دسمبر: مگھر، پوہ کا موسم؛ اُف سردی
قدرت نے ہمارے مسکن زمین کو چار موسموں سے نوازا ہے۔ بہار، موسم گرما، خزاں، سرما، اور ان سب کے اپنے رنگ، آوازیں اور لہریں ہیں۔ اب ہم دسمبر کے مہینے میں ہیں، جو سال کا آخری مہینہ ہے اور سردیوں کا پہلا مہینہ ہے اور شمالی نصف کرہ میں سرد سرد موسم کا آغاز ہے۔ یہ تحریر "دسمبر: مگھر، پوہ کا موسم؛ اُف سردی" اس ماہ کی مناسبت سے کی گئی شاعری پیش کرنے کے لیے لکھی گئی ہے۔ "دسمبر ایک سادہ خواہش ہے جو شاندار لمحات لاتی ہے" اور "یہ سال کا سب سے شاندار وقت ہے"۔"
2024-12-07 19:12:42 - Muhammad Asif Raza
دسمبر: مگھر، پوہ کا موسم؛ اُف سردی
دسمبر گریگورین کیلنڈر میں نومبر کے بعد سال کا بارہواں اور آخری مہینہ ہے۔ اس کی طوالت 31 دن ہے۔ دسمبر کا نام لاطینی لفظ "ڈیکم" سے ماخوذ ہے جس کا مطلب دس ہے، کیونکہ یہ اصل میں رومولس سی کے کیلنڈر میں سال کا دسواں مہینہ تھا۔ 750 قبل مسیح، جس کا آغاز مارچ میں ہوا۔ جب رومیوں نے جنوری اور فروری کو شامل کرکے بارہ ماہ کے کیلنڈر میں تبدیل کیا تو وہ کسی بھی رومی شہنشاہ پر اس مہینے کی نام نہیں رکھ سکے تھے۔ دسمبر کا مہینہ شمالی نصف کرہ میں موسم سرما کا سالسٹیس لاتا ہے۔ یہ سال کا سب سے چھوٹا دن ہے (دن کی روشنی کی کم سے کم مقدار والا دن)۔
دسمبر کا مہینہ جیسے ہی شروع ہوتا ہے؛ سردی کا موسم پوری شان بان سے آن پہنچتا ہے۔ دن چھوٹے اور راتیں طویل ہو جاتی ہیں۔ اردو شاعری میں " دسمبر" کا مہینہ سردی کے موسم کا مضبوط حوالہ ہے اور جدائی، اداسی اور بے چینی کے احساس سے بھر پور ہے۔ ایک گروہ ایسا بھی ہے جن کے نزدیک سردی کا موسم بہت رومان پرور ہوتا ہے۔ سردی کا موسم اس لحاظ سے مختلف ہوتا ہے کہ اس میں سورج کی شدت اور آگ کی گرمی بھی مزا دینے لگتی ہے۔ سردی کے موسم میں سورج اور آگ کی شدتیں اپنا اثر زائل کردیتی ہیں۔ بلکہ لطف دینے لگتی ہیں۔
سردی کا موسم عاشقوں کیلئے ایک اور طرح کی بے چینی پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے ہجر کی شدتیں کم ہونے کے بجائے اور بڑھ جاتی ہیں۔ کیونکہ سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ یہ احساس بھی شدید تر ہو جاتا ہے۔ اگر آپکو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے تو آپ تنہا نہیں۔ وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں کروڑوں لوگوں کے دل و دماغ کی کیفیت موسم کے ساتھ بدلنا شروع ہوجاتی ہے اور انہیں باقاعدہ ذہنی دباؤ اور گھبراہٹ کا احساس ہونے لگتا ہے جسے سیزنل افیکٹیو ڈس آرڈ ( 'سیڈ' ایس اے ڈی) بھی کہا جاتا ہے۔ سردی کے موسم کو اس زاویہ سے شاعری میں بڑی خوبصورتی سے برتا گیا ہے۔
یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے
امید فاضلی
اردو کا مندرجہ بالا شعر بہت مشہور ہے۔ اس میں جو کیفیت پائی جاتی ہے اسے شدید تنہائی کے عالم پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے تلازمات میں شدت بھی ہے اور احساس بھی۔ ’’سرد رات‘‘، ’’آوارگی‘‘اور ’’نیند کا بوجھ‘‘ یہ ایسے تین عالم ہیں جن سے تنہائی کی تصویر بنتی ہے اور جب یہ کہا کہ ’’ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے‘‘ تو گویا تنہائی کے ساتھ ساتھ بےخانمائی کے المیہ کی تصویر بھی کھینچی ہے۔ ہائے کیا المیہ ہے کہ بندہ عاشق ہو؛ اکیلا ہو اور اپنے شہر سے بھی دور ہے؟ ذرا تصور تو کیجیے کہ دسمبر کی چھاجاتی سردی کی ایک رات ہو؛ آپ کسی اور شہر میں اکیلے ہوں اور آپ آنکھوں پر نیند کا بوجھ لیے آوارہ گھوم رہے ہوں؛ تو آپ پر کیا بیتے گی؟ ظاہر ہے کہ آپ شہر میں اجنبی ہیں اس لئے کسی کے گھر نہیں جا سکتے ورنہ سرد رات، آوارگی اور نیند کا بوجھ وہ مجبوریاں ہیں جو کسی ٹھکانے کا تقاضا کرتی ہیں۔ آپ کے ذہن میں کسی اپنے کی سنگت میں گذارے گئے، ایک ایسی ہی رات کا تصور کیسا دلخراش ہوسکتا ہے؛ تب دل تو چاہے گا کہ گھر جایا جائے۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دسمبر کی راتیں تنہا آوارگی کے لیے مناسب نہیں ہوتیں؟
دسمبر کا مہینہ دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی کی طرح ہوتا ہے جو اپنے تاجپوشی کے دن پر شان و شوکت سے پھیلتی ہے، جو پوری دنیا کے لاکھوں مداحوں کی غیر منقسم وفاداری حاصل کرتی ہے۔ دسمبر ایک تہوار کا مہینہ ہے، جو سڑکوں اور گھروں کی زینت بنتا ہے۔ دسمبر گرم جوشی، خوشی اور اتحاد کے جذبے سے بھرا ہوا ایک جادوئی مہینہ بن جاتا ہے۔ یہ اس پرفتن موسم اور رومانوی وقت کے دوران ہے جب مغربی ممالک میں بہت سے جوڑے منگنی کرکے اپنے تعلقات کو اگلی سطح پر لے جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایک مصنف کا کہنا ہے کہ؛ "بہار کا رنگ پھولوں میں ہے، سردیوں کا رنگ تخیل میں ہے"۔"
ہم برِصغیر پاک و ہند کے رہنے والوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہمارے کیلنڈر کے مہینے ہمارے موسموں سے موسوم ہیں۔ اس خطے کا دیسی کیلنڈر دنیا کے چند قدیم ترین کیلنڈرز میں سے ایک ہے۔ اس قدیمی کیلنڈر کا آغاز سو سال قبل مسیح میں ہوا۔ اس کیلنڈر کا اصل نام بکرمی کیلنڈر ہےاور اسے پنجابی کیلنڈر اور جنتری کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔ بکرمی کیلنڈر کا آغاز اُس وقت کے ہندوستان کے ایک بادشاہ "راجہ بِکرَم اجیت” کے دور میں ہوا۔ چنانچہ راجہ بکرم کے نام سے یہ بکرمی سال مشہور ہوا۔
برصغیر کے بزرگوں میں نسل در نسل چلنے والے دیسی موسم کی درجہ بندی موسم کی علامات سے بندھی ہیں۔ جو زیادہ تر فصلوں کی بوائی اور کٹائی سے منسلک ہیں۔ سال کو دو بنیادی درجہ بندی میں ربیع اور خریف ہے۔ تین سو پینسٹھ (365 ) دنوں کے اس کیلینڈر کے 9 مہینے تیس (30) تیس دنوں کے ہوتے ہیں، اور ایک مہینا وساکھ اکتیس (31) دن کا ہوتا ہے، اور دو مہینے جیٹھ اور ہاڑ بتیس (32) بتیس دن کے ہوتے ہیں۔
مقامی زبان میں دیسی موسم کی تفصیل، دیسی مہینوں کا تعارف اور وجہ تسمیہ کچھ اس طرح ہے ۔
1- چیت/چیتر (بہار کا موسم)
2- بیساکھ/ویساکھ/وسیوک (گرم سرد، ملا جلا)
3- جیٹھ (گرم اور لُو چلنے کا مہینہ)
4- ہاڑ/اساڑھ/آؤڑ (گرم مرطوب، مون سون کا آغاز)
5- ساون/ساؤن/وأسا (حبس زدہ، گرم، مکمل مون سون)
6۔ بھادوں/بھادروں/بھادری (معتدل، ہلکی مون سون بارشیں)
7- اسُو/اسوج/آسی (معتدل)
8- کاتک/کَتا/کاتئے (ہلکی سردی)
9۔ مگھر/منگر (سرد)
10۔ پوہ (سخت سردی)
11- ماگھ/مانہہ/کُؤنزلہ (سخت سردی، دھند)
12- پھاگن/پھگن/اربشہ (کم سردی، سرد خشک ہوائیں، بہار کی آمد)
ہاڑ تاں کٹھیاں لنگھیا ساڈا
پوہ اچ کتھے ریہہ گیا سورج
سمبر کی سردی کو اردو شاعری میں مختلف زاویوں سے برتا گیا ہے۔ ذیل میں ایک مختصر انتخاب پیش کیا جارہا ہے۔
دسمبر کی سردی ہے اس کے ہی جیسی
ذرا سا جو چھو لے بدن کانپتا ہے
امت شرما میت
یادوں کی شال اوڑھ کے آوارہ گردیاں
کاٹی ہیں ہم نے یوں بھی دسمبر کی سردیاں
نامعلوم
وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں
آج کل گرمیاں ہیں جاڑوں میں
مضطر خیرآبادی
مرے سورج آ! مرے جسم پہ اپنا سایہ کر
بڑی تیز ہوا ہے سردی آج غضب کی ہے
شہریار
رات بے چین سی سردی میں ٹھٹھرتی ہے بہت
دن بھی ہر روز سلگتا ہے تری یادوں سے
امت شرما میت
اب کی سردی میں کہاں ہے وہ الاؤ سینہ
اب کی سردی میں مجھے خود کو جلانا ہوگا
نعیم سرمد
ریاض توحیدی کی نظم " اسے کہنا دسمبر آیا ہے"۔
اسے کہنا دسمبر آیا ہے
خزاں نے بہار کی خوبصورتی کو
چنار کے زرد پتوں میں دفن کر دیا ہے
ان پتوں کی جوانی اب بڑھاپے کی سسکیوں
میں رو رہی ہے
اب یہ رونا بھی رفتہ رفتہ دم توڑ دے گا
اور اپنے معشوق کی بے بس ٹہنیوں سے
جدائی کا کرب سہتے سہتے
یہ سوکھے پتے خاک نشین ہو جائیں گے
پھر کون انہیں یاد رکھے گا
اسے کہنا کہ وہ گلشن
جس کے پھولوں کی خوبصورتی دیکھنے والوں کی آنکھوں کو بھی
خوب صورت بنا دیتی تھی
اور جس کی مہک
سانس میں بھی خوشبو گھول دیتی تھی
اسے اب
اونگھتے بلبل حسرت سے تک رہے ہیں
وہ بلبل جنہوں نے گلشن میں بہار کے نغمے
گائے تھے
جن کی سریلی آواز پر تتلیاں پھولوں کے گرد رقص کرتے کرتے
قوس قزح کو بھی شرمندہ کر دیتی تھیں
لیکن اب موسم بدلتے ہی نہ جانے وہ تتلیاں
پھولوں کا مذاق اڑا کر کس دیس کو جا بسیں
داستان ہجر سنا کر ذرا غور سے دیکھنا
کہ ان جھیل سی آنکھوں کا رنگ پیلا پڑ جاتا ہے یا کہ
نیلا ہی رہتا ہے
اور صبر سے سننا کہ
ان گلابی ہونٹوں سے بھنورے کے شوق میں
آہ نکلتی ہے یا کہ واہ
ذیل میں کچھ نظمیں پیش کی جاتی ہیں
ندیم گلانی کی نظم" دسمبر"۔
ابھی پھر سے پھوٹے گی یادوں کی کونپل
ابھی رگ سے جاں ہے نکلنے کا موسم
ابھی خوشبو تیری مرے من میں ہمدم
صبح شام تازہ توانا رہے گی
ابھی سرد جھونکوں کی لہریں چلی ہیں
کہ یہ ہے کئی غم پنپنے کا موسم
سسکنے سلگنے تڑپنے کا موسم
دسمبر دسمبر دسمبر دسمبر
بلال احمد کی نظم "دھند"۔
جب دسمبر میں دھند اترتی ہے
اپنے اسرار میں لپٹتی ہوئی، تہہ بہ تہہ ہم پہ فاش ہوتی ہوئی
یہ کسی یاد کے دسمبر سے دل کی سڑکوں پہ آ نکلتی ہے
راہ تو راہ دل نہیں ملتا دھند جب ہم میں آ ٹھہرتی ہے
کیف کی صبح خوش مقدر میں، یہ در راز ہم پہ کھلتا ہے
جیسے دل سے کسی پیمبر کے، رب کی پہلی وحی گزرتی ہے
راہ چلتے ہوئے مسافر پر یوں دسمبر میں دھند اترتی ہے
باغ بھی، راہ بھی، مسافر بھی راز کے اک مقام میں چپ ہیں
دھند ان سب سے بات کرتی ہے اور یہ احترام میں چپ ہیں
دھند میں اک نمی کا بوسہ ہے
میری آسودگی کے ہاتھوں پر ایک بسری کمی کا بوسہ ہے
ایک بھولی ہوئی کمی جیسے، دھند میں یاد کی نمی جیسے
میرے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے میری آنکھوں سے بات کرتی ہے
اپنے اسرار میں لپٹتی ہوئی جب دسمبر میں دھند اترتی ہے
نظیر اکبرآبادی کی نظم "جاڑے کی بہاریں"۔
جب ماہ اگھن کا ڈھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور ہنس ہنس پوس سنبھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
دن جلدی جلدی چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور پالا برف پگھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
چلا غم ٹھونک اچھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
تن ٹھوکر مار پچھاڑا ہو اور دل سے ہوتی ہو کشتی سی
تھر تھر کا زور اکھاڑا ہو بجتی ہو سب کی بتیسی
ہو شور پھپو ہو ہو کا اور دھوم ہو سی سی سی سی کی
کلے پہ کلا لگ لگ کر چلتی ہو منہ میں چکی سی
ہر دانت چنے سے دلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ہر ایک مکاں میں سردی نے آ باندھ دیا ہو یہ چکر
جو ہر دم کپ کپ ہوتی ہو ہر آن کڑاکڑ اور تھر تھر
پیٹھی ہو سردی رگ رگ میں اور برف پگھلتا ہو پتھر
جھڑ باندھ مہاوٹ پڑتی ہو اور تس پر لہریں لے لے کر
سناٹا باؤ کا چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ہر چار طرف سے سردی ہو اور صحن کھلا ہو کوٹھے کا
اور تن میں نیمہ شبنم کا ہو جس میں خس کا عطر لگا
چھڑکاؤ ہوا ہو پانی کا اور خوب پلنگ بھی ہو بھیگا
ہاتھوں میں پیالہ شربت کا ہو آگے اک فراش کھڑا
فراش بھی پنکھا جھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
جب ایسی سردی ہو اے دل تب روز مزے کی گھاتیں ہوں
کچھ نرم بچھونے مخمل کے کچھ عیش کی لمبی راتیں ہوں
محبوب گلے سے لپٹا ہو اور کہنی، چٹکی، لاتیں ہوں
کچھ بوسے ملتے جاتے ہوں کچھ میٹھی میٹھی باتیں ہوں
دل عیش وطرب میں پلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ہو فرش بچھا غالیچوں کا اور پردے چھوٹے ہوں آ کر
اک گرم انگیٹھی جلتی ہو اور شمع ہو روشن اور تس پر
وہ دلبر، شوخ، پری، چنچل، ہے دھوم مچی جس کی گھر گھر
ریشم کی نرم نہالی پر سو ناز و ادا سے ہنس ہنس کر
پہلو کے بیچ مچلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ترکیب بنی ہو مجلس کی اور کافر ناچنے والے ہوں
منہ ان کے چاند کے ٹکڑے ہوں تن ان کے روئی کے گالے ہوں
پوشاکیں نازک رنگوں کی اور اوڑھے شال دو شالے ہوں
کچھ ناچ اور رنگ کی دھومیں ہوں عیش میں ہم متوالے ہوں
پیالے پر پیالہ چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ہر ایک مکاں ہو خلوت کا اور عیش کی سب تیاری ہو
وہ جان کہ جس سے جی غش ہو سو ناز سے آ جھنکاری ہو
دل دیکھ نظیرؔ اس کی چھب کو ہر آن ادا پر واری ہو
سب عیش مہیا ہو آ کر جس جس ارمان کی باری ہو
جب سب ارمان نکلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی