جیمز بالڈون کی نظم " سورگ / بہشت " اور ایک پیار کا نغمہ

The Poem " Paradise" by Poet James Baldwin is a famous poem from an African-American Poet. The poem presents a very important message for the mortal man in this mortal world that how to make this life a paradise by observing and rejoicing simple things in life. This write up in Urdu "جیمز بالڈون کی نظم " سورگ / بہشت " اور ایک پیار کا نغمہ" is primarily is translation of the poem and in addition, some related Urdu poetry.

2025-02-26 18:23:07 - Muhammad Asif Raza

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

 

جیمز بالڈون کی نظم " سورگ / بہشت " اور ایک پیار کا نغمہ

 

 جیمز آرتھر بالڈون (2 اگست، 1924 - 1 دسمبر، 1987)، ہارلیم، نیویارک میں پیدا ہوئے، ایک افریقی نژاد امریکی ناول نگار، مضمون نگار، لیکچرر، ڈرامہ نگار، شاعر، مختصر کہانی کے مصنف اور شہری حقوق کے کارکن تھے جنہوں نے اپنے مضامین، ناولوں، نظموں، ڈراموں کی وجہ سے پذیرائی حاصل کی۔ ان کے 1953 کے ناول "گو ٹیل اٹ آن دی ماؤنٹین" کو ٹائم میگزین نے انگریزی زبان کے 100 بہترین ناولوں میں سے ایک کے درجے پر قرار دیا۔

 

جیمز بالڈون نے کہہ رکھا ہے کہ " کسی بھی معاشرے کی سب سے خطرناک تخلیق وہ آدمی ہے جس کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے"؛ "ہر چیز کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا جس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن جب تک اس کا سامنا نہ کیا جائے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوسکتا"؛ "ہر ایک کا سفر انفرادی ہے"؛ "اگر آپ کو کسی لڑکے سے پیار ہوتا ہے تو آپ کو ایک لڑکے ہی سے پیار ہوا ہے"۔

 

یہاں؛ ہم جیمز بالڈون کی نظم " سورگ / بہشت" پر گفتگو کر رہے ہیں جہاں شاعر حقیقت سے جڑی دلکش یادوں کی ایک واضح تصویر کشی کرتا ہے۔ جس میں شامل ہے، نیلا آسمان، جھومتی سمندری لہریں، اور زندگی کے شیریں و تلخ اسباق۔ یہ بے خوف زندگی گزارنے کے جوہر اور "میں" اور "ہم" کے درمیان لازوال تعلق کو خوبصورتی سے کھینچتا ہے۔ یہ نظم قیمتی لمحات اور ان سے حاصل کردہ سکون کے لیے ایک طاقتور استعارا ہے۔

 

پروفیسر رابرٹس نے جیمز بالڈون کی نظم " سورگ / بہشت" پر "کاؤنٹی کولن" کے اثرات پڑنے کی رائے دی ہے؛ جو نظم "ہارلیم رینیسنس" کے شاعر بھی ہیں۔ اور جو بالڈون کے سابق مڈل اسکول ٹیچر، کلنٹن گریجویٹ، اور کبھی میگ پائی کے ایڈیٹر بھی تھے۔ پروفیسر رابرٹس نے یہ بھی رائے دی کہ " سورگ / بہشت" کو رومانیت کے پہلوں سے معمور سمجھا جا سکتا ہے۔

 

" سورگ / بہشت" نظم کا پیغام یہ ہے کہ اگر ہم زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو ہماری خوشی قدرت کی عطا کردہ فطرت کی نعمتوں پر مبنی ہونی چاہیے؛ جیسے سمندر کے اوپر پھیلا نیلا آسمان، میرے اور آپ کے سروں پر لہراتے، مسکراتے بادل اور سرسراتی ہوا جو ہمیں گدگدا رہی ہو، جب ہم ہنستے مسکراتے، باہم گفتگو میں مگن ہوں۔

نظم میں مزید کہا گیا ہے کہ بچپن زندگی کا شاندار مرحلہ ہے اور جوانی کے دن، چمکتے سورج کے نیچے اس طرح بے فکری کا ہوتا ہے کہ آسمان بھی مسکراتا ہے اور آنسو اور سسکیاں دور دور رہتی ہیں۔ آئیے خوشیاں جمع کریں؛ جبکہ زمین بےشک پریشانیوں کے ساتھ گھومتی رہی ہو۔ اور میرے لئے سکون اس احساس میں ہے کہ آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں۔ محبت میں زندگی انسان کو بادلوں کے اوپر لےجاتی ہے؛ اور وہ بھی اس طرح کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے خوبصورت گلزاروں سے گزرتے ہوں؛ اور یہی احساس زندگی کی اصل خوشی ہے۔ اب آئیے اس نظم کو درج ذیل میں پڑھتے ہیں:-۔


جیمز بالڈون کی نظم " سورگ / بہشت "۔

اسے میرا نشاط خیز موسم بننے دو؛

نیلا آسمان اور جھومتا سمندر ہو؛

اور مسکراتے بادل ہوں، اور ہوا کی دوش پر پھیلتی کھلکھلاہٹ ہو؛

اور بس کہ میں تم میں مدہوش ہوں۔

 

اور بچے شان و شوکت سے کھیل رہے ہوں؛

اس طرح کہ بے فکری ہو، اور جوانی کے دن ہوں؛

اور آسمان پہ چمکتے سورج کی کرنیں کہ رحمت ہوں؛

اور ایسے کہ آنسؤ اور سسکیاں دور دور تک نہ ہوں۔

 

مجھے یہ خوشی حاصل کرنے دو؛

زمین پر تیز پھیلتی ہوئی مصیبتوں کے درمیان۔

 

بس مجھے یہ سکون حاصل کرنے دو؛

صرف اس جانکاری سے کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو۔

 

صرف یہ کہنا ہے کہ ہم پنکھ لگا کر اُڑ جائیں گے؛

اس زمینی آب و ہوا سے بہت اوپر؛

ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، حسین مرغزاروں سے گذریں گے۔

یہی میرا نشاط خیز موسم ہوگا۔

حسن و عشق اور محبت کے جزبے پر شاعری


اردو زبان و ادب میں حسن و عشق اور محبت کے جزبے پر خوب شاعری کی گئی ہے اور جیمز بالڈون کی خیالات کا عکس جگہ جگہ دکھتا ہے۔ ذیل میں کچھ ایسی ہی اشعار پیش کئے جاتے ہیں:-۔

 

تم میں ہے اِک نشہ بھرا جاناں

جس نے مدہوش کر دیا جاناں

عالمِ مستئیِ رفاقت میں

ہوش اور خرد کھو چکا جاناں

اب نہیں کوئی بھی ہوس باقی

جستجو تُم پہ ہے فنا جاناں

جنید عطاری

 

 وہ حُسن مجسم ہے، حجابوں میں نہاں ہے

اسرار ہے، اسرار ہے، اسرار، خبردار..!

بیدم شاہ وارثی

 

قسم ہے چشمِ ذیبا کی مجھے بھولے نہیں بھولا

تجھے کلیوں کا ایسے دیکھ کر مدہوش ہو جانا

زین شکیل

 

امجد اسلام امجد کی نظم "تم مجھے اچھی لگتی ہو" پیش کی جاتی ہے اور پیغام یہ ہے کہ اگر آپ کے ساتھ ایسا ہو تو کہہ دیجیے؛ آسانی رہے گی۔

 

بس تم مجھے اچھی لگتی ہو

تم اتنی سُندر ہو کہ نہیں

تمہیں ایک نظر جو دیکھے وہ

سدھ بدھ بھولے مدہوش رہے

بس تم مجھے اچھی لگتی ہو

 

تم ہنس دو تو موسم بدلیں

تم جاگو تو دنیا جاگے

جھلمل جھلمل منظر ہوں سب

اور نہ سوجھے کچھ آگے

بس تم مجھے اچھی لگتی ہو

 

معلوم نہیں تم اتنی پیاری

اتنی سُندر ہو کہ نہیں

بس تم مجھے اچھی لگتی ہو

 

یاد رہے کہ جب کوئی دل میں آبستا ہے تو سارے ہی موسم اچھے لگنے لگتے ہیں کیونکہ ایک نامعلوم شاعر کا کچھ ایسا ہی کہنا ہے؛ یہ ذل میں پڑھیے:-۔

 

گلشن مہکے، برکھا برسے

پت جھڑ، جاڑا کچھ بھی ہو

دل کا موسم اچھا ہو تو

سارے موسم اچھے ہیں

دل کا موسم تب اچھا ہے

دل میں جب کوئی بستا ہو

دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں

 

اب پیش ہے ایک پیار کا نغمہ جسے مشہور شاعر جناب قتیل شفائی نے ایک پاکستانی فلم کے لیے قلم زد کیا تھا "دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں"۔

 

دُنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں

اک دلرُبا ھے ، دل میں جو حوروں سے کم نہیں

 

تُم بادشاہِ حُسنِ ھو حُسنِ جہاں ھو

جانِ وفا ھو اور مُحبت کی شان ھو

جلوئے تُمہارے حُسن کے تاروں سے کم نہیں

دُنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں

 

بُھولے سے مُسکراؤ تو ، موتی برس پڑئیں

پلکیں اُٹھا کے دیکھو تو کلیاں بھی ہنس پڑیں

خوشبو تُمھاری زُلف کی پھولوں سے کم نہیں

دُنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں

 

دُنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں

اِک دلربا ھے، دل میں جو حوروں سے کم نہیں

 


More Posts