Muhammad Asif Raza 5 days ago
Muhammad Asif Raza #education

کبھی مایوس مت ہونا؛ دسمبر لَوٹ آتا ہے

دسمبر کا مہینے میں رات ہوتے ہی فضا میں گہرا سناٹا چھا جاتا ہےاور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پوری کائنات کی سانس رک گئی ہے۔ ماہِ دسمبر میں ہر شے رک سی جاتی ہے۔ ایسے میں ماہِ دسمبر سے متعلق اردو شاعری زیادہ تر اداس شاعری ہے اور اس کے علاوہ شاید ہی کوئی دوسرا آپشن ہو۔ اردو میں یہ تحریر انسانوں کے جذبات کے بارے میں کچھ شاعرانہ تاثرات کے ساتھ اظہارِ خیال ہے۔

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

 

کبھی مایوس مت ہونا؛ دسمبر لَوٹ آتا ہے

 

اگر ہم پسند کرتے ہیں کہ زندگی خوابوں سی حسین ہو تو یقینا" ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جسم کی طرح دل بھی آئین کا پابند ہے؛ تو یہ حقیقت ہمیشہ ذہن مین رہنی چاہیے کہ بغض و کینہ سے ہمارا دل بجھ جاتا ہے؛ مر جاتا ہے اور صرف دین کے راستے سے دل زندہ ہوتا ہے۔ دین کا راستہ فطرت کا حسن ہے۔ یہ یاد رہے کہ اسلام کو دینِ فطرت بھی کہا جاتا ہے۔




 یہ سرد راتیں بھی بن کر ابھی دھواں اڑ جائیں

وہ اک لحاف میں اوڑھوں تو سردیاں اڑ جائیں

راحت اندوری

 

ہمیں زندگی آپس میں جڑنے کے لیے عطا کی گئی ہے؛ اپنی اناوں کو ضرب لگا کر بڑھانے کے لیے نہیں۔ ایوارڈز جیتنے کے لیے نہیں۔ شیخی مارنے والے حقوق یا مسابقت کی دوڑ کے لیے نہیں۔ مقابلہ کرنے، موازنہ کرنے یا نقل کرنے کے لیے نہیں۔ دکھاوا کرنے کے لیے نہیں۔

ہمیں زندگی آپس میں جڑنے کے لیے عطا کی گئی ہے۔ ایک دوجے کے سنگ سنگ رہنے کے لیے؛ خوبصورت یادیں بنانے لیے؛ خوشگوار تقریبات میں شمولیت کے لیے۔

اس زمین پر ہر شے جیسے سرسراتی ہوا؛ بہتا پانی ؛ چہچہاتے پرندے؛ روپہلی دھوپ؛ سرکتا ڈھلکتا آنچل اور ہمارے اندر کی گہری آگ اور امیدوں سے سجی ہماری توانا سوچ اور خواب ہر سمے ہماری منتظر ہے۔

 

سردیوں کی سرد رات میں جب ہم اپنی ہتھیلیوں پر ٹھنڈی ہوا محسوس کریں؛ اورجو ہمیں یاد دلاتے ہوں کہ دستانے پہننے چاہیے تھے۔ ایسے ماحول میں دیودار اور جمی ہوئی پودوں کی خوشبو آ رہی ہو اور میں یا آپ پارک کے ایک بینچ پر آہنی آرمریسٹ پر اپنی کہنی کے ساتھ بیٹھے ہوں؛ اور کوئی بے مقصد سوچ میں گھرے ہوں۔ کیا میں یا آپ اکثر شام کو دیر سے کسی بینچ پر بیٹھا کرتے ہوں اور جہاں ہمارا مستقل ساتھی، ایک پرانا دیودار کا درخت شانہ بشانہ کھڑا تھا۔ کیا ہم نے سوچا نہیں ہوگا کہ کیا ہم اس خوشگوار ماحول کا تجربہ سے ہم غیر متاثر رہے ہونگے؟ کیا وہ وقت وہاں ہم نے اس درخت کے ساتھ ؛ شاید ہر جمنے والی سردیوں میں صرف اگلی کرسمس کی خوشی کی توقع میں گزارا تھا تو کیا وہ درخت تہوار سے بالکل بے خبر تھا؟ ایک لمحہ فکریہ تو ہے لیکن اس سے مجھے اپنے ساتھی کے قربت محسوس کرنے میں مدد ملی۔

 

میری ہم نفس، میرے ہمسفر! اگر دسمبر کی سردی میں؛ ڈھلتا سورج؛ خاموش شامیں، سرد راتیں، دہکتی لکڑیاں، آسمان پر تیرتا یا پانی میں چمکتے چاند کا عکس؛ گرم چائے اور شاعری پسند ہے تو سمجھو ہم دوست ہیں۔

عزیزِ من! اگر آوارہ طبعیت، ایک لمبا سفر ، کھڑکی والی سیٹ، برف پوش پہاڑ، سرسبز میدان، آبشاریں، جھیلیں، بوڑھے درخت، خاموشی اور منتِ شانہ آرزوئیں دل بند ہیں تو سمجھو ہم دوست ہیں۔

 

اے دوست! اے میرے ہمسفر! یہ زندگی اسی کی ہے؛ جو کسی کا ہوگیا۔ اور جب ہم خود ہی خود کی نہیں تو پھر مایوس کیا ہونا؟ پھر کیا برسات اور کیا دسمبر؟ کھویا جسے نظر نے تصور نے پا لیا؛ دل کا معاملہ تھا بگڑ کر سنور گیا۔ ایک دسمبر ہی تو گیا ہے پھر آجائے گا۔ چلیں جب تک کچھ شاعری سے دل بہلاتے ہیں۔

 

 

انوار فطرت کی نظم " اداس ایک لڑکی ہے"؛


دسمبر کی گھنی راتوں میں

جب بادل برستا ہے

 

لرزتی خامشی

جب بال کھولے

کاریڈوروں میں سسکتی ہے

 

تو آتش دان کے آگے

کہیں سے وہ دبے پاؤں

مرے پہلو میں آتی ہے

 

اور اپنے مرمریں ہاتھوں سے

میرے بال سلجھاتے ہوئے

سرگوشیوں میں درد کے قصے سناتی ہے

 

جولائی کی دوپہریں

ممٹیوں سے جب اتر کر

آنگنوں میں پھیل جاتی ہیں

 

باتوں کے بسکٹ پھول جاتے ہیں

تو وہ بھی جنگلی بیلوں سے

اٹھتی خوشبوؤں سے جسم پاتی ہے

 

مرے نزدیک آتی ہے

مری سانسوں کی پگڈنڈی پہ

دھیرے دھیرے چلتی ہے

مرے اندر اترتی ہے

 اداس ایک لڑکی ہے


سامیہ ناز کی نظم ' کبھی مایوس مت ہونا '؛


دسمبر کا چلے جانا

اگر تم کو رُلاتا ہے !!

کوئی بُھولا ، کوئی بِچھڑا

تمہیں بھی یاد آتا ہے۔۔۔

طوالت آخرِ شب کی

گراں تم پر گزرتی ہے

یا دل میں رائیگانی کا

عجب احساس بھرتی ہے

تو میری جان! تم ہرگز

ذرا بھی غم نہیں کرنا !

ہو اک پل ، یا برس کوئی

وہ ماضی بن ہی جاتا ہے

یہ جُھولا وقت کا ، جاناں!

یوں ہی چکّر لگاتا ہے

پرانا ڈوب جائے تو

نیا سورج بھی آتا ہے

سو میری جان ! تم ہرگز

کبھی مایوس مت ہونا

دسمبر لَوٹ آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

 

انسانی ذہن بہت پیچیدہ ہے۔ انسانی فکر رسا نے ہمیشہ حیران کیا ہے کہ دماغ کس طرح خوشی اور غم کے ماحول کو باہم سما سکتا ہے۔ بھلا موت کی اداسی اور ذہنی خوشی کو کیسے جوڑا جا سکتا ہے۔ دو لوگ ایک ہی واقعہ کو دیکھ سکتے ہیں ساتھ ساتھ لیکن مکمل طور پر متضاد جذبات کا تجربہ کرسکتے ہیں۔ یہ تجربہ کسی پر بھی طاری ہوسکتی ہے کہ یہ ہمارا دماغ تھا جس نے ہماری حقیقت کو ڈیزائن کیا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ بیرونی محرکات کتنے ہی خوش کن ہوں، یہ ہمارا دماغ تھا جو ہم نے کیسا محسوس کیا اس پر حکومت کرتا تھا۔ اسی طرح ایک سرد رات میں دو افراد کی ہتھیلیوں کے سادہ لمس سے گرمی کا اثر پیدا کیا جاسکتا ہے۔

 

دسمبر اب کے آؤ تو

دسمبر اب کے آؤ تو

تم اُ س شہرِ تمنا کی خبر لانا

کہ جس میں جگنوؤں کی کہکشائیں جھلملاتی ہیں

جہاں تتلی کے رنگوں سے فضائیں مسکراتی ہیں

وہاں چاروں طرف خوشبو وفا کی ہے

اور اُس کو جو بھی پوروں سے

نظر سے چھو گیا پل بھر

مہک اُٹھا

دسمبر اب کے آؤ تو

تم اُ س شہرِ تمنا کی خبر لانا

جہاں پر ریت کے ذرے ستارے ہیں

گُل و بلبل ، مہ و انجم ، وفا کے استعارے ہیں

جہاں دل وہ سمندر ہے، کئی جس کے کنارے ہیں

جہاں قسمت کی دیوی مٹھیوں میں جگمگاتی ہے

جہاں دھڑکن کی لے پر بے خودی نغمے سُناتی ہے

دسمبر! ہم سے نہ پوچھو ہمارے شہر کی بابت

یہاں آنکھوں میں گزرے کارواں کی گرد ٹہری ہے

لبوں پر العطش ہے، بطن میں فاقے پنپتے ہیں

محبّت برف جیسی ہے یہاں

اور دھوپ کے کھیتوں میں اُگتی ہے

یہاں جب صبح آتی ہے تو

شب کےسارے سپنے

راکھہ کے اک ڈھیر کی صورت میں ڈھلتے ہیں

یہاں جذبوں کی ٹوٹی کرچیاں آنکھوں میں چُبھتی ہیں

یہاں دل کے لہو میں اپنی پلکوں کو

ڈبو کر ہم سُنہرے خواب بُنتے ہیں

پھر اُن خوابوں میں جیتے ہیں

اُنہی خوابوں میں مرتے ہیں

دریدہ روح کو لفظوں سے سینا گو نہیں ممکن

مگر پھر بھی

دسمبر! اب کے آؤ تو

تم اُ س شہرِ تمنا کی خبر لانا۔۔!!!

آئیے ذیل میں امجد اسلام امجد کی نظم "آخری چند دن دسمبر کے" پڑھتے ہیں اور ایک حقیقت کا ادراک کریں، جسے ہم موت کا نام دیتے ہیں۔

وہ آخری چند دن دسمبر کے

ہر برس ہی گِراں گزرتے ہیں

خواہشوں کے نگار خانے سے

کیسے کیسے گُماں گزرتے ہیں

رفتگاں کے بکھرے سایوں کی

ایک محفل سی دل میں سجتی ہے

فون کی ڈائری کے صفحوں سے

کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے

جن سے مربوط بے نوا گھنٹی

اب فقط میرے دل میں بجتی ہے

کس قدر پیارے پیارے ناموں پر

رینگتی بدنُما لکیریں سی

میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں

دوریاں دائرے بناتی ہیں

نام جو کٹ گئے ہیں اُن کے حرف

ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں

حادثے کے مقام پر جیسے

خون کے سوکھے نشانوں پر

چاک سے لائینیں لگاتے ہیں

پھر دسمبر کے آخری دن ہیں

ہر برس کی طرح سے اب کے بھی

ڈائری ایک سوال کرتی ہے

کیا خبر اس برس کے آخر تک

میرے ان بے چراغ صفحوں سے

کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے

کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں

گردِ ماضی سے اٹ گئے ہونگے

خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں

کتنے طوفان سِمٹ گئے ہونگے

ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں

اک دن اس طرح بھی ہونا ہے

رنگ کو روشنی میں کھونا ہے

اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی

ڈائری دوست دیکھتے ہونگے

اُن کی آنکھوں کے خواب دنوں میں

ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا

اور کچھ بے نِشاں صفحوں سے

نام میرا بھی کٹ گیا ہوگا۔


What to Expect During ABA Therapy Sessions in Colorado Springs?

What to Expect During ABA Therapy Sessions in Colorado Springs?

defaultuser.png
Silvester Hills
1 month ago

Distributed Wind Market Size and Share 2024: Trends and Projections fo...

defaultuser.png
Prity
6 days ago
Exploring the Delights and Benefits of Honey with Saffron

Exploring the Delights and Benefits of Honey with Saffron

defaultuser.png
Ghulam Hussain
1 year ago
A Story of Olives and Cactus: Is the Story of Palestine? زیتون اور کیکٹس کی کہانی: کیا فلسطین کی کہانی ہے؟

A Story of Olives and Cactus: Is the Story of Palestine? زیتون اور کیک...

1714584133.jpg
Muhammad Asif Raza
1 year ago
Football Predictions: The Art and Science Behind Forecasting Match Outcomes

Football Predictions: The Art and Science Behind Forecasting Match Out...

defaultuser.png
Rio Ferdinand
2 months ago