دسمبر شمسی کیلنڈر میں سال کا بارہواں اور آخری مہینہ ہوتا ہے؛ اور خزاں کے بعد وارد ہونے والے سردی کے موسم کا حصہ ہے۔ مغربی دنیا اور شمالی عرض البلد کی اکثریت برف میں ڈھک جاتی ہیں۔ یہ پت جھڑ کے جوبن کا بھی مہینہ ہے۔ پت جھڑ کا موسم اداسیوں میں رنگ بھر دیتا ہے۔ اس ماہ کو آنے والے کل کے لیے؛ جو نیا سال بھی ہوگا کو، امیدوں کا روشن چراغ بنائیے۔ یہ تحریر اسی موضوع پر لکھی گئی ہے۔
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
دسمبر کو دوش کیا دینا؟
دسمبر شمسی کیلنڈر میں سال کا بارہواں اور آخری مہینہ ہوتا ہے؛ اور خزاں کے بعد وارد ہونے والے سردی کے موسم کا حصہ ہے۔ یہ مہینہ متعدد وجوہ کی بنا پر دیگر گیارہ مہینوں سے ممتاز تصور کیا جاتا ہے۔ دسمبر دھندلائی سہمی سہمی صبحوں کا؛ فرصتوں میں تاپنے والی دھوپ کی دوپہرکا؛ ملگجی سرمگیں سرد شاموں کا اور کہرے میں ڈوبتی، ٹھٹرتی راتوں کا موسم ہے۔ دسمبر میں ہوائیں سرد یخ بستہ چلتی ہیں؛ اور بارش برسے یا نہ برسے؛ فضا میں دھیرے سروں میں پھلیتی موسیقی کی سنگت میں آتش دان، انگیٹھی یا کسی طور جلتی آگ سے قریب ہوکر وقت گذارنے کی ضرورت دسمبر کو منفرد بناتی ہیں۔
دسمبر کا مہینہ میں سمے کےلمحات دھیرے دھیرے سانس لیتے ہیں اور وقت تھم سا جاتا ہے۔ مغربی دنیا اور شمالی عرض البلد کی اکثریت برف میں ڈھک جاتی ہیں۔ جیسے کینیڈا، یورپ، چائنہ، جاپان، برِ صغیر ہند و پاک کے شمالی علاقے وغیرہ۔ ان زمینی علاقوں میں زندگی ٹہر سی جاتی ہے۔ اور زمین، ماحول اور انسان ایک نئے آہنگ سے آشناء ہو کر وقت گذارتے ہیں۔ اس بنا پر دسمبر کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دلوں میں قربتیں پیدا کرتا ہے، انسان کو اپنے اور دوسروں کے ساتھ جُڑنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ دسمبر کا مہینہ سکون، محبت، اور یادوں کا خزانہ لے کر آتا ہے۔ فطرت پسند، رومان پرور افراد کی رائے میں دسمبر کے مہینے میں قدرتی ماحول کے حسن کو نکھار ملتا ہے۔
علویؔ یہ معجزہ ہے دسمبر کی دھوپ کا
سارے مکان شہر کے دھوئے ہوئے سے ہیں
محمد علوی
دسمبر موسم خزاں کے فورا" بعد آنے والا مہینہ ہے۔ یہ پت جھڑ کے جوبن کا بھی مہینہ ہے۔ پت جھڑ کا موسم اداسیوں میں رنگ بھر دیتا ہے۔ جنگلوں، گاؤں اور شہر کی شاہراؤں کے کنارے چپ چاپ کھڑے درختوں کے پتوں کا رنگ بدل جاتا ھے۔ یہ اشجار جب موسم بہار اور برسات میں سبز لباس پہن لیتے ہیں تو خود اپنے حسن پر فخرو اعتماد سے اپنا سر اٹھائے؛ حسن پرورں، دل والوں اور عشق کے مسافروں کی راہ تکتے ہیں۔ گرم موسموں میں الفت کی راہوں پر چلنے والوں کے لیے شجرِ سایہ دار منتظر روحوں کی بھی رکھوالی کرتے ہیں۔
یہ اشجار، کچھ منتظر آنکھوں اور دل مضطروں کے ناختم ہونے والے انتظار کےغم میں شاید احتجاج کے طورپر، ماہِ دسمبر میں، زرد رنگ کا لبادہ پہن لیتے ہیں۔ درختوں کے پتے شاخوں سے اپنا ناتا توڑ کر الگ ہوجاتے ہیں؛ اور جو اپنی اصل سے الگ ہوجائے؛ ظالم سرد ہوا اسے کٹی پتنگ کی طرح یہاں سے وہاں اڑاتے پھرتی ہے۔ یہ پتے پھر قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، گلی گلی مخلوقات عالم کے پاؤں کے نیچے آتے ہیں اور اپنی جدائی اور موت کا نوحہ سناتے پھرتے ہیں۔ دسمبرکے مہینہ کی سردی تو ہوتی ہی مزہ لینے کے لیے ہے؛ مگر اس کا کیا کریں جس کا کوئی اپنا کہیں دور جا بسا ہو اور آس پاس رہنے والا کوئی کبھی کہیں کہہ دیتا ہے کہ "بڑا ہی مست موسم ہے"؛ تو اُس لمحے؛ کسی اس کی یاد ہولے سے؛ کہیں سرگوشی کرتی ہے؛ تو دل مضطر پکار اٹھتا ہے؛ "مجھے تم یاد آتے ہو"۔
آخری دن میرے دسمبر کا
تیری یادوں کا جون ہوتا ہے
دسمبر کا مہینے میں قدرتی ماحول میں جو تبدیلی آتی ہے شاید اسی وہ سے اسے ہجر اور انتظار کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ مہینہ ختم ہونے والے سال کا آخری اشارہ ہے۔ گزرے سال کے ادھار جذبات، خوشگوار اور تلخ تجربات، مثبت اور منفی مشاہدات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خدشات اور تفکرات انسان کے کندھوں بھاری بوجھ لاد دیتے ہیں۔ اس روح کے بدن میں دھڑتے دل کا تصور کیجے جس کا اپنا بہار کے موسم میں غمِ دوراں کا گھائل، غمِ روزگار کا مجبور کسی دُور کی طویل مسافت پر جا کر کھوگیا ہو اور جس نے برسات کی برہن کا لاکھوں کے ساون کا نقصان کردیا ہو اور اب یہ دسمبر کی سردی بھی اکیلے ہی گذارنی پڑ رہی ہو تو اس پر کیا گزر رہی ہوگی؟
گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر
وہ کب بچھڑا، نہیں اب یاد لیکن
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر
دسمبر چونکہ شمسی سال کا آخری مہینہ ہے سو ہر سال آتا ہے اور رخصت ہو جاتا ہے۔ پچھلا سال اچھا گذرا ہو تو خوشیاں چھوڑ جاتا ہے اور نہیں تو یادیں؛ دل بیتاب کے قصے اور اس کی یادیں؛ کہ تو نہیں تو تیری یادیں ہی سہی۔ ایک دلِ نامرادہوتا ہے اور دل پرامید؛ دلِ خوشکن کے لیے جاتا دسمبر نئے سال کی نوید بن جاتا ہے۔ اور نئے سال کی صبح کا ستارہ زندگی کے افق نئی امید ، نئی آس بن کر ابھرتا ہے۔ ماہِ دسمبر سال کے اختتام کی خوبصورت کہانی بن جائے تو گزرے وقت کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا مت بھولیے گا۔ اس ماہ کو آنے والے کل کے لیے امیدوں کا روشن چراغ بنائیے۔ خوش رہیں خوشیاں بانٹیں۔
ذیل میں محمد آصف رضا کی کاوش "دسمبر کو دوش کیا دینا؟" پیش خدمت ہے
پروفیسرشازیہ اکبر کی نظم
وہ درجن بھر مہینوں سے
سدا ممتاز لگتا ہے
دسمبر کس لئے آخر ہمیشہ خاص لگتا ہے؟
بہت سہمی ہوئی صبحیں
اداسی سے بھری شامیں
دوپہریں روئی روئی سی
وہ راتیں کھوئی کھوئی سی
وہ اُونی گرم شالوں کا
وہ کم روشن اجالوں کا
کبھی گزرے حوالوں کا
کبھی مشکل سوالوں کا
بچھڑ جانے کی مایوسی
ملن کی آس لگتا ہے
دسمبر کس لئے آخر ہمیشہ خاص لگتا ہے؟
جناب اکرم جاذب کا کلام
ٹھٹھرتی صبحوں کو لے کر دسمبر آیا ہے
دکھا بہار کے تیور دسمبر آیا ہے
فسردہ پیڑ ہیں، ویرانیاں ہیں باغوں میں
اداس کرتا ہے منظر ؛ دسمبر آیا ہے
فضا میں ٹھنڈی ہواٶں کی سرسراہٹ ہے
اڑھا دے پیار کی چادر دسمبر آیا ہے
ہمارے جذبے نہ یخ بستگی میں دب جائیں
جمے نہ برف دلوں پر دسمبر آیا ہے
تمہاری سرد روی کا چھڑا ہوا تھا ذکر
یقیں کرو کہ لبوں پر دسمبر آیا ہے
ملال لے کے گذشتہ کی رائیگانی کا
چبھونے زخم میں نشتر دسمبر آیا ہے
گیارہ ماہ بھی کچھ کم نہ تھے جدائی کے
اکیلا سب کے برابر دسمبر آیا ہے
برستی بھیگتی شاموں میں ان دنوں جاذب
ہے گرم یاد کا بستر دسمبر آیا ہے
ایک نامعلوم شاعر کا کلام "میں لوٹوں گا دسمبر میں"؛
دسمبر جب بھی آتا ہے
وہ پگلی
پھر سے بیتے موسموں کی
تلخیوں کو
یاد کرتی ہے
پرانا کارڈ پڑھتی ہے
کہ جس میں اُس نے
لکھا تھا
میں لوٹوں گا دسمبر میں
نئے کپڑے بناتی ہے
وہ سارا گھر سجاتی ہے
دسمبر کے ہر اک دن کو
وہ گن گن کر بتاتی ہے
جونہی پندرہ گزرتی ہے
وہ کچھہ کچھہ ٹوٹ جاتی ہے
مگر پھر بھی
پرانی البموں کو کھول کر
ماضی بلاتی ہے
نہیں معلوم یہ اُس کو
کہ بیتے وقت کی خوشیاں
بہت تکلیف دیتی ہیں
محض دل کو جلاتی ہیں
یونہی دن بیت جاتے ہیں
دسمبر لوٹ جاتا ہے
مگر وہ خوش فہم لڑکی
دوبارہ سے کیلنڈر میں
دسمبر کے مہینے کے صفحےکو
موڑ کر، پھر سے
پھر سے
دسمبر کے سحر میں
ڈوب جاتی ہے
کہ آخر اُس نے لکھا تھا۔۔
میں لوٹوں گا دسمبر میں
دسمبر چل پڑا گھر سے
سنا ہے پہنچنے کو ہے !
مگر اس بار کچھ یوں ہے
کہ میں ملنا نہیں چاہتا
ستمگر سے ....!
میرا مطلب، دسمبر سے !
کبھی آزردہ کرتا تھا !
مجھے جاتا دسمبر بھی
مگر اب کے برس ہمدم
بہت ہی خوف آتا ہے
مجهے آتے دسمبر سے
ستمگر سے۔۔۔۔۔۔
دسمبر جو کبھی مجھکو
بہت محبوب لگتا تھا
وہی سفاک لگتا ہے !
بہت بیباک لگتا ہے !
ہاں اس سنگدل مہینے سے
مجھے اب کے نہیں ملنا
قسم اسکی... نہیں ملنا !
مگر سنتا ہوں یہ بھی میں
کہ اس ظالم مہینے کو
کوئی بھی روک نہ پایا
نہ آنے سے، نہ جانے سے
صدائیں یہ نہیں سنتا
وفائیں یہ نہیں کرتا !
یہ کرتا ہے فقط اتنا !
سزائیں سونپ جاتا ہے!
دسمبر اب کے آؤ تو
تم اُ س شہرِ تمنا کی خبر لانا
کہ جس میں جگنوؤں کی کہکشائیں جھلملاتی ہیں
جہاں تتلی کے رنگوں سے فضائیں مسکراتی ہیں
وہاں چاروں طرف خوشبو وفا کی ہے
اور اُس کو جو بھی پوروں سے
نظر سے چھو گیا پل بھر
مہک اُٹھا
دسمبر اب کے آؤ تو
تم اُ س شہرِ تمنا کی خبر لانا
جہاں پر ریت کے ذرے ستارے ہیں
گُل و بلبل ، مہ و انجم ، وفا کے استعارے ہیں
جہاں دل وہ سمندر ہے، کئی جس کے کنارے ہیں
جہاں قسمت کی دیوی مٹھیوں میں جگمگاتی ہے
جہاں دھڑکن کی لے پر بے خودی نغمے سُناتی ہے
دسمبر! ہم سے نہ پوچھو ہمارے شہر کی بابت
یہاں آنکھوں میں گزرے کارواں کی گرد ٹہری ہے
لبوں پر العطش ہے، بطن میں فاقے پنپتے ہیں
محبّت برف جیسی ہے یہاں
اور دھوپ کے کھیتوں میں اُگتی ہے
یہاں جب صبح آتی ہے تو
شب کےسارے سپنے
راکھہ کے اک ڈھیر کی صورت میں ڈھلتے ہیں
یہاں جذبوں کی ٹوٹی کرچیاں آنکھوں میں چُبھتی ہیں
یہاں دل کے لہو میں اپنی پلکوں کو
ڈبو کر ہم سُنہرے خواب بُنتے ہیں
پھر اُن خوابوں میں جیتے ہیں
اُنہی خوابوں میں مرتے ہیں
دریدہ روح کو لفظوں سے سینا گو نہیں ممکن
مگر پھر بھی
دسمبر! اب کے آؤ تو
تم اُ س شہرِ تمنا کی خبر لانا۔۔!!!