دنیا کیسے وجود پذیر ہوتی ہے؟

Earth and Planetary Astrophysics: How worlds are born? JWST reveals exotic chemistry of planetary nurseries. The telescope is delivering a cascade of insights about the ‘protoplanetary’ disks where planets take shape.

2023-09-22 20:33:02 - Muhammad Asif Raza

دنیا کیسے وجود پذیر ہوتی ہے؟


 سیاروں کی پیدائش کی نرسریوں کا راز ظاہر ہوگیا: جے ڈبلیو ایس ٹی دوربین نے 'پروٹوپلینیٹری' ڈسکوں کے بارے میں بصیرت کا ایک جہان پیش کیا ہے؛ جہاں سیارے وجود میں آئے ہیں۔


جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ [ جے ڈبلیو ایس ٹی ] سے دیکھے جانے والے دور دراز کی کہکشاؤں کی شاندار تصاویر اور درجنوں نئے

بلیک ہولز کی دریافتوں سے سائنسدانوں اور عوام کو یکساں طور پر حیران کر رہی ہے۔


جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کی تصاویری دریافت کی وجہ سے سائینسدان قدرے چھوٹے، لیکن زیادہ متعلقہ پیمانے پر اشیاء کے بارے میں پہلے سے حاصل علم کو دوبارہ لکھ رہے ہیں۔  جیسے کہ نوجوان ستاروں کے گرد گردش کرتے ہوئے گیس اور دھول کے جمگھٹے سے سیارے کیسے دجود میں آتے ہیں؟ اسی طرح کی 'پروٹوپلینیٹری' ڈسکیں وہ ہوں گی جیہوں نے 4.6 بلین سال پہلے ہمارے سورج کے ماحول کو بنایا ہوگا؛ اور جس میں ایک نوزائیدہ ستارے کے گرد گھومنے والے اکھٹے ہوئے مواد سے سیارے بنے ہونگے۔


جے ڈبلیو ایس ٹی انکشاف کر رہا ہے کہ اس طرح کی ڈسکوں میں تشکیل پانے والے پتھریلے سیاروں تک پانی کیسے پہنچایا جاتا ہے؟ یہ ان سیاروں کی نرسریوں میں دور دراذ سے آئے بیرونی عناصر کی کیمسٹری کے اشارے فراہم کر رہا ہے۔ اور ان تصاویر سے تازہ ثبوت حاصل ہوئے ہیں کہ ستارہ بیٹا پکٹوریس کے سب سے مشہور ملبے والی ڈسک میں ہٹ اینڈ رن کا کائناتی پیدائش کا کھیل جاری تھا۔


دیگر دوربینوں نے پہلے بھی ان میں سے بہت سی ڈسکوں کی جانچ کی ہے۔ ماہرین فلکیات نے ایک روشن ونائل ریکارڈ میں گہری گھاٹیوں کی طرح کھدی ہوئی تاریک خلا کی متاثر کن تصاویر لی ہیں۔ جن سے نشان دہی ہوتی ہے کہ سیارے کہاں پیدا ہو رہے ہیں اور نتیجے میں ڈسک سے گیس اور دھول صاف ہوکر کم ہو رہے ہیں۔ لیکن جے ڈبلیو ایس ٹی کے بے مثال تصاویر؛ ماہرین فلکیات کو ان دائروں کی حقیقی طریقوں سے تحقیقات کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ سان مارکوس میں ٹیکساس اسٹیٹ یونیورسٹی کی ماہر فلکیات آندریا بنزٹی کہتی ہیں، ’’یہ واقعی ایسا ہے جیسے آپ نئے شیشے نکال کر لائے ہوں — آپ نے انہیں لگا دیا اور اچانک، چشمہ حیرت سے، آپ کو بہت کچھ نظر آتا ہے۔‘‘


برفیلی کنکریوں سے تحفہ

بنزٹی اور ان کے ساتھیوں نے اپنے نئے [ جے ڈبلیو ایس ٹی ] شیشے کو چار ستاروں کی پروٹوپلینیٹری ڈسکوں پر دیکھنے کے لیے فکس کیا۔ سائنسدانوں نے دیکھا کہ دو ڈسکوں میں ٹھنڈے پانی کی بڑی مقدار موجود ہے جو ستارے کے بالکل قریب ہے؛ مگر اتنے فاصلے پر کہ پانی منجمد ہونے کی بجائے مائع کی شکل میں ہوں۔ یہ مشاہدہ کئی دہائیوں پہلے پیش کیے گئے ایک نظریہ کی تائید کرتا ہے؛ کہ برفیلے کنکر ڈسک کے بیرونی حصے سے اندر کی طرف بڑھتے ہیں یہاں تک کہ وہ اتنا گرم ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے شکل بدل کر مائع پانی بن کر اندرونی ڈسک کی سطح میں آ موجود ہوں۔

 بنزٹی نے 14 ستمبر کو بالٹی مور، میری لینڈ میں [ جے ڈبلیو ایس ٹی ] کانفرنس میں رپورٹ کیا کہ پانی کا یہ ذخیرہ ستارے جے ۱۶۰۵۳۲کے قریب بننے والے سیاروں کے لیے خام اجزاء کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ اس نے مزید کہا کہ "پہلی بار، ہمارے پاس پیمائش ہے کہ اس علاقے میں کتنا پانی پہنچایا جا رہا ہے۔" اس سے ماہرین فلکیات کو اس بارے میں اب بہتر اندازہ ہو سکتا ہے کہ مختلف ڈسکوں میں کس قسم کے سیارے بن رہے ہیں۔

دلچسپ کیمسٹری

ماہِ مئی میں نیچر اسٹرونومی میں، ماہرین فلکیات نے جے ۱۶۰۵۳۲- کے ارد گرد ڈسک میں بینزین کی تلاش اور موجودگی کی اطلاع دی - یہ ایک پروٹوپلینیٹری ڈسک میں مالیکیول کا پہلا مشاہدہ ہے۔ بینزین ایک کاربن پر مشتمل 'نامیاتی' مالیکیول ہے، لیکن اس کا پتہ لگانا شاید زندگی کے لیے ضروری اجزاء کی موجودگی کا اشارہ نہیں دیتا۔ اس کا لیکن یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ستارے سے آنے والی تابکاری کا سیلاب کاربن سے بھرپور دھول کے دانوں کو تباہ کر رہا ہے، جس سے ڈسک میں بینزین خارج ہو رہی ہے۔ ڈسک میں بہت سے دوسرے کاربن پر مشتمل مرکبات بھی شامل ہیں، جیسے کہ ایسٹیلین - اور حقیقت میں مجموعی طور پر آکسیجن سے زیادہ کاربن موجود ہے۔


جرمنی کے گارچنگ میں میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار ایکسٹرا ٹریسٹریل فزکس کی ماہر فلکیات سیرا گرانٹ، جو اس کام میں شامل تھیں اور گزشتہ ہفتے کانفرنس میں اس کے بارے میں بات کی ؛ کہتی ہیں کہ "یہ واقعی ایک ایسی کیمسٹری ہے جو ہم نے پہلے کبھی ڈسک میں نہیں دیکھی،" ۔ انہوں نے مزید کہا "ہمیں اسے سمجھنے کے لیے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، لیکن یہ واقعی دلچسپ ہے"۔


یہاں تک کہ وہ ڈسکیں بھی جو شاید پہلے ہی اپنے تمام سیاروں کو تشکیل دے چکی ہیں اپنے راز [ جے ڈبلیو ایس ٹی ] کو دے رہی ہیں۔ کانفرنس میں، ماہرین فلکیات نے بیٹا پکٹوریس کے ارد گرد ڈسک کی نئی تصاویر دکھائیں، ایک ستارہ جو زمین سے 19 پارسیکس پر واقع ہے۔ 1984 میں، یہ پہلا ستارہ تھا، جس کے بارے میں جانا گیا تھا کہ اس کے گرد گیس اور دھول کے ملبے کی ڈسک ہے۔


ان تصاویر نے، جنہیں ابھی تک شائع ہونا باقی ہے، ملبے کی ڈسک سے پھیلی ہوئی "دھول کے تنت" کا انکشاف کیا ہے، ایک دریافت کن افقی سیدھے زاویہ پر جسے ماہرین فلکیات 'بلی کی دم' کہہ رہے ہیں۔ کانفرنس میں بالٹی مور میں اسپیس ٹیلی سکوپ سائنس انسٹی ٹیوٹ کے ماہر فلکیات مارشل پیرین نے کہا کہ یہ خصوصیت تصاویر میں واضح ہے، لیکن اس سے پہلے کسی نے اسے نہیں دیکھا تھا کیونکہ یہ [ جے ڈبلیو ایس ٹی ] کے انفراریڈ وژن کے علاوہ نظر نہیں آتا تھا۔

ملبے کا راستہ، بلی کی دم

بیٹا پکٹوریس کی بلی کی دم شاید دھول اور دوسرے ملبے کا ایک دھارا ہے جسے ستارے کی ڈسک سے باہر نکال دیا گیا تھا جب پتھر کے بڑے ٹکڑے ایک دوسرے سے ٹکرا گئے تھے۔ "ہم ڈسک میں ایک بڑے تصادم کے بعد دیکھ رہے ہیں،" پیرین نے کہا۔ اس سے قبل [ جے ڈبلیو ایس ٹی ] ہی میں دیکھے گئے روشن ستارے فومال ہاؤٹ کے ارد گرد ایک ڈسک کے مشاہدات میں بھی بادلوں اور دھول کے بیلٹ باہر کی طرف پھیلتے ہوئے دکھائے گئے تھے، جو یہ بتاتے ہیں کہ سسٹم میں اس سے کہیں زیادہ بہت کچھ ہو سکتا ہے جتنا کسی کو شبہ تھا۔


"یہ [ جے ڈبلیو ایس ٹی ] کی طاقت کو اجاگر کرتا ہے،" گرانٹ کہتے ہیں، "جو چیزیں ہم برسوں سے پڑھ رہے ہیں وہ اب بھی ہمیں حیران کر رہی ہیں۔"

Alexandra Witze کا لکھا ہوا مضمون جو مندرجہ ذیل لنک پر موجود ہے

اور اسے بینگ باکس کے لیے ترجمہ کیا گیا

https://www.nature.com/articles/d41586-023-02922-w

The Photo: Collisions between rocks in the protoplanetary disk (bright rings; artist’s impression) around the star Beta Pictoris might have generated a newly detected feature nicknamed the cat’s tail. Credit: NASA/FUSE/Lynette Cook

More Posts