کارزارِ حیات: انسانیت و کامرانی

زندگی ایک نعمت خداوندی ہے جو انسان کو ودیعت کی گئی ہے اور اس کی حیاتِ ارضی کا مقصد اور کامرانی کا معیار بھی متعین کیا گیا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ انسانی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کا سودا نہیں ہے۔ کیا آج کا انسان بامقصد زندگی جینا چاہتا ہے؟ اس تحریر میں اسی بات کو موضوع بنایا گا ہے۔

2024-06-13 22:33:54 - Muhammad Asif Raza

 

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

 

کارزارِ حیات: انسانیت و کامرانی

 

آج دنیا میں تقریبا" آٹھ ارب انسان بستے ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک جنگل انسانوں کا ہے جو اس زمین پر چلتا پھرتا ہے۔ اس گروہ انسان نے اس زمین پر کیسا کیسا تماشہ کھڑا کر رکھا ہے کہ خود شعور کی آنکھ سے دیکھنے والا حیران ہے کہ کیا انسان اس ہی لیے زندگی کی نعمت پاتا ہے۔

 

زندگی تو ایک نعمت خداوندی ہے جو خاص طور پر عطا کی گئی ہے اور حیاتِ ارضی کا مقصد اور کامرانی کا معیار بھی متعین کیا گیا ہے۔ اللہ سبحانہ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی پیدائش سے متعلق قرآن میں مخلتف آیات میں کچھ یہ فرمایا ہے:-

 

" ہم نے اولاد آدمؑ کو عزت و تکریم بخشی اور اسے گرامی قدر بنایا۔اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی" ۔

“وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پیدا کیا”

“اور جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کیا”۔

 

آج کے گروہ انسان کی ایک بڑی طاقتور تعداد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیروکار ہیں۔ اور الہامی ادیان یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی تعلیمات سے کارزارِ حیات کا مقصد اور اس میں کامیابی کا بہت یقینی سے تعین کیا جاسکتا ہے۔ ادیان کی علماء اس ضمن میں بہت ہی مدلل بات کرتے ہیں اور اج کی دنیا میں اس بارے جاننا کوئی مشکل جستجو نہیں ہے۔ اس مضمون کا مقصد الہامی تعلمات کے روشی میں کارزارِ حیات میں کامرانی کی راہ کا تعین کرنا نہیں ہے؛ کہ یہ کام اہل دانشِ دین کا ہے؛ مگر بذات خود انسان بندہ بشر اس زمین پر جئیے کیسے؟ کیونکہ زندگی محض سانس لینے کا نام نہیں ہے۔

 

آج کا انسان بامقصد زندگی جینا چاہتا ہے؛ اور اس کے لیے اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مارتا پھر رہا ہے۔ اگرچہ انسانوں کی بڑی اکثریت حیوان کی سطح پر زندہ رہتے ہیں اور ان کی زندگی " صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے" کے مصداق گذرتی ہے۔ مگر ایک گروہ ایسا ہر دور میں زندہ ہوتا ہے جس کا ضمن میں علامہ اقبال نے کیا خوب اشارا دیا ہے کہ " دور دنیا کا، میرے دم سے اندھیرا ہوجائے؛ زندگی شمع کی صورت ہو خدا یا میری"۔

 

بامقصد آدمی کی زندگی کسی فردوس گم گشتہ کی تلاش میں نہیں گزرتی۔ ایک بھٹکے ہوئے آدمی کی زندگی کا سفر کسی متعین منزل کی طرف نہی ہوتی جس کی وجہ سے وہ کبھی ایک خواہش کی تکمیل کی چاہ میں چل پڑتا ہے اور کبھی دوسری خواہش کی چاہ میں۔ باشعور انسان اپنے ذہن میں اپنی زندگی کا مقصد جانتا ہے اور اس کے سامنے راستہ اور منزل واضح ہوتا ہے۔



 

ارضی زندگی کا سفر تو ماں کی گود سے گور تک ہے۔ اس میں کئی مراحل آتے ہیں؛ اور کامیابی اور کامرانی ان کو ملتی ہےجو اوائل حیات ہی سے اپنی منزل اور راستہ چن لیتے ہیں۔ زندگی کو بامعنی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کم عمری ہی میں ایک سوچا سمجھا ہوا زندگی کا رستہ چن لے اور اپنی آئندہ حیات کا ایک خاکہ بنالے۔ اس راستے اور منزل پراس کے ذہن کا مطمئن ہونا انتہائی اہم ہے۔ منزل اور راستہ کچھ بھی ہو؛ انسان کے فلسفِہ حیات کی تعبیر ہونا چاہیے اور اس کا ضمیر پوری طرح اس کی گواہی دیتا ہو۔ 

 

تصورِ حیات کسی نا کسی فلسفہ حیات کے تابع ہوتا ہے؛ اور کارزارِ حیات میں انسان کے اصول اس فلسفے ہی سے پھوٹتے ہیں، جس پر انسان کا ایمان اور ایقان ہوتا ہے۔ آج کے دور کے انسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے زندگی کو نفس ہائے حیوانی کی خواہشات کو پورا کرنے کو مقصدِ حیات بنا لیا ہے۔ اس ارزانی خیال نے انسانوں کو صرف جانور بنا دیا ہے اور زندگی محض " ریٹ ریس" بن گئی ہے۔

 

کتنے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ انسان اس جدید دور میں جہالت کے ذہنیت کے ساتھ زندہ ہو۔ انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی قدر و منزلت کو نہ پہچانے۔ وہ قدر و منزلت جو اسے بطور مخلوقِ خاص و اعلی حاصل ہے اور اس کا تعین کسی مذہبی روایت سے نہ بھی ہو تو دنیا کا شعور ہی کافی ہے۔ کیا انسان کے علاوہ کوئی اور مخلوق اس زمیں پر حکمران بن سکی ہے اور کیا انسان نے ارتقاء کے منازل کو نہی پایا ہے؟

 

خالقِ کائنات نے تو قرآن میں کہہ دیا کہ " وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پیدا کیا " ۔

“اور جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کیا”۔



یعنی انسان اس زمین پر ارتقاء کے منازل طے کرتا ہوا، آگے بڑھے گا اور اس زمین پر موجود وسائل کو استعمال کرگا اور اس مقام تک پہنچے گا کہ زمین کو مسخر کر لے گا۔ یہ زمین کو مسخر کرنا کیا ہوگا؟ کیا انسان اس زمین کا حکمران نہی ہے؟ کیا اس زمین پر انسانوں کے علاوہ کسی اور مخلوق نے کچھ اثرات اور نشانیاں بنائی اور چھوڑی ہیں؟


یہ اعزاز صرف انسان کو حاصل ہے۔ تو کیا انسان اس ارضی مستقر پر ایک عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کا ذمہدار نہیں ہے؟ کیا انسان کو اس زمین پر سارے انسانوں کے لیے اور دیگر ساری مخلوقات کے لیے ایک مناسب، ماحول دوست بہتر طرزِ زندگی مہیا کرنے کی فرض نہیں نبھانا چاہیے؟

کارزار حیات میں زادِ راہ کیا ہونا چاہیے؟


صدیوں سے انسانیت کی داستان ایک مثل کو بار بار دھرا رہی ہے کہ ابن آدم کے سفرِ حیات میں سب سے بڑا ہتھیار " کردار " ہے۔ یہ کردار کیا ہے؟ " کردار " سیرت، خصلت کو کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی طور پر کردار مخصوص ذہنی، اخلاقی اور نفسیاتی خصوصیات کا نام ہے؛ جو فرد کے برتاو اور رویوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایک دوسری تشریح کے مطابق کردار نیت، ارادوں اور اعمال کا مجموعہ ہوتا ہے جو کسی فرد کا دوسروں کے ساتھ تعامل سے جھلکتا ہے۔

 

انسان کے قول و عمل سے اسکے کردار کا پتا چلتا ہے اور اس بات کو سمجھنے کے لیے سرزمینِ ترکیہ کی ایک نظم "مجھے خوف ہے" سے استفادہ کرتے ہیں۔

 

تم کہتے ہو کہ تمہیں بارش پسند ہے؛

لیکن جب بارش ہوتی ہے تو چھتری کھول لیتے ہو۔

تم کہتے ہو کہ تمہیں سورج سے محبت ہے؛

لیکن جب وہ چمکتا ہے تو سایہ میں پناہ ڈھونڈتے ہو۔

تم کہتے ہو کہ تمہیں ہوا سے پیار ہے؛

لیکن جب یہ چلتی ہے تو کھڑکیوں کو بند کر دیتے ہو۔

اس لیے مجھے ڈر لگتا ہے، جب تم کہتے ہو کہ تم بھی مجھ سے پیار کرتے ہو۔

 

آئیے ایک انگلش شاعر " ہینری واڈس ورتھ لانگ فیلو" کی نظم " تیر اور گیت " سے استفادہ کرتے ہیں؛ اور سیکھتے ہیں کہ ہم جو عمل کرتے ہیں، وہ کیسے دوسروں کو متاثر کرتے ہیں اور ہمارے اعمال کتنا دور رس اثرات رکھتے ہیں۔

 

میں نے ہوا میں تیر پھینکا؛

وہ زمین پر گرا، میں نہیں جانتا تھا کہ کہاں

کہ وہ بڑی تیزی سے اڑتا گیا؛ اور

 میری نظر اس کی پرواز کو پکڑ نہیں سکی۔

 

میں نے ہوا کے دوش پر ایک گیت گنگنایا

وہ فضا میں کہیں کھو گیا، میں نہیں جانتا تھا کہ کہاں

کس کی نظر اتنی پائیدار اور مستحکم ہے؛ کہ

وہ گانے کی پرواز کو چھو بھی سکے ہیں؟

 

بہت لمبے طویل عرصے بعد، بلوط میں پیوست

مجھے تیر ملا، تب بھی ٹوٹا نہ تھا؛

اور وہ گیت؛ ابتدا سے آخر تک؛

 مجھے ایک دوست کے دل میں ملا۔

 

علامہ اقبال نے حق ادا کیا اور کیا خوب فرمایا کہ " یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم؛؛؛ جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں"۔

 

انسانیت کی منزل کے سب مسافروں کو اپنی آواز کو مستحکم رکھنا چاہیے اور اپنے دل کو نرم۔ دنیا میں چونکہ منفی قوتیں ہمیشہ عمل پذیر رہتی ہیں اس لیے درد دل کا سودا ہوتا رہتا ہے مگر انسان کو اسکے نتیجے میں دل کو سخت نہی کرنا چاہیے اور نفرت نہیں پالنی چاہیے۔ اور دنیا کی دی ہوئی کڑواہٹ سے زبان کی مٹھاس کو ختم نہیں ہونا چاہیے۔ اونچی آواز میں پیغام دور تک جاتا ہے مگر اثر نہیں رکھتا؛ نرمی اور مٹھاس سے کہی جانے والی بات مؤثر ثابت ہوتی ہے۔

 

 آپ جو بوتے ہیں، وہی کاٹتے ہیں ؛ اسے طرح جو رویہ آپ پیش کریں گے ویسا ہی آپ کو ملے گا۔ دھیما پن، سکون، گرمجوشی اور مہربانی انسان دوست خوبیاں ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ " جو شخص نرم مزاج ہوتا ہے وہ اپنی قوم کی محبت ہمیشہ باقی رکھ سکتا ہے"۔ مزید فرمایا ہے کہ " اس دنیا میں اپنی ضرورت سے زیادہ نہ چاہو۔ فتنوں میں پڑنے کا آغاز وہ نفسانی خواہشیں ہوتی ہیں جن کی پیروی کی جاتی ہے۔ اور اتم بات یہ کی ہے کہ " دنیا کی فانی چیزیں دے کر، باقی رہنے والی چیزیں خرید لو"۔

 

یہ بات طے ہے کہ انسانی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کا سودا نہیں ہے اور تمام انسانوں نے خوبصورت ترین، طاقتور ترین اور امیر ترین ہو کر بھی مر ہی جانا ہے؛ تو حیاتِ ارضی ایک فانی شے ہے اور ختم ہونے والی شے کے لیے سب کچھ کی تمنا اور کوشش بیکار محض ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا فلسفہ حیات با معنی اوربا مقصدِ ہونا چاہیے۔ ایک بامعنی اور بامقصد حیات میں کامرانی دولت اور عشرت کی فراوانی نہی ہوسکتی؛ یہ یقینا" کچھ اور ہی شے ہونی چاہیے۔ دین کی راہ پر چلنے والی کسی انسان کے لیے اس کا تعین دشوار نہیں ہونا چاہیے۔

 


ایسا ہی پیغام فلمی گیتوں میں بھی مل جاتا ہے؛ اس سلسلے میں پیش ہے ذیل میں دو نغمے

More Posts