اسلام ابراہیمی مذاہب کا سب سے کم عمر دین ہے۔ اس کا آغاز حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کے نزول سے ہوا۔ جدید دور نے مذہب سے خود کو دور کر لیا ہے اور مذہب کو کسی بھی انسان کا ذاتی معاملہ سمجھتا ہے۔ تاہم، انسان ایک پرامن دنیا بنانے سے قاصر ہیں، اس لیے اس کے حل کے لیے مذہب اور اسلام کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ تحریر ڈاکٹر احسن سمارا نے عربی میں لکھی ہے اور بینگ باکس آن لائن کے قارئین کے لیے اس کا اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
دورِ جدید کے انسانوں کو حقیقی اسلام کی کس حد تک ضرورت ہے؟
حقیقی قرآنی کہانیاں جس کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہیں اس کے مطابق، انسانیت اپنے تاریخی مراحل میں دو متضاد نقطہ نظر کی طرف راغب ہوتی ہے،ایک ہے الٰہامی نقطہ نظر ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور رسولوں پر نازل کیا تاکہ لوگوں کی رہنمائی کی جائے اور یہی سب سے زیادہ درست ہے۔ اور یہی نقطہ نظر، انسانوں کے دینی اور دنیاوی معاملات میں ان کے لیے رحمت بن کر ان کو اچھی زندگی کی طرف گامزن کرنے کے لیے اور دنیا میں ان کی خوشی اور سکون کی ضمانت ہے اور ان کی کامیابی قیامت کے دن اللہ تعالی کی رضا کے ساتھ ہوگی۔ نبی محترم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اور صحیح رہنمائی والی خلافتِ راشدہ اس کا بین ثبوت ہے۔
دوسرا نقطہ نظر مختلف ناموں اور عہدوں کے ساتھ شیطانی نقطہ نظر ہے، جو خواہشات کی پیروی اور چاہِ دنیا کے ساتھ ملاپ کی بنا پر ہے۔ جو موجودہ دور میں سیکولر مثبت فلسفوں میں ظاہر ہوا ہے۔ اور اس کی جڑیں ظالم سیکولر نظام میں ہے؛ خواہ وہ انتہا پسند، ملحد، خارجی، یا اعتدال پسند، مفاہمت پسند، روادارکے نام سے ہی کیوں نا بنائی گئی ہیں۔ جس کے تحت انسانیت کو ناخوشی، دکھ اور مصائب کی کڑواہٹ پینا پڑتی ہے۔ آج انسان اس بات کا انتظار کر رہا ہے کہ ظالمانہ تسلط کے نتیجے میں ہونے والی سماجی، اخلاقی اور ماحولیاتی بگاڑ کی وجہ سے اس کا انجام کیا ہو گا؟ یہ فکر و سوچ، زمین پر اس کے وجود اور استحکام کے بعد سے ہی یہ انسان کی عادت رہی ہے۔
ظالموں کے سامنے انسانوں کا سر بسجود ہوجانا، مختلف شیطانی رجحانات کے سامنے ان کا سر تسلیم خم کرنا، اور مشکل حالات اور ظالم نظاموں کے ساتھ ان کا بقائے باہمی، اور ظالموں کی حکمرانی اور پالیسیوں کو قبول کرنے اور خود کو مطمئن رکھنے کا جواز پیدا کرتا ہے۔ یہ انداز اور رحجان انسانوں کو شہوت انگیز فتنہ کے مختلف ذرائع سے ذلیل کرتے ہیں اور غلام بناتے ہیں۔ یہی انہیں ہدایت اور معروف کے ان راستوں سے روکتا ہے، جو ان کی دنیا میں بھلائی اور سعادت کا باعث ہوتے ہیں۔
انسانوں کی باطل کی اطاعت ان کے ذہنی صلاحیتوں کو کم کرنے میں، اور ان کی حیوانی جبلتوں کو ابھارنے میں، اور حیوانی لذتوں کو بلانے اور پھیلانے میں معاون و ممدود ہوتے ہیں اور باطل خواہشات کی پیروی کرنے کی تلقین کرتے ہیں، تاکہ ان کے لیے ظالم اور جابر کی پرستش میں آسانی پیدا ہو، اور وہ ظالم کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں۔ یہی رویہ انسانوں کو اللہ تعالی کے راستے سے ہٹاتا ہے؛ اللہ کا راستہ وہ ہے جو انبیاء اور ان کے پیروکاروں نے اپنایا؛ اور صحیح راستہ وہی ہے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالی نے انبیاء اور رسول بھیجے تاکہ لوگوں کو اندھیروں اور ظالمانہ جبر سے نکال کر الہامی روشنی اور انصاف کی طرف لے جایا جا سکے۔
انسانی فطرت میں بوجہ کشش اور پولرائزیشن دونوں طریقوں میں سے ہر ایک کے لیے انسانوں کے درمیان ایک کشمکش ہوتی ہے، جس کے مطابق ان کے درمیان ایک رجحان کے دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے مذاکرات ہوتے ہیں۔
پوری انسانی تاریخ میں ناانصافی اور بدحالی کا تاثر ظاہر کرتا ہے کہ انسانی وقار کی تذلیل، اس کے حقوق سے انکار اور اسے غلام بنانا، شیطانی دھاروں کا تسلط اور لوگوں پر ظلم و ستم ظالموں اور جابروں کی حکمرانی کے باعث ہے۔ یہی طرزِ حکمرانی بت پرستی اوراصنام پرستی کو دوام بخشتا ہے اور سچے مذہب سے روگردانی اور لوگوں میں خرافات اور افسانے پھیلانے کے نتائج پیدا کرتا ہے۔ جاہل لوگ ان پر ظلم کرتے ہیں اور ان کے درمیان وہم و فریب اور خرافات پھیلا کر ان کی مرضی کو توڑتے ہیں تاکہ وہ حق و باطل، راستی اور بدعنوانی، ناانصافی اور انصاف کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں۔ ان کا مرکز ظالم جابر حکمرانوں کے مفادات اور خواہشات کی تکمیل اور ان کے درمیان فکری، سیاسی، اقتصادی، سیکورٹی اور فوجی اثر و رسوخ کو محدود کرنے، لوگوں کی صحیح فطرت اور صحیح سوچ کو خراب کرنے، ان پر جبر کرنے، ان کی تذلیل کرنے پر مرکوز ہوتا ہے۔
نتیجتا" انسانوں کو ظلم و جبر کی مرضی کے تابع کر دیا گیا اور ایسا سب کچھ زمین میں قائم ہو تا رہا ہے اور یہ ایک مستقل عادت بن جاتی ہے۔ اس صورت میں خونریزی ایک قائم شدہ فطرت ہے، اور لوٹ مار اور لوگوں کے مال کو ناجائز طور پر ہڑپ کرنا، اور حقوق کو غنیمت سمجھ کر غصب کرنا ایک رواج بن جاتا ہے۔
پھر یہ تجارت کرتے ہیں اس طرح کہ لوگوں پر ظلم کرنا عادت یا فطرت بن جاتا ہے۔ اُن کا ظلم و جبر کا طرزِ عمل اور اُن کا طرزِ زندگی اور اُن کے نظامِ زندگی اسی میں ڈھل جاتا ہے۔ ایسے حالات میں انسانوں کی زندگی خوشگوار نہیں ہوتی، اور پھر نظام فطرت کے بغیر تو کوئی شخص سعد زندگی کا مزہ نہیں پاتا، اور اِس میں انسان کے احساس کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں۔ پھر کسی بھی شخص کی انسانیت اور اپنی ذات کا احساس، اس کی آزادی اور وقار کا حصول، اور اس کے مادی اور اخلاقی حقوق کی ضمانت محض خواب بن جاتے ہیں؛ سوائے ان کے جو اس نظام کے مطابق بن جاتے ہیں۔
یہ سمجھ لینا چاہیے کہ صرف خدائی نظام کی حاکمیت میں ہی انسان کو اپنے کام کا احساس ہوتا ہے۔ کہ اسے کس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے؟ مخلوقات کے درجہ بندی میں اس کا حقیقی مقام اور ان میں اس کا درجہ بندی متعین کرتا ہے؛ اور انسان دوسری مخلوقات کے حوالے سے اپنی قدر و قیمت جانتا ہے، اس طرح وہ ظالموں اور جابروں کی غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے۔ ظلم، شیطانی، فتنہ انگیز دھاروں کے تسلط میں ابھرنے والی خواہشات، اور اس کے تحت اپنے آپ کو ذلیل و رسوا کرنے والی چیزوں سے اوپر اٹھ کر عزت بخشتا ہے۔
اللہ تعالی کے اس قول کے مطابق؛ "...پاک ہے اللہ؛ اور عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مومنین ہی کے لیے ہے لیکن منافق نہیں جانتے۔ "سورۃ المنافقون (8)
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے؛ " اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ہے اور خشکی اور دریا میں اسے سوار کیا اور ہم نے انہیں ستھری چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں فضیلت عطا کی۔۔" سورۃ الاسراء (70)
... اس کے عادلانہ قوانین اور اس کی نیک پالیسیوں کے ساتھ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "... پھر اگر تمہیں میری طرف سے ہدایت پہنچے، پھر جو میری ہدایت پر چلے گا تو گمراہ نہیں ہوگا اور نہ تکلیف اٹھائے گا۔ اور جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا تو اس کی زندگی بھی تنگ ہوگی اور اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔" سورۃ طہٰ: (123-124)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛ ’’تو اپنا رخ سیدھے دین کی طرف رکھو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس سے کوئی رخ موڑ نہ سکے۔‘‘ اس دن وہ ملامت کریں گے جو کفر کرے گا، اور جو کوئی نیکی کرے گا وہ اپنی جانوں کے لئے تیار کرے گا: سورۃ الروم (43-44) .
اصل تحریر ڈاکٹر احسان سمارا کی عربی زبان میں ہے اور اس کا اردو ترجمہ بینگ باکس کے قارئین کے لیے کیا گیا ہے۔
مدى حاجة البشرية في العصر الراهن للإسلام الحق
بحسب ما يرشد إليه القصص القرآني الحق فإن البشرية في أطوارها التاريخية يتجاذبها منهجان متناقضان،هما المنهج الرباني؛
الذي أوحى به الله تعالى للأنبياء والرسل لهداية الناس للتي هي أقوم،في شأنهم الديني والدنيوي رحمة بهم،
وصولا بهم للحياة الطيبة،
وضمانا لسعادتهم وطمأنينتهم في الدنيا، وفلاحهم برضوان الله يوم القيامة،
كما كان عليه الحال في العهد النبوي والخلافة الراشدة،
والمنهج الآخر هو المنهج الشيطاني المتنوع بأسماء ومسميات شتى،
تلتقي على اتباع الأهواء وحب الشهوات،
والتي باتت متمثلة في العصر الراهن في الفلسفات الوضعية العلمانية،
ومجذرة في النظم العلمانية الطاغوتية سواء منها المتطرفة الإلحادية الإقصائية،
أو المعتدلة المهادنة المتسامحة،
التي باتت البشرية في ظلها تتجرع مرارة التعاسة والشقاء،وهي تصارع من أجل البقاء،
وهي تنتظر ما سيؤول إليه مصيرها المشؤوم بسبب التدهور الإجتماعي والقيمي والبيئي الناشئ عن التغول الطاغوتي،
وذلك ديدن البشر منذ وجودهم واستقرارهم في الأرض،حالة تنكبهم للدين الحق،
وركونهم للطواغيت واستسلامهم للتيارات الشيطانية المتعددة،وتعايشهم مع الأوضاع والنظم الطاغوتية،
والتسويغ للقبول والرضى بحكم وسياسات الطواغيت،
الذين يستذلون البشر ويستعبدونهم،
بسبل الغواية الشهوانية المتنوعة،
والصد عن الهدى وسبيل الرشاد،الذي فيه خيرهم وسعادتهم في الدنيا،
وفلاحهم في الآخرة،والمطاوعة لهم في الاستخفاف بعقولهم،
واستثارة غرائزهم،بالدعوة والدعاية للملذات والشهوات الحيوانية،
وحثهم على اتباعها،ليسهل عليهم بذلك تعبيدهم للجبت والطاغوت،
وتطويعهم للإرادة الطاغوتية،وصدهم عن سبيل الله المتمثل في منهج الأنبياء وأتباعهم،
وهو الذي فيه وبه الهدى الرباني الذي بعث الله به الأنبياء والرسل لإخراج الناس من الظلمات والظلم الطاغوتي،
إلى النور والعدل الإلهي،وبسبب ذلك التجاذب والإستقطاب البشري لكلٍّ من المنهجين،
يقع التدافع بين البشر،والذي بمقتضاه يكون التداول بينهم لسيادة تيار على الآخر…،
وعلى مر التاريخ البشري يكون الظلم والتعاسة والشقاء،
وامتهان كرامة الإنسان وهضم حقوقه واستعباده ملازمة لسيادة التيارات الشيطانية واستبدادها بالبشر،
وذلك من جراء تكريس الصنمية وعبادة الأوثان،
والصد عن الدين الحق،
وبث الخرافات والأساطير بين الشعوب،
لتجهيل الشعوب وقهرهم وكسر إرادتهم بنشر الأوهام والخرافات والأساطير فيهم،
لإفقادهم القدرة على التمييز بين الحق والباطل،
وبين الصلاح والفساد،والظلم والعدل،
وجعل الشرائع والقوانين فيهم متمحورة على خدمة وتحقيق مصالح وأهواء الطواغيت المستبدين،
وحصر النفوذ الفكري والسياسي والإقتصادي والأمني والعسكري فيهم،
لإفساد الفطر السليمة والتفكير السوي لدى الشعوب،
للتمكن من قهرهم وإذلالهم وتطويعهم لإرادتهم،
فبذلك كله يتكرس الفساد في الأرض ويصبح عادة دائمة،
وسفك الدماء طبيعة راسخة،
والنهب والسلب، وأكل أموال الناس بالباطل،وهضم الحقوق مغنم وتجارة رابحة،
فبذلك يكون دأبهم ظلم العباد،والمثابرة على تعذيب من ظفروا بهم من العباد،
وتخريب بلادهم وإبادة شعوبهم،
كما هو سائد في الوقت الراهن مع تغييب التيار الرباني الرحماني عن حياة البشر،
وإطباق الكفر والباطل على أكناف الأرض،
وتحكم السفهاء والتافهين بمقاليد الأمور فيها،وانعدام التوجه البشري فيها بشرعة الله ومنهاجه،
إن في أنماط سلوكهم،
أو في طراز عيشهم وأنظمة حياتهم،
التي لا تطيب الحياة البشرية إلا بها،ولا يذوقوا للسعادة طعما إلا بموجبها،
ولا يصل الإنسان فيها لتحقيق إنسانيته والإحساس بذاته،
وبلوغ حريته وكرامته،وضمان حقوقه المادية والمعنوية إلا بمقتضاها،
وذلك لأنه في سيادة هذا التيار الرباني وحده،يدرك الإنسان وظيفته التي خلق من أجلها،ويتحدد موقعه الحقيقي في سلم المخلوقات ومكانته بينها،
ويعرف قدره وقيمته بالنسبة إلى غيره من المخلوقات،
فيتحرر بذلك كله من العبودية للجبت والطاغوت،
ومن العبودية للشهوات المثارة في سيادة التيارات الطاغوتية الشيطانية الإغوائية،فيكرم بذلك نفسه ويعزها بالاستعلاء عما يذلها ويهينها إتساقا مع قوله سبحانه:"…
ولله العزة ولرسوله وللمؤمنين ولكن المنافقين لا يعلمون" المنافقون:(٨)،
وقوله سبحانه: "ولقد كرمنا بني آدم وحملناهم في البر والبحر،ورزقناهم من الطيبات وفضلناهم على كثير ممن خلقنا تفضيلا"الإسراء:(٧٠)…
واستجابة لله تعالى باتباع الدين الدين القويم،
والصراط المستقيم،بسننه العادلة وسياساته الفاضلة،
حيث قال سبحانه:"…
فإما يأتينكم مني هدى فمن اتبع هداي فلا يضل ولا يشقى،
ومن أعرض عن ذكري فإن له معيشة ضنكى ونحشره يوم القيامة أعمى" طه:(١٢٣-١٢٤)،
وقوله سبحانه:"فأقم وجهك للدين القيم من قبل إن يأتي يوم لا مرد له من الله يومئذ يصدعون،
من كفر فعليه كفره،ومن عمل صالحا فلأنفسهم يمهدون"الروم:(٤٣-٤٤).صدق الله العظيم.
د.إحسان سمارة.
الخميس:١٦/شوال/١٤٤٥ه.
٢٠٢٤/٤/٢٥م.