زندگی ماہ و سال کی کہانی ہے؛ یہ زمین پر بسنے والے انسان کی کہانی ہے؛ یہ نیلا آسمان اور اس گگن ہر روشن آفتاب ہو یا چاندنی بکھیرتا ماہتاب ہمیں کچھ بتاتے ہیں۔ پھولوں نے، کلیوں نے،پتّوں نے، شاخوں نے ،چرند نے، پرند نے، مُرغ وماہی نے خالق ِ کائنات کے اَشرفُ المخلوقات کے لیے اس جہان کو کتنا خوبصورت بنا رکھا ہے؛ آدم خاکی زمین و آسمان سب جگہ حاوی ہے۔ سمندر کے سینے پر؛ آسمان کے وسعت میں بڑے بڑے جہازاڑتے، تیرتے پھر رہے ہیں۔ سب انسان کی حوصلے کی داستان سنا رہے ہیں۔ آئیے کچھ شعراء کے سنگ یہ کہانی سنیں۔
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
فیض احمد فیض
ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں
وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں
ساحر لدھیانوی
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
بسمل عظیم آبادی
وقت آنے دے دکھا دیں گے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیوں بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
بسمل عظیم آبادی
لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
اکبر الہ آبادی
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
جگر مراد آبادی
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
مجروح سلطانپوری
ابھی سے پاؤں کے چھالے نہ دیکھو
ابھی یارو سفر کی ابتدا ہے
اعجاز رحمانی
لوگ جس حال میں مرنے کی دعا کرتے ہیں
میں نے اس حال میں جینے کی قسم کھائی ہے
امیر قزلباش
ہار ہو جاتی ہے جب مان لیا جاتا ہے
جیت تب ہوتی ہے جب ٹھان لیا جاتا ہے
شکیل اعظمی
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر
امیر مینائی
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
ؔمرزا عظیم بیگ عظیم
انہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا
اندھیری رات کے پردے میں دن کی روشنی بھی ہے
اختر شیرانی