ذاتی طور پر کسی بھی شخص کی تکلیف سے دکھ ہوتا ہے؛ دل ملول ہوتا ہے؛ مگر دل تو کافی عرصے سے غمگین ہے؛ کیا ملک کی ہوا خوشی بکھیر رہی ہے؟
ذاتی طور پر کسی بھی شخص کی تکلیف سے دکھ ہوتا ہے؛ دل ملول ہوتا ہے؛ مگر دل تو کافی عرصے سے غمگین ہے؛ کیا ملک کی ہوا خوشی بکھیر رہی ہے؟
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
راحت اندوری نے یہ کمال بات کردی؛ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاست گھٹیا کام ہے اور ہم کچھ خاص لوگ آسمانی مخلوق ہیں؛ ہمھیں ان ارضی معاملات سے کیا مطلب؟
عزیزانِ من؛ جب ملک میں عمومی حالات بے اصولی اور غیر قانوںی طریقہ کار پر چلائے جا رہے ہوں تو پھر کوئی خلدِ بریں جزیرہ قائم نہی رہتا۔ وطن پر آسیب سوار ہوجاتے ہیں جو دکھتے بھی نہی ہیں۔ شاید شاعر کبیر اجمل بھی ان حالات ہی سے گذرے ہیں جو یہ شعر کہا ہے
کیوں بام پہ آوازوں کا دھمال ہے اجملؔ
اس گھر پہ تو آسیب کا سایہ بھی نہیں ہے
کیسے بھی حالات ہوں؛ ہر فرد متاثر نہی ہوتا؛ ہر دل میں گداز اور سوز نہی ہوتا؛ مگر بالآخرہر فرد گھیرے میں ہوتا ہے۔ قوموں کی زندگی میں کبھی نا کبھی آفاقی نوعیت کی آفت ٹوٹتی ہے تو سب کوتکلیف پہنچتی ہے۔ ہاں تکلیف ہوتی ہے؛ ذرا رک رک کر؛ سب کے آنگن جل جاتے ہیں؛
دوسروں کی تکلیف نا محسوس کرنے والے بھی؛ جب؛ آگ انکے دامن تک آتی ہے؛ مگر؛ تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے؛ پھر خدا یاد آتا ہے تو پتہ چلتا ہے اس خالقِ کل ایک کتاب بھیجی تھی اور وہ واحد کتاب ہدایت تھی؛ مگر بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ اس وقت عارف امام کے بقول حالت یہ ہوجاتی ہے کہ
کچھ ایسے زخم زمانہ کا اندمال کیا
کبھی نماز پڑھی اور کبھی دھمال کیا
عزیزانِ گرامی؛ جب ہوش دیر سے آئے تو پھر رقصِ بسمل ہی باقی رہ جاتا ہے؛ سو جھومیں