است تحفۂ ملتان، گرد، گرما، گدا و گورستان" ہی سنی ہوتی ہے اور جانے والا اس لیے روتا ہے کہ ملتان کی خوبصورتی اس کے دل و دماغ میں بس چکی ہوتی ہے۔ یہاں کے ملنسار لوگوں کی میٹھی میٹھی سرائیکی زبان میں ایسی کشش ہے کہ وہ ہر کسی کو یہاں دوبارہ آنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔ میں آجکل کراچی میں رہائش پذیر ہوں جب کبھی اپنے شہر راولپنڈی جانا ہوتا ہے تو ملتان کی خوشگوار یادیں ہمیں کم از کم ایک رات یہاں گزارنے پہ مجبور کر دیتی ہیں۔ موٹر وے سے اتر کر گاڑی سیدھی فورٹ کالونی کی لین ٧ بی میں اپنے سابقہ بنگلے کے سامنے جا کے رکتی ہے میں اپنے ہاتھوں سے لگائے ہوئے پودوں اور درختوں کو دیکھ کر پھر سے جوان ہو جاتا ہوں۔۔۔
بچوں کی خواہش پہ ہیپی ہوم جانا بھی لازمی ہوتا ہے۔ یہاں ویٹر چاچا رمضان اور چاچا خلیل ہمیں پہچان کے فوراً ہی عثمان سے گول گپے، "اٹل کوبرا" سے چپس اور فیض سے لمکا سوڈا لا کے ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے۔ بل کی ادائیگی پہ ہر دفعہ کی طرح تکرار ہوتی ہے وہ بطور روایتی ملتانی میزبان ہمیں بل پیش نہیں کرتے جبکہ ہم ان کی محبت کی قدر ضرور کرتے ہیں مگر روایتی فوجی کی طرح اپنی بات منوا ہی لیتے ہیں۔۔۔
ہیپی ہوم سے ہیپی ہیپی ہم گیسٹ روم روانہ ہو جاتے ہیں۔ اگلی صبح ملتان اور فورٹ کالونی سے جڑی خوشگوار یادوں کو دل میں لیے ہم اپنی اگلی منزل کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں۔۔۔
✍️: لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ)
کراچی
9 ستمبر 2024
🪀: 0340 4303030
📧: khanabrar30c@gmail.com