جو رازِ زندگی پا گیا؛ کامیاب ہو گیا۔ مگر کیسے؟

Life is journey from the lap of mother to the grave. It goes into phases. We all live to enjoy and have bounties in abundance. Is that a successful way of life? What is the most important way of life. Is politics bad and shall we involve in politics?

2023-11-16 11:58:52 - Muhammad Asif Raza


جو رازِ زندگی پا گیا؛ کامیاب ہو گیا۔ مگر کیسے؟


ہم سب اولاد آدم ہیں؛ حوا کی کوکھ سے جنم لینے والے۔ بنانے والے نے ہماری شکلیں اور قد کاٹھ اس لیے مختلف بنائیں کہ ہم ایک دوسرے کو پہچان پائیں۔ 

 مگر آدمیت نے زمین پر آباد ہو کر اپنا رنگ و روپ ہی بدل لیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ کچھ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا پوتے ہیں۔ اور کچھ چاندی کا۔


مگر انسانوں کا ایک سمندر ایسا ہوتا ہے جو جنم لیتے ہیں تو ان کے منہ میں مٹی تک کا چمچہ نہیں ہوتا۔ راقم بھی انسانوں کے اس ہی قبیل کا حصہ تھا؛ عوام الناس، جو دنیا کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ 


اس زمین کا، آسمان کا، اس ساری کائنات کا اور اس میں موجود تمام مخلوقات کا خالق اللہ ہے۔ اس نے یہ سب کچھ بے سبب نہیں بنایا بلکہ اس کی کچھ منشاء رہی ہے جو اس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعے اپنی کتابوں میں بیان کردیں۔ 

اس زمین پر ہم آدم زادوں کی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے۔ اور نہی ہے سوائے لھب اور لغو کے۔ 


اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ تو پھر اس حیاتِ دنیاوی جوو فانی ہے؛ میں ہم آدم زاد کیا کریں؟ کیسے گذاریں؟ اور کیا مقصد حیات بنائیں جو فائدہ مند ہو۔


سو اللہ کا حکم ہی اس میں راہنمائی فراہم کرتا ہے؛ اس زمین پر اور ہر فرد اپنی ذات پر، اللہ کی حاکمیت کو قائم کرے۔


اللہ کی حاکمیت کیا ہے اور کیسے قائم ہو؟


ساری انسانی تاریخ کو پڑھ لیں تو ایک ہی نتیجہ پائیں گے کہ انسانوں کا سب سے بہترین عمل کارِ سیاست ہے؛ نظام حکومت اور اس میں کردار؛ سب آدم زادوں کا۔ یہ عمل تقسیم کرے گا؛ دو واضع تقسیم تو یہ ہوگی کہ ایک طرف ہونگے حزب اللہ اور دوسری طرف اولیاء الشیطان۔ ابلیس تو صرف لغو اور فحش ہی پھلاتا ہے؛ وہ خوف دلاتا ہے، بھوک سے، افلاس سے اور ترغیب دلاتا ہے برے اعمال سے۔ 

گزرے زمانوں کی کہانیاں پڑھیں یا سنیں تو یہ بات تیقن سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر انسان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے جڑیں اور کسی نظریہ سے تعلق بنائیں تو تقسیم کم ہوتی ہے اور فلاح الناس بہتر ہوتی ہے۔


راقم نے بھی جب جنم لیا توعوام الناس کی طرح ایک مٹی کا مادھو ہی تھا؛ مگر استاد اچھے ملے جنہوں نے آگے بڑھنے اور مسِ خام کو کندن بنانے کی راستی دکھایا۔ زندگی جینے کے دو ہی راستے ہیں، سانس کی آمد و رفت کو معمول سمجھ لیا جائے اور جہاں وقت کا بہتا دھارا لے جائے بس اس سمت بہا جائے؛ درمیان میں ابلیس اچک لے یا قلندر؛ نصیب اپنا اپنا۔ 


یا دوسرا راستہ اپنائے؛ اللہ کی حاکمیت قائم کرے اور اس کے ضمن میں جدوجہد کرے۔ 


اگر ہم اس زندگی میں عیاشی میں ہیں، شبھ شھبا ہے، جلترنگ ہے اور موج مستی ہے تو مبارک؛ مگر کیا یہ سج دھج اگلی زندگی میں بھی ملے گی؟ 


تھوڑا نہی پورا سوچیے گا؛ شکریہ


More Posts