جَیسی رُوح وَیسے فََرِشتے
انسان لفظ " انس " سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے پیار کرنے والا۔ اگر ابنِ آدم یعنی حضرت انسان اس زمین پر اِسْمْ با مُسَمّیٰ یعنی جیسا نام ویسا کام کا مصداق ہوتا تو آج دنیا میں امن و محبت کا دور دورہ ہوتا؛ مگر ایسا ہے نہیں۔ تو کیا ہے جو انسان ایک دوسرے سے سَر بَہ گَریباں نظر آتے ہیں؟ کہں ایسا تو نہیں ہے کہ " جَیسی رُوح وَیسے فََرِشتے" کارفرما ہو؟ یہ تحریر اس موضوع پر لکھی گئے ہے۔
2024-12-09 10:20:53 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
جَیسی رُوح وَیسے فَرِشتے
انسان لفظ " انس " سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے پیار کرنے والا۔ اگر ابنِ آدم یعنی حضرت انسان اس زمین پر اِسْمْ با مُسَمّیٰ یعنی جیسا نام ویسا کام کا مصداق ہوتا تو آج دنیا میں امن و محبت کا دور دورہ ہوتا؛ مگر ایسا ہے نہیں۔ تو کیا ہے جو انسان ایک دوسرے سے سَر بَہ گَریباں نظر آتے ہیں؟ کہں ایسا تو نہیں ہے کہ " جَیسی رُوح وَیسے فََرِشتے" کارفرما ہو؟ یہ تحریر اس موضوع پر لکھی گئے ہے۔
انسان لفظ " اِنس " سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے پیار کرنے والا؛ محبت روا رکھنے والا؛ یعنی " اِنسان" کو " اُنس" کا مظہر ہونا ہے۔ یعنی مانوس ہونے کی کیفیت، محبت، الفت، مہر، موانست وغیرہ۔ اگرچہ انسان اس زمین پر باہم دست و گریباں ہے مگر دوسری جانب اسی انسان نے شفقت اور پیار سے جانوروں کو پالنا سیکھ لیا اور جنگلی درندوں کو بھی رام کرلیا اور اپنا پالتو بنا لیا۔
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر، باز با باز
مندرجہ بالا فارسی زبان کا شعر اب اردو ادب میں بھی ضرب المثل بن چکا ہے؛ یہ انسان کی فطرت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ انسان نے جب بستی بسائی اور معاشرہ تخلیق کیا تو اس کی اولین کوشش اپنا خاندان اور قبیلہ کو ساتھ رکھنا تھا۔ پھر تہذیب اور تمدن نے جڑ پکڑی؛ اس کے باوجود انسان ہر معاشرے میں اپنے ہم مسلک، ہم خیال، ہم مزاج اور ہم زبان لوگوں کا متلاشی رہتا ہے اور انہیں مخصوص افراد کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ انسان اپنی ساری زندگی میں ایسے افراد کی تلاش میں رہتا ہے جن کی ہم نشینی اسے پسند آئے اور وہ دوسروں کی بہ نسبت ہم زبان و ہم خیال لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، گفتگو کرنا، رسم و راہ رکھنا زیادہ بہتر تصور کرتا ہے۔
شعر کے تخلیق کار نے پرندوں کی نفسیات کو پیش کرتے ہوئے اپنے اس شعر میں انسانی فطرت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ ہماری روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ کبوتر جب پرواز کرتا ہے تو اپنے ہی ہم جنس کبوتروں کی معیت میں رہتا ہے اور اسی طرح باز (ایک شکاری پرندہ) بھی اپنے ہم جنسوں کی صحبت میں رہتا ہے اور انھیں کے ساتھ اڑنا پسند کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اور بے شمار پرندے ایسے ہی سفر کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلا" کوے، کونجیں، چڑیا وغیرہ۔ کارخانۂ قدرت میں ہر روز کے مشاہدے کی بنیاد پر یہ بات بلا کسی تردید کے کہی جاسکتی ہے کہ ”کند ہم جنس باہم جنس پرواز" دراصل بشر کی بنیادی شرست کا خاصہ اور صفت ہے۔
اردو زبان دنیا کی دوسری مقبول زبانوں کی نسبت کم عمر ہے مگر اس نے اپنے آنگن میں دوسری زبانوں سے بہت ذخیرہ اکھٹا کررکھا ہے۔ اب چونکہ انسان ابنِ آدم کی اولاد ہیں اور وہ اس زمین پر ہر سو پھیل چکے ہیں سو اس لیے انکے احساسات اور جزبات بھی ملتے جلتے ہیں۔ اس لیے ان کے روز مرہ ، محاوروں اور مشاہدوں مین ایک ربط بھی ملتا ہے۔ اردو زبان کا محاورہ ہے "جَیسی رُوح وَیسے فََرِشتے" یعنی جیسا آدمی ہوتا ہے ویسے ہی اس کے ساتھی ہوتے ہیں۔ یا جیسا آدمی ہوتا ہے ویسے ہی گروہِ انسان میں وہ جا بستا ہے یا ان ہی کے درمیان وقت گذارتا ہے اور ایک مانوس ماحول بنالیتا ہے۔ ایسے لوگ جو خود سے مانوس ماحول میں نہیں ہوتے اور اجنبیوں کے درمیان رہتے ہیں؛ ایسا ہی ہے جیسا جنگل میں ہوں یا صحرا میں۔
اب ذرا دیکھیے کہ دوسری زبانوں میں اس محاروے کی کیا مماثلت ہے؟
عربی میں محاورہ ہے کہ "الطيور لا تقع إلا على أشكالها" یعنی "پرندے صرف اپنے پروں پر گرتے ہیں"۔
انگریزی زبان میں کہا گیا ہے کہ
"Birds of a feather flock together.”
یعنی "ایک پنکھ کے پرندے ایک ساتھ اڑتے ہیں۔"
ایسی ہی ایک بات انگریزی زبان میں مزید بیان ہوئی ہے کہ
"A Man is known by the company he keeps۔"
یعنی انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ اور یہ وہی بات ہے جو نفسِ مضمون ہے کہ جَیسی رُوح وَیسے فَرِشتے۔
ان سب کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے زندگی کا سفر اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کا رہن سہن، فکر و سوچ، مقاصد اور نفسیات ایک دوسرے کے ساتھ ملتی ہیں۔ یہی چیز اُن میں فطری کشش بھی پیدا کرتی ہے، جو ان کو باہم جوڑتی ہے؛ ملاتی ہے اور اچھے اور برے دنوں میں راحت اور سکون فراہم کرتی ہے۔
آئیے ذیل یں کچھ اشعار پر نظر ڈالتے ہیں جو اس نفسِِ مضمون کو مزید واضع کریں۔
جیسی روح ہو ویسے فرشتے ملیں جیسا آپ ہو ویسوں کا یار بنے
کبھی آگ و پانی کا میل نہیں برے کام کا نیک اثر ہی نہیں
جو ہو جاہل علم کو جانے کہاں اور گیان گیان کو مانے کہاں
غمِ ہجر کو وہ پہچانے کہاں جسے درد جگر کی خبر ہی نہیں
محسن علی شاہ
کہاں ہم میں جماعت اور طاعت
شکستہ ہو گئے سابق کے رشتے
نہیں ہے کچھ شکایت لیڈروں کی
کہ جیسی روح ہے ویسے فرشتے
اکبر الہ آبادی