If BY RUDYARD KIPLING: روڈ یارڈ کیپلنگ: نظم "اگر"

روڈ یارڈ کیپلنگ کی لکھی ہوئی ایک مشہور نظم "اگر" ہے جو پہلی بار 1910 میں ان کے مجموعہ "انعامات اور پریوں" کے حصے کے طور پر شائع ہوئی تھی۔ نظم ایک عمدہ اور باوقار زندگی گزارنے کے لیے متاثر کن رہنما اصولوں کا ایک مجموعہ پیش کرتی ہے، جس میں صبر، استقامت، خود اعتمادی اور دیانت داری کی خوبیوں پر زور دیا گیا ہے۔ یہ تحریر روڈ یارڈ کیپلنگ کی مشہور نظم "اگر" کا اردو ترجمہ اور تبصرہ ہے اور بینگ باکس کے قارئین کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

2024-05-14 18:08:18 - Muhammad Asif Raza

 

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

 

روڈ یارڈ کیپلنگ: نظم "اگر" ۔

 

اگر آپ اپنا دھیان قائم رکھ سکو، جب آپ کے بارے میں آپ کے ارد گرد؛

سب لوگ آپ پر اعتماد کھو رہے ہوں اور آپ پر الزام لگا رہے ہوں؛

اگر آپ اپنا یقین کھو نہیں رہے، جب تمام لوگ آپ پر شک کرتے ہوں؛

 لیکن دوسروں کو ان کے شکوک و شبہات میں رہنے دو۔

اگر آپ انتظار کر سکتے ہو، اور انتظار آپ کو تھکا نہیں دیتا؛

اور جب ہر سو جھوٹ بولا جارہا ہو، تب بھی تم جھوٹ کا سودا نہ کرو؛

یا نفرت بیجی اور اگائی جا رہی ہو، تم نفرت کی راہ پر نہ چلو؛

اور پھر زیادہ اچھے دکھنے کی چاہ نہ پالو، اور نہ ہی زیادہ دانشمندی بکھیرو۔

 

اگر آپ خواب دیکھ سکو اور ان کو اپنی تقدیر نہیں بنا سکو؛

اگر آپ سوچ سکو اور اپنی فکر کو اپنا مقصد نہ بنا سکو؛

اگر آپ فتح اور تباہی کا سامنا کر سکتے ہو؛

اور ان دونوں حالتوں سے یکساں سلوک کرتے ہو۔

اگر آپ اپنے کہے ہوئے سچ کے اثرات برداشت کر سکو۔

مڑی ہوئی چھریوں کا جال، جو بے وقوفوں کے لیے بنایا جاتا ہے؛

یا ان چیزوں کو تباہ ہوتے دیکھو، جن کے لیے آپ نے اپنی زندگی تج دی ہو؛

تو رک جانا ؛ اور انہیں ٹوٹے ہوئے اوزاروں ہی سے پھر سے ٹھیک کر دینا۔

 

اگر آپ اپنی تمام کامیابیوں کا ایک ڈھیر بنا سکو؛

اور اسے پچ اور ٹاس کے ایک چال پر خطرہ میں ڈال سکو؛

اور ہار جاو؛ اور پھر سے اپنی بنیادوں کا دوبارہ آغاز کو سکو؛

اور اپنے نقصان کا دکھ بھول سکو، کچھ بھی نہ کہو؛

اگر آپ اپنے دل اور اعصاب کو مجبور کر سکو اور سینچو؛

اور اپنے حصے کی خدمت بار بار دھرا سکتے ہو؛

اور اس وقت بھی جمے رہو، جب آپ ساری قوت کھو چکے ہو؛

۔ سوائے اس ہمت کے جذبہ کے جو اکساتی ہے؛ "جمے رہو"؛ لگے رہو"۔

 

اگر آپ ہجوم کا سامنا کر سکو اور اپنی فضیلت کو قائم رکھ سکو؛

یا بادشاہوں کی سنگت پاو اور اپنا عامی رنگ نہ کھوو؛

اگر دشمن اور نہ ہی عزیز دوست آپ کو دکھ پہنچا سکیں؛

اگر تمام لوگ جو تمھارے ساتھ کھڑے ہوں، مگر تمھارے نہ ہوں؛

اگر آپ اس ناقابل معافی لمحے سے نمٹ سکو؛

محض ساٹھ سیکنڈ کی ایک جست کی دوڑ سے؛

تو پھر زمین تمھاری ہے اورجو کچھ اس میں ہے وہ بھی؛

اور جب تم یہ سب کر پاو؛ جو اصل ثمر ہے میرے بیٹے؛ تو تم مرد بن چکے ہو۔


 

روڈ یارڈ کیپلنگ نے یہ نظم در اصل 1896 عیسوی میں جنوبی افریقہ میں ایک برطانوی فوجی مہم کی ناکامی کے بارے میں جاننے کے بعد لکھا تھا۔

انہوں نے یہ نظم اپنے بیٹے کو ایک باپ کی نصیحت کے طور پر لکھی گئی ہے، جس میں زندگی کے چیلنجوں اور پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے حکمت فراہم کی گئی ہے۔ کپلنگ مختلف منظرناموں اور حالات کی کھوج کرتا ہے، قاری کو فرضی حالات کی ایک سیریز کے ساتھ پیش کرتا ہے اور ان کا جواب کیسے دیا جائے۔

نظم کا مرکزی موضوع مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے متوازن نقطہ نظر کو برقرار رکھنے، اپنے مقاصد کے حصول میں پرعزم رہنے، اور اخلاقی استقامت کا مظاہرہ کرنے کے گرد گھومتا ہے۔

 

کیپلنگ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے، کسی کے اعمال کی ذمہ داری لینے، اور ناکامیوں سے سیکھنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ پوری نظم میں، کیپلنگ ان خصوصیات کو اجاگر کرتا ہے جو انسان کو حقیقی معنوں میں نیک بناتی ہیں، بشمول عاجز رہتے ہوئے خود پر بھروسہ کرنے کی صلاحیت، امید کھوئے بغیر مشکلات میں ثابت قدم رہنا، کامیابی اور ناکامی کا علاج، ہم آہنگی کے ساتھ کرنا، اپنے جذبات پر قابو رکھنا، اور معاف کرنے کی صلاحیت وغیرہ وغیرہ۔

 

تسکین اور ضبط نفس کا سبق نظم "اگر" کا اصل جوہر ہے جو اعتدال پر مبنی اخلاقیات کا درس بھی ہے۔ اس نظم میں، وہ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ زندگی میں سکون کے ساتھ آگے بڑھے، اور ہمیشہ ضبط نفس، دیانتداری اور عاجزی کا مظاہرہ کرے۔ مزید برآں یہ کہ کبھی بھی "فتح" یا "آفت"؛ پیش آید واقعات اچھے یا برے ہوں کو کسی صورت میں دماغ پر سوار نہ ہونے دیں۔

 

روڈ یارڈ کیپلنگ نے نظم "اگر" میں جن اخلاقی اقدار کی سفارش کی ہے وہ ہیں سکون، استقامت، خود اعتمادی، رواداری، صبر، دیانت، شائستگی، ہمت، استقامت اور صنعت۔ شاعر کے مطابق انسان کو صاف ستھرا ہونا چاہیے، اپنے آپ پر یقین، صبر، دیانت، معافی، ذہانت، شائستگی اور رواداری سے پوری زندگی گزارنی چاہیے۔

 

آئیے دیکھیں کہ قرآن حکیم ہمیں حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کی نصیحت کے ذریعے کیا سکھایا ہے؟

حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پہلی نصیحت کی وہ یہ ہے کہ بیٹا خدا کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا بے شک شرک کرنا بڑا بھاری ظلم ہے۔

اپنی دوسری نصیحت میں حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو حق تعالیٰ کے علم اور اس کی عظیم صفات کاملہ کا اعتقاد دلایا کہ آسمان اور زمین اور اس کے درمیان جو کچھ ہے اس کے ایک ایک ذرے پر اللہ کا علم محیط ہے۔ اور سب پر اس کی قدرت کامل ہے۔

 حضرت لقمان علیہ السلام کہتے ہیں کہ بیٹا نماز کو قائم کرو۔

انہوں نے پھر کہا کہ بیٹا لوگوں کو اچھی بات کا حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا اور کہا کہ اس کام میں تمہیں جو تکلیف پیش آئے اس پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا۔

معاشرتی پہلو سے متعلق نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ بیٹا لوگوں سے اپنا رُخ مت پھیرو اور زمین پر اترا کر مت چلو بیشک اللہ تعالیٰ تکبر اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے۔

اپنی رفتار میں اعتدال اخیار کرونہ بہت دوڑ کر چلو کہ گر جاﺅ اور نہ قدم گن گن کر چلو کہ یہ وضع متکبرین کی ہے۔

بلکہ متوسط رفتار‘تواضع و سادگی کی چال اختیار کرو۔

پھر فرمایا کہ اپنی آواز کو پست کرو بے شک بری آوازوں میں سب سے بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔

 

کیا آج کے سارے والدین کے لیے اس نوع کی نصیحتوں کو اپنی اولاد تک پہنچانے کی ضرورت نہیں ہے؟

یہ ایسی بیش قیمت اور انمول اصولِ زندگی ہیں جن پر عمل کرنا ہر مرد و عورت کے لیے اہم ہیں۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں افعال صالحہ کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین


More Posts