قبرعذاب یا جنت کی راحت؛ کیا ہے؟

زندگی ایک طرفہ تماشہ ہے اور سارے انسان اس میں ایک کیریکٹر ہیں؛ اور اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ مگراہم بات یہ ہے کہ وہ کردار کیا ہوتا ہے؟ زندگی موت کے سسرحد پار ختم ہاجات تو معاملہ سادہ ہوتا مگر تمام الہامی ادیان یہ مانتے ہیں کہ موت زندگی کا ہی ایک تسلسل ہے اور قبرایک دوراہا۔ یہ تحریر قبر کی زندگی سے متعلق ہے۔

2024-06-21 18:37:39 - Muhammad Asif Raza

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

 

قبرعذاب یا جنت کی راحت؛ کیا ہے؟

 

آج کے جدید دور میں بھی یہ حققت سب جانتے اور مانتے ہیں کہ ہر ہیدا ہونے والا انسان ایک دن مرجائے گا؛ سو یہ ارضی زندگی فنا ہونے والی ہے۔ زمین پر بسنے والے انسانوں نے کئی ایک مفروضے گھڑ رکھے ہیں؛ مگر جو الہامی کتابوں پر مبنی عقیدہ رکھتے ہیں؛ اپنے مُردوں کو قبر میں دفناتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جیسے ہی انسان کی زندگی کے ڈور ٹوٹ جاتی ہے اسے قبر کے حوالے کر دییا جاتا ہے۔ موت کے معنی روح کا جسم سے جدا ہو جانا ہے، مگر اس سے روح نہیں مرجاتی۔

 

اس دنیاوی زندگی کی بابت قرآن میں ہے کہ " وما الحياة الدنيا إلا متاع الغرور"؛ "سورة الحديد؛ الآية 20" اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے"۔" صحيح مسلم7417

 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور لوگ اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اس وقت اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد آگے بڑھائے چلو۔ لیکن اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جا رہے ہو۔ اس کی یہ آواز انسان کے سوا ہر اللہ کہ مخلوق سنتی ہے۔ کہیں اگر انسان سن پائے تو بیہوش ہو جائے"۔ صحيح البخاري 1316

اس سے یہ بات تو واضع ہوجاتی ہے کہ آدمی روح نکل جانے کے بعد دنیا کے لیے مرجاتا ہے مگر ایک نئی وضع کی زندگی اسے مل جاتی ہے۔ اور وہ اس کے ساتھ قبر میں اتارا جاتا ہے۔


کیا قبر میں بھی کوئی زندگی ہے؟

 

اس سوال کا جواب کوئی سائینس دان، مفکر، دانشور یا محقق نہی دے سکتا؛ اس کا واحد جواب صرف اور صرف الہامی ادیان دیتے ہیں؛ اور آج کے تین سب سے بڑے ادیان یہودیت، عییسائیت اور اسلام اپنے مُردوں کو دفناتے ہیں اس عقیدے کے ساتھ کہ قبر میں بھی زندگی ہے؛ اس دن تک جب ساعتِ قیامت قائم کی جائے گی۔ انسانوں کی ایک بڑی اکثریت یہ کہتی ہےکی قبر میں صرف ہڈیاں رہ جاتی ہیں اور وقت کے ساتھ وہ بھی گھل جاتی ہیں۔ اور اس کی وجہ انسانوں کا مشاہدہ اور تجربہ ہے۔

 

آئیے دیکھیے کہ دین اسلام اس ضمن میں کیا پیغام دیتا ہے؟

 

آج امت مسلمہ کی تنزلی کی ایک بڑی وجہ دنیاوی زندگی کی حقیقت اور قبر میں زندگی سے متعلق لاعلمی اور کمزور عقائد کی بنیاد ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں قبر میں اعادہ روح، زندگی یا عذاب القبر کا مکمل سبق دیا گیا ہے۔ مگر آج کا انسان اس کا منکر ہے اور سمجھتا ہے کہ دنیاوی زندگی گذار کر مر جانے والا مردہ ہے، اور ایک انسان کی موت آتے ہی یہ جسم (جس کو لاش کہا جاتا ہے ) یہ بے حس و بے شعور ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ گل سڑ کر ایک نہ ایک دن مٹی میں ملکر مٹی ہو جاتا ہے۔

 

لیکن قرآن اورحدیث کی واضع احکامات کے تحت یہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک اور عالَم ہے جس کو برزخ کہتے ہیں۔ مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے تمام اِنس وجن کو حسبِ مراتب اُس میں رہنا ہوتا ہے۔ برزخ میں کسی کو آرام ہے اور کسی کو تکلیف۔


ایک حدیث میں حضرت عبد اللّٰہ بن عمرو سے منسوب روایت ہے کہ ’’جب مسلما ن مرتا ہے اُس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے" ۔ المصنف‘‘ لابن أبي شیبۃ، کتاب الزھد باب فضل الموت الحدیث ۱۰،



سورۃ الانعام کی آیت 94 میں فرمایا گیا ہے کہ " ”کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جبکہ وہ سکرات موت میں ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں لاؤ نکالو اپنی روحوں کو آج تمھیں ان باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائیگا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر نا حق کہا کرتے تھے اور اسکی آیات کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے"۔

اس دنیاوی زندگی میں جن کی زندگی ظلم کی عبارت رہی ہوگی اور سب سے بڑا ظلم شرک ہے اور پھر طغا؛ یعنی حد سے بڑھ جانا ہے؛ اور وہ حدود اللہ ہیں جن کا ذکر قرآن میں ہے؛ جن سے بغاوت کرنے والے اللہ کی پکڑ میں آئیں گے۔

 

لیکن وہ لوگ جو ظالم نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کے فرمانبردار ہونگے یعنی عبد اللہ؛ اور انہوں نے ارضی حیات کو متاع الغرور ہی سمجھا ہوگا توانکے لیے موت خوشخبرہ ہوگی ایک نعمتوں والی زندگی کی؛ ار انکی قبر ایک انعام والی زندگی کا دروازہ ہوگا؛ اور وہ اللہ کریم کے رحمتوں والی زندگی پائیں گے۔

 

سورۃ النحل کی آیت 32 میں فرمایا گیا ہے کہ " جب فرشتے پاک ( نیک ) لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں؛ تم پر سلامتی ہو داخل ہو جاؤ جنت میں اپنے ان اعمال کیوجہ سے جو تم کرتے تھے"۔

 

قرآن المجید کی سورۃ یٰس میں ایک مرد مومن کا ذکرکیا گیا ہے اور اس کے اعمال کا ذکر کیا گیا ہے؛ جس کی تفصیل آیات 20-25 میں درج ہیں۔ لیکن اس کے اعمال کے سبب میں اسے قوم نے قتل کردیا تو اللہ کریم نے فرمایا ہے کہ اسے مرنے کے فوراً ہی بعد جنت میں داخل کردیا گیا۔ آیات 26-27 میں ذکر ہوا ہے کہ " اس سے کہا گیا داخل ہو جا جنت میں، کہنے لگا کاش میری قوم کو معلوم ہو جائے کہ اللہ نے مجھے بخش دیا اور عزت داروں میں شامل کردیا“۔

ہم کیوں اس بات پرمصر ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صرف عذاب ہی دے؟

 

اب ذرا ٹھریے اور غور کیجیے کہ ہم کیوں قبر کی نعمتوں کے بارے میں بات نہیں کرتے؟ جبکہ ھم جانتے ھیں کہ موت کا مطلب اپنے رب کی طرف جانا ھے جو 70 ماوں سے زیادہ محبت کرنے والا،اور رحمن و رحیم ھے ۔

ہم یہ کیو‌ں نہیں کہتے کہ وہ سب سے بہترین دن ہوگا جب ہم اپنے رب سے ملیں گے۔ ہمیں یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ جب ہم اس دنیا سے کوچ کریں گے تو ہم ارحم الراحمین کی لامحدود اور بیمثال رحمت اور محبت کے سائے میں ہوں گے، وہ رحمان جو ماں سے بھی زیادہ مہربان ہے؟

 

شاید اس کی وجہ ہماری بےاعتدالی اور گمراہی کی زندگی ہے جو ہم بسر کررہے ہوتے ہیں۔

 

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت العالمین بنا کر بھیجے گئے تھے اور وہ بشارت دینے والے بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آپﷺ نے ایک مادہ جانور کو دیکھا جو اپنا پاؤں اپنےبچے پر رکھنے سے بچا رہی تھی، تو آپﷺ نے صحابہ سے فرمایا: "بے شک ہمارا رب ہم پر اس ماں سے کہیں زیادہ مہربان ہے"۔

 

لیکن ہم انسانوں نے ایک ایسی آبادی قائم کر لی ہے کہ ہر کوئی ہمیشہ، صرف عذاب قبر کی باتیں کررہا ہے؛ مگر کیوں؟ کیوں ہمیں موت سے ڈرایا جا رہا ہے؟ یہاں تک کہ ہمیں، معاذ اللہ، پختہ یقین ہو گیا کہ ہمارا رب ہمیں مرتے ہی ایسا عذاب دے گا جس کا تصور بھی نہی کیا جا سکتا۔ کیونکہ ہم علم رکھتے ہیں کہ ہمارے اعمال احکامات الہی سے مسلسل روگردانی ہیں۔

 

ہم یہ کیوں نہی سوچتے کہ ہمارا رب ہم پر رحم کرے گا۔ ہم یہ بات کیوں نہیں کہتے کہ جب قبر میں مومن صالح سے منکر نکیر کے سوال جواب ہو جائیں تو ہمارا رب کہے گا: "میرے بندے نے سچ کہا، اس کے لئے جنت کا بچھونا بچھاؤ، اس کو جنت کے کپڑے پہناؤ اور جنت کی طرف سےاس کے لئے دروازہ کھول دو اور اس کو عزت کے ساتھ رکھو۔ پھر وہ اپنامقام جنت میں دیکھےگا تو اللہ سے گڑگڑا کر دعا کرے گا: "پروردگار قیامت برپا کر تاکہ میں اطمینان کے ساتھ جنت چلا جاؤں"۔ (احمد، ابوداؤد) آخر اعمال صالح کے ادا کرنے میں کیا شے مانع ہے؟

 

ہم یہ بات کیوں نہیں بتاتے کہ ہمارا عمل صالح ہم سےالگ نہ ہوگا اور قبر میں ہمارا مونس اور غمخوار ہوگا۔

 

جب کوئی نیک آدمی وفات پا جاتا ہے تو اس کےتمام رشتہ دار جو دنیا سے چلے جا چکے ہیں، ان کی طرف دوڑیں گے اور سلام کریں گے، خیر مقدم کریں گے۔ اس ملاقات کےبارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ: "یہ ملاقات اس سے کہیں زیادہ خوشی کی ہوگی جب تم دنیا میں اپنے کسی عزیز سے طویل جدائی کے بعد ملتے ہو۔ اور وہ اس سے دنیا کے لوگوں کے بارے میں پوچھیں گے۔ ان میں سے ایک کہے گا اس کو آرام کرنے دو، یہ دنیا کے غموں سے آیا ہے۔ (صحیح الترغیب لالبانی)

موت دنیا کے غموں اور تکلیفوں سے راحت کا ذریعہ ہے۔

 

صالحین کی زندگی دنیا میں عیاشی اور گمراہی کی نہی ہوتی؛ اسی لیے ان کی موت درحقیقت ان کے لئے راحت ہے۔ اس لئے ہمیں دعا سکھائی گئی ہے ۔۔

اللھم اجعل الموت راحة لنا من كل الشر.. (اے اللہ موت کو ہمارے لئے تمام شروں سے راحت کا ذریعہ بنا دے)۔

 

ہم لوگوں کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ موت زندگی کا دوام ہے اور یہ حقیقی زندگی اورہمیشہ کی نعمتوں کا دروازہ ہے۔

 

ہم یہ حقیقت کیوں چھپاتے ہیں کہ روح جسم میں قیدی ہے اور وہ موت کے ذریعے اس جیل سےآزاد ہو جاتی ہے اور عالم برزخ کی خوبصورت زندگی میں جہاں مکان و زمان کی کوئی قید نہیں ہے، رہنا شروع کرتی ہے۔ ہم کیوں موت کو رشتہ داروں سےجدائی، غم اور اندوہ کےطور پر پیش کرتے ہیں؟ کیوں نہیں ہم یہ سوچتے کہ یہ اپنے آباؤ اجداد، احباب اور نیک لوگوں سے ملاقات کا ذریعہ ہے۔

 

قبرسانپ کا منہ نہیں ہے کہ آدمی اس میں جائے گا اور سانپ اس کو چباتا رہے گا۔ بلکہ وہ تو حسین جنت اور حسیناؤں کا عروس ہے جو ہمارے انتظار میں ہیں۔

اللہ سے نیک امید رکھو اور اپنے اوپر خوف طاری مت کرو ۔ ہم مسلمان ہیں، اسلئے ہم اللہ کی رحمت سے دور نہیں پھینک دیئے گئے۔ لیکن مسلمان بن کے رہو اور اس پر ثابت قدم رہو۔

اللہ نے ہمیں عذاب کے خاطر پیدا نہیں کیا۔ اللہ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا۔ اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ کی رضا کے کام کون سے ہیں اور ناراضگی کےکون سے ہیں۔ اور ہم دنیا میں آزاد ہیں جو چاہے کریں۔ لہٰذا صرف اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ صرف اللہ کو ماننا نہیں ہے بلکہ اللہ کی بندگی یعنی غلامی میں رہنا ہے۔ آج روئے زمین پر چلتے پھرتے انسانوں کی اکثریت ایسی قبر کے لیے؛ جو جنت کی راحت ہے؛ والی زندگی بسر نہی کر رہے ہیں؛ انہیں قبر میں اپنے اعمال کا مطابق جزا ملے گی اور جو زمین کے اوپر اللہ کی حاکمیت کے تحت زندگی گذار رہے ہیں وہ جنت کی راحت والی قبر پائیں گے۔ ان شاء اللہ

 

" ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار "؛ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا"۔ آمین ثم آمین


More Posts