ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات
The human history has seen rapid acceleration in progress and development over the last century. It has also provided serious challenge to very existence of human race. The machine age and current era technological advancement is a deadly combo for humanity.
2023-09-18 13:54:23 - Muhammad Asif Raza
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات
اقبال
آج سے تین سو سال قبل انسانی تہذیب زرعی آمدم کے دور میں جی رہی تھی۔ پھر انسان کی آنکھ کھلی تو اس نے سائینس کی حقیقتوں کو پہچاننا شروع کیا۔ اس حقائق پر اس نے ایجادات کیں اور اس کے بعد انسانی تہذیب صنعت و حرفت کے دور میں داخل ہوئی۔ انیسویں صدی میں انڈسٹری نے پرپرزے نکالے اور ہر جانب فیکٹریاں قائم ہونے لگیں اور آدمی اس میں کام کرنے والا کاریگر بن گیا۔ ہر طرف چلنے والی مشینوں کا شور انسانی شعور کا، اس کے شب و روز کا، اس کے خوشی اور غم کی وجہ بن گئیں۔
مشین نے جہان آدم کی زندگی میں آسانیاں فراہم کیں وہیں زندگی کا پہیہ تیز ہوگیا۔ انسان کی شب و روز مین ایک سکون اور ٹھراو تھا، مشین کی آمد نے نا صرف کے اس میں لہریں پیدا کردیں بلکہ زلزلہ آگیا۔ مندرجہ بالا علامہ اقبال کا شعر سو سال قبل لکھا گیا تو ذرا سوچیں کہ آج کی زندگی کیا رنگ دکھا رہی ہوگی؟
ہم جس زمین پر رہتے ہیں، اسے کوہِ ہمالہ سے ابلتے چشموں اور پگھلتے برفزاروں سے بہتے پانیوں کی آبیاری حاصل ہوتی ہے۔ ان زمیںوں کو دریاوں سے جو سیرابی ملتی تھی، اس نے ایک تہزیب کو جنم دیا جسے دنیا سونے کی چڑیا سے موسوم کرتی تھی۔ زمین کی ہریالی اور اس پر چلتے پھرتے انسان اور حیوانات خوب پھلتے پھولتے، گیت گاتے اور چہلیں کرتے تھے۔
تقریبا" دو سو سال قبل انگریز قابض ہوا اور اپنے ساتھ صنعت و حرفت کی ترقی لایا؛ سو خوب مشینیں لگیں۔ ہمارے لوگ اس بدلاو کے لیے تیار نہی تھے؛ جس کے نتیجے میں کئی دلگیر حادثات پیش آئے۔ زندگیوں میں جو ٹہراو تھا اس میں تغیر نے دورس اثرات مرتب کئے۔
محترم تنویر سپرا نے ان وارداتوں پر خوب منظر کشی کی ہے۔
اب تک مرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط
اب تک مرے کانوں میں مشینوں کی صدا ہے
تنویرؔ اب تو حلق سے بھونپو کا کام لے
بہرے ہوئے ہیں کان مشینوں کے شور سے
ہم زرعی دور میں جینے والے لوگ تھے اور زمین پر محنت کرکے اپنے رزق کا بندوبست کرتے تھے۔ مٹی سے کھیل کر جو جسم تھک جاتے تھے؛ وہ تھکن رات بھر چاند تاروں کے سنگت میں سو کر اتر جاتی تھی جسے جناب تنویر سپرا نے اس طرح بیان کیا
اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے
دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے
آج کی تیز رفتار زندگی ڈیجیٹل دور میں داخل ہوگئی ہے جو ایسی مشینوں سے موسوم ہوگئی ہے جو گھر کے اندر داخل ہوگئی ہیں۔ انسان ہر جانب سے مشینوں کے درمیان پھنس گیا ہے۔ اٹھتا بیٹھتا، چلتا پھرتا، کھاتا پیتا، سوتا جاگتا،غرض ہر وقت ہر گھڑی اب مختلف نوع مشین کے درمیان جی رہا ہے۔ اس نے کئی ایک مسائل کو جنم دیا ہے۔ چند ایک یہاں بزبانِ تنویر سپرا
میں اپنے بچپنے میں چھو نہ پایا جن کھلونوں کو
انہی کے واسطے اب میرا بیٹا بھی مچلتا ہے
آج بھی سپراؔ اس کی خوشبو مل مالک لے جاتا ہے
میں لوہے کی ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں
حقیقت یہ ہے کہ زرعی دور کے بعد آنے والے تغیر نے جو سب سے بڑا مسئلہ پیدا کیا ہے وہ آجر و آجیر کے تعلق سے پیدا ہوا ہے۔ اسی سے دولت کی تفریق نے جنم لیا ہے اور اسی کے بطن سے انسانوں اور قوموں کے درمیان کلاس یعنی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر کے استعارات پھوٹے ہیں۔ اس تفریق نے احساسات اور انسانی جذبات کو تہہ تیغ کیا ہے۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
علامہ محمد اقبال
مانا کہ تُو ہی رازق و رزّاق ہے مگر
مجھ کو حصولِ رزق میں آسانیاں بھی دے
آصف انجم
ضروری ہے کہ اولاد آدم باہم بیٹھ کر گفت و شنید سے اپنے مسائل کو حل کریں اور اپنی اگلی نسلوں کو ورثے میں محض مسائل چھوڑ کر نا جائیں۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ ان مسائل کی تعداد میں اضافہ خود غرضی اور مادیت پرستی سے پھوٹ رہی ہے۔ انسانوں کو اپنے بیچ انسانیت کو مقدم رواج دینے کی رسم ڈالنی ہوگی۔