The last 100 years has seen tectonic shift in the life of people living in our part of world. The people seeking knowledge had to shift to cities leaving behind fond memories and parents. This write from Lt Col Abrar Khan (R) in Urdu reminds us about he pitfalls of that change.
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
دوری : نہ ختم ہونے والا فاصلہ
گاؤں میں دادا جی کی حویلی ہمارے شہر سے زیادہ دور نہ تھی۔ شہر اور گاؤں کے درمیان سفر بذریعہ ریل کار دو گھنٹے کا ہوا کرتا تھا۔ اسی کم فاصلے کو مدِنظر رکھتے ہوئے دادا جی اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے بے حد اصرار پہ ابا میاں کو معیاری تعلیم کے حصول کے لیے شہر بھیجنے پہ راضی ہو گئے جہاں ابا میاں نے مقابلے کے امتحان کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کر لی یوں وہ شہر کے ہی ہو کے رہ گئے۔ مگر ابا میاں ہر مہینے دو تین دن کے لیے گاؤں ضرور جایا کرتے۔ اپنی اکلوتی بہن اور بڑے تینوں بھائیوں میں ان کی جان تھی۔ اور دادا جی، دادی بی سے ان کی محبت کا عالم یہ تھا کہ پورا پورا دن ان کی خدمت میں گزار دیتے۔ وہ بڑے ہو کے بھی دادی بی کے سامنے بچے بن کے رہتے اور ہمیشہ ان کے پیروں میں ہی بیٹھے رہتے۔۔۔
ہم بھی اسکول کے زمانے تک گرمیوں کی چھٹیاں گاؤں میں ہی گزارا کرتے۔ تایا اور پھوپھی زاد بہن بھائیوں کے ساتھ ایک یادگار ماضی جڑا ہوا ہے۔ ہماری اکلوتی پھوپھی کی سسرال بھی اسی گاؤں میں تھی۔
دادا جی اور تینوں تایا اپنی زمینوں کے ساتھ ہی خوش تھے۔ حویلی کے مشرقی کونے سے ہی ہرے بھرے کھیت شروع ہو جاتے جو دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ ویسے تو ہمارے مزارعین اچھے لوگ تھے مگر دادا جی نے اپنی زندگی تک گاؤں کے سب سے بڑے برگد کے درخت کے نیچے اپنی بیٹھک سجائے رکھی اور ہمیشہ زمینوں کے کام کی نگرانی خود ہی کی۔ یہ ڈیرہ دادا جی کے دم سے ہی آباد تھا۔ ابا میاں جب گاؤں میں ہوتے تو صبح دادا جی کے ساتھ ڈیرے پہ ضرور جایا کرتے۔ ابا میاں کے ہوتے ہوئے کسی ملازم کو دادا جی کا حقہ تازہ کرنے، ان کو پانی پلانے اور کندھے یا ٹانگیں دبانے کی اجازت نہ ہوتی کیونکہ یہ کام ابا میاں خوشی خوشی خود ہی انجام دیتے۔۔۔
دادا جی اکثر ابا میاں کو سرکاری ملازمت چھوڑ کر گاؤں واپس آنے کا کہتے تاکہ وہ بھی اپنے بڑے بھائیوں کے ساتھ مل کر زمینوں کو آباد رکھیں۔ مگر ابا میاں کا مزاج ذرا مختلف تھا وہ سرکاری ملازمت میں ہی خوش تھے۔ پھر بھی دادا جی ہمارے ابا میاں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود زبردستی ان کو زمینوں کی آمدنی بھی دیا کرتے۔۔۔
ہمارے تہوار ہمیشہ گاؤں میں ہی ہوا کرتے۔ جبکہ ہر سرکاری چھٹی کے ساتھ ابا میاں ایک دو دن کی اضافی چھٹی لے کر گاؤں کا رخ کرتے۔ ابا میاں کے حویلی پہنچنے کی دیر ہوتی کہ باورچیوں کی چھٹی ہو جایا کرتی کیونکہ ابا میاں کے لیے دادی بی کھانا اپنے ہاتھوں سے ہی بنایا کرتی تھیں۔ تہواروں پہ حویلی میں خوب رونق ہوتی۔ ابا میاں کا رمضان المبارک کا آخری عشرہ عموماً دادا جی اور دادی بی کے ساتھ ہی گزرتا۔ دادا جی اور دادی بی نے حج پہ جانے کا ارادہ کیا تو بھی ابا میاں ان کے ساتھ ہو لیے۔ مجھے یاد ہے دادا جی اور دادی بی شہر کم ہی آیا کرتے تھے۔ شہر میں ہمارے گھر وہ کبھی بھی دو یا تین دن سے زیادہ نہ رکے۔ انھیں شہر میں رہ کر گاؤں میں اپنی گھر کی یاد ستاتی رہتی تھی۔۔۔
دن یوں ہی گزر رہے تھے کہ ایک دن اچانک دادا جی کے گزر جانے کی اطلاع ملی۔ ابا میاں نے اس موقع پہ بڑے صبر سے کام لیا۔ دادی بی، پھوپھی اور تینوں بڑے بھائیوں کو بھی حوصلہ دیا مگر ہم نے ابا میاں میں بہت تبدیلی محسوس کی۔ ان کی ہنسی اور خوش مزاجی باقی نہ رہی۔ وہ دو مہینے دادی بی کے ساتھ گاؤں میں ہی رہے۔ دادا جی اور دادی بی کی جوڑی کیا ٹوٹی کہ دادی بی کی صحت بھی جاتی رہی۔۔۔ ایک سال سے بھی کم عرصے میں دادی بی بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ اب کی بار ابا میاں کا حوصلہ بھی جواب دے چکا تھا۔ ہم نے زندگی میں پہلی مرتبہ ابا میاں کو بچوں کی طرح بلک بلک کر روتے دیکھا تو ہم بھی رو دیئے۔۔۔
دادی بی کے گزر جانے کے بعد ابا میاں کا گاؤں جانا انتہائی محدود ہو چکا تھا۔ وہ اکثر قبرستان سے ہی قبروں پہ فاتحہ خوانی کر کے واپس ہو لیتے۔ یہ خبر بڑے بھائیوں کو ملی تو انھوں نے بھی ابا میاں سے شکوہ کیا۔ دادا جی اور دادی بی کے بعد رمضان المبارک کا آخری عشرہ بھی شہر میں ہی گزرا لیکن ہم عید سے ایک دن پہلے گاؤں پہنچ گئے۔ ابا میاں بہت اداس دکھائی دے رہے تھے۔ عید کی نماز کے بعد ہم سب قبرستان گئے۔ وہاں سے واپس گھر آئے تو پھوپھی، تایا اور ابا میاں، دادا جی اور دادی بی کو یاد کر کے اتنا روئے کہ ہم سارے بچے پریشان ہی ہو گئے۔ وقت گزرتا گیا اور ہم گاؤں سے دور ہوتے گئے۔ اب ہم بھی بڑے ہو چکے ہیں۔ لیکن ہم بڑے کیا ہوئے گاؤں میں بھی بٹوارہ ہو گیا۔ زمینیں بٹ گئیں اور حویلی بھی بک گئی۔ ابا میاں اس بٹوارے سے مزید اداس ہو گئے۔ وہ اکثر گاؤں جاتے ہوئے اور شہر واپس پہنچ کر کہا کرتے تھے کہ والدین گھر کی رونق کا محور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو یکجا رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر تہوار پہ سب بہن بھائی، ان کے بچے اور دوسرے قریبی عزیز و اقارب اس حویلی میں دادا جی اور دادی بی کی وجہ سے ہی اکھٹے ہوا کرتے تھے۔۔۔
مجھے یاد ہے ایک دن ہمت کر کے میں نے ابا میاں سے دادی بی کے بعد گاؤں نہ جانے کی وجہ پوچھ ہی لی حالانکہ وہ اپنے بہن بھائیوں سے بے پناہ محبت بھی کرتے تھے۔ اس پہ ابا میاں نے بتایا کہ جب دادا جی اور دادی بی حیات تھے تو وہ ان کی خدمت کے لیے ہی گاؤں جاتے تھے۔ حویلی کے برآمدے میں ہی ہماری دادی بی تخت پہ بیٹھی نظر آتیں اور دادا جی عموماً ڈیرے پہ ہی ان کے منتظر ہوتے۔ ابا میاں کو دیکھ کر ہی دادا جی اور دادی بی دونوں کے چہروں کی مسکراہٹ سے ہی ابا میاں کے سفر کی تھکان دور ہو جاتی۔ ان کی وفات کے بعد دادی بی کے بغیر خالی تخت اور ڈیرے پہ دادا جی کی خالی چارپائی ابا میاں کا دل چیر دیتی۔ یوں وہ گاؤں جانے سے کتراتے تھے۔۔۔
وقت کتنا بے رحم ہے دادا جی اور دادی بی کے بعد اب ابا میاں اور اماں بی بھی اس دنیا میں نہیں رہے۔ میری سرکاری ملازمت بھی دوسرے شہر میں ہے۔ پچھلے سال کی عید ابا میاں اور اماں بی کے ساتھ ہی کی تھی مگر اس سال میں عید کرنے اپنے شہر نہیں گیا۔ وہ گھر اب ویران ہو چکا ہے۔۔۔ واقعی ابا میاں سچ ہی کہا کرتے تھے کہ والدین گھر کی رونق کا محور ہوتے ہیں۔ گھر میں محض ان کی موجودگی ہی بہن بھائیوں اور دیگر عزیز و اقارب کو یکجا رکھنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ آج میں بھی ابا میاں اور اماں بی کے بعد اس گھر میں جانے سے ڈر رہا ہوں کیونکہ میرے ذہن میں گاؤں کا وہ منظر اب بھی محفوظ ہے جب دادا جی اور دادی بی کے بعد پہلی عید پہ ابا میاں، تینوں تایا اور پھوپھی ساتھ ملکر کر اتنے روئے کہ ہم پریشان ہو گئے۔
آج اپنے شہر میں گھر کے دروازے پہ اماں بی میرا انتظار نہیں کر رہی ہونگی، دیر تک گلے لگا کر پیار کرنے والے پیارے ابا میاں بھی اب اس گھر میں نہیں رہے۔ ابا میاں کی گاؤں سے دوری آج سمجھ میں آ رہی ہے۔۔۔
لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ)
کراچی
📧: khanabrar30c@gmail.com