ترقی پذیر ملکوں کے کئی مسائل ہوتے ہیں اور اکثر ان میں سے ان معاملات سےمتعلق ہوتے ہیں جنہیں انسانی آبادیوں کے لیے لازم و ملزوم قرار دیا جاتا ہے۔ صحت اور طبی سہولتیں ان بنیادی سہولت کا حصہ ہیں۔ مگرپاکستان جیسے ملکوں میں مستند طبیب یعنی ڈاکٹر، عطائی، حکیم اور نیم حکیم اکظر مل جاتے ہیں۔ اس کے نیجے میں جو اندودہناک مسائل جنم لیتے ہیں؛ اس کے ایک جھلک اس تحریر میں ملے گی ۔ یہ تحریر لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ) نے قلم زد کیا ہے۔
ڈاکٹروں کی اقسام
آج سے تین چار دہائیوں قبل ڈاکٹر کے ملازمین بھی تقریباً ڈاکٹر ہی ہوا کرتے تھے اکثر لوگ تو ان کو نہ صرف ڈاکٹر کہہ کر پکارا کرتے بلکہ ان کو ڈاکٹر مانا بھی کرتے تھے۔ خاص طور پہ جو لوگ ڈاکٹر کی فیس دینے کی استطاعت نہ رکھتے وہ ان ملازمین سے ہی اپنی چھوٹی موٹی بیماریوں کا تذکرہ یہ خیال کر کے کر دیا کرتے کہ وہ ڈاکٹر صاحب سے پوچھ کر کوئی موزوں دوا تجویز کرا دیں گے۔ ان ملازمین میں بطورِ خاص چپراسی تو کلینک یا اسپتال میں ڈاکٹر صاحب کے کمرے کے اتنے چکر لگا لیتا کہ مریضوں اور ڈاکٹروں کی گفتگو اسے زبانی یاد ہو جاتی یوں وہ آدھا ڈاکٹر تو بن ہی چکا ہوتا۔ لہٰذا وہ چھوٹی موٹی بیماریوں کی دوا ازخود ہی تجویز کر دیا کرتا اور اس کے صلے میں چھوٹی موٹی بخشش بھی وصول کر لیا کرتا۔ جبکہ ڈاکٹر صاحب کا کمپاؤنڈر تو مکمل ڈاکٹر ہی کہلاتا اور مانا جاتا تھا۔ ہمارے اپنے محلے میں ایک ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے بعد ان کے کمپاؤنڈر نے ان کے کلینک کو نہ صرف اپنا کلینک بنا لیا بلکہ اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر بھی لگا لیا۔ اسی طرح ہمارے ننھیالی شہر ملتان میں ایک کمپاؤنڈر جس کو اس وقت ہم سب بھی ڈاکٹر ہی سمجھا کرتے تھے مریض کو کھڑکی سے آتا دیکھ کر ہی ٹیکہ تیار کر لیا کرتا۔ سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ سب کا ماننا تھا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کے ہاتھ میں شفا رکھی ہے کیونکہ اس کی دی ہوئی دوائی بلکہ لگائے ہوئے ٹیکے سے تمام ہی مریض جلد صحت یاب ہو جایا کرتے۔۔۔
اس کے علاوہ ہر محلے میں ایک نہ ایک ایسے صاحب ضرور موجود ہوتے جنھیں ڈاکٹر بننے کا شوق ضرور ہوتا مگر انٹرمیڈیٹ میں وہ ہمارے جیسے نمبر لے کر آخر میں بی اے اور پھر ایم اے اردو یا ایم اے سیاسیات کر کے ازخود ڈاکٹر بن کر گھر میں ہی مفت کی پریکٹس کیا کرتے۔ ایسے لوگوں نے مفت کے مریضوں کے لیے اپنے گھروں میں کھانسی کے شربت کی بوتلیں، اسپرین اور پیراسیٹامول کے پتے اور سردیوں میں وکس کی ڈبیاں ضرور رکھی ہوتیں۔ دورانِ نماز مسجد میں کسی نمازی کو چھینک بھی آجاتی تو وہ اس کو اپنی جیب سے دوائی نکال کر دے ڈالتے۔ ان کے لیے فیس یہی ہوتی کہ دوائی لینے والا محض یہ کہہ دے کہ اللہ نے آپ کے ہاتھ میں بڑی شفا رکھی ہے۔۔۔
اس زمانے میں بیماریاں بھی تو زیادہ تر بخار، نزلہ زکام، پیٹ درد، قبض، دست یا اسہال کی ہوا کرتی تھیں۔ ایسے میں کچھ بزرگ پیٹ درد کو ناف اتر جانا قرار دے کہ اس کا دیسی علاج کر دیتے تو کچھ دم درود کر کے علاج کر دیا کرتے۔ بڑی عمر کی خواتین کے پاس ہر بیماری کے دیسی ٹوٹکے موجود ہوتے۔
اس زمانے میں ڈاکٹروں کی بھی محض دو ہی اقسام ہوا کرتی تھیں۔ ایک سرجن جو صرف کاٹا پیٹی یعنی آپریشن کیا کرتے تھے۔ اس وقت آپریشن بھی صرف اپینڈکس کا ہی سنا کرتے تھے۔ اور دوسرا جنرل فزیشن جو نزلہ، زکام، بخار، ناک، کان، گلہ، سے لیکر دل، گردے، جگر اور ذیابیطس غرض ہر بیماری کا ہی علاج کیا کرتے تھے۔ البتہ دانتوں اور آنکھوں کی بیماری کے ڈاکٹر اس وقت بھی الگ ہوا کرتے تھے ان تمام جنرل فزیشن ڈاکٹروں کے پاس ایک ہی طرح کی دوائیاں ہوا کرتی۔ نرم پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی سی بوتلوں میں موجود ایک لال رنگ کا شربت جسے والدین بڑی مشکل سے اپنے بچوں کو پلانے پہ راضی کرتے اور سفید کاغد میں لپٹی ہوئی طاقت کی گولیاں جنھیں اکثر مریض گھر والوں کی نظر بچا کر کوڑے دان کی نذر ہی کر دیا کرتے تھے۔
پھر وقت کے ساتھ ساتھ ہر بیماری کے الگ الگ ڈاکٹر آ گئے سب سے پہلے میڈیکل اسپیشلسٹ اور پھر ناک، کان، گلا یعنی ای این ٹی اسپیشلسٹ میدان میں اترے اس کے بعد تو جیسے لائن ہی لگ گئی۔۔۔
ایک صاحب عارضہ قلب میں مبتلا ہوئے تو ان کے معالج نے ماہانہ بنیاد پر چیک اپ کرانے کا مشورہ دیا۔ اس سے قبل وہ پرائیویٹ اسپتالوں سے ذرا دور ہی رہے۔ پہلے ہی مہینے ڈاکٹر صاحب جو صرف ڈاکٹر نہیں بلکہ ماہر امراضِ قلب یعنی "کارڈیالوجسٹ" تھے کے پی اے نے ان سے پانچ منٹ کے چیک اپ کی فیس کے پانچ ہزار طلب کر لیے۔ بقول ان صاحب کے دل کے دورے کا درد ان پانچ ہزار فیس کے درد سے خاصہ کم تھا۔ رفتہ رفتہ عارضہ قلب کی سخت دوائیوں سے انھیں معدے کا السر بھی ہو گیا۔ کارڈیالوجسٹ سے اس کا تذکرہ کیا تو انھوں نے کسی ماہرِ جگر و معدہ یعنی گیسٹروانٹرالوجسٹ سے ملاقات کا مشورہ دیا۔ ابھی معدے کی بیماری سے افاقہ نہ ہوا کہ ذیابیطس نے بھی سر اٹھا لیا۔ اس کا علاج صرف ڈائبوٹولوجسٹ کے پاس ہی تھا۔۔۔
ان ڈاکٹروں کی مختلف اقسام اور ان کی فیسوں سے تنگ آکر ان کے سر میں شدید درد رہنے لگا ایک دوست سے اس سر درد کا ذکر کر بیٹھے تو وہ فوراً انھیں شہر کے مشہور و معروف نیورولوجسٹ کے پاس لے گئے۔ یہاں مریضوں کی لمبی قطاریں لگیں تھیں خدا خدا کر کے نمبر آیا تو ڈاکٹر صاحب کی فیس نے سر درد کو دردِ سر بنا دیا۔ بات ایم آر آئی تک جا پہنچی۔ یعنی مزید فیس دینا بڑی لیکن خوش قسمتی سے ایم آر آئی بالکل نارمل تھی۔ وہیں کسی صاحب نے چٹکلہ چھوڑا کہ اگر ٹیسٹ ٹھیک ہیں تو آپ کسی ماہرِ نفسیات سے اپنا معائنہ کروائیں۔ یہ بات ان کو معقول لگی۔
اس بڑے سے پرائیویٹ اسپتال میں ماہرِ نفسیات کا کلینک ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان کی نظر ایک بورڈ پہ پڑی جس پہ اس کلینک کے مزید اسپیشلسٹ کے نام درج تھے جن میں یورولوجسٹ، انکولوجسٹ، ہیماٹولوجسٹ، نیفرالوجسٹ، اینڈوکرئینالوجسٹ، ڈرماٹالوجسٹ، گائناکالوجسٹ اور ناجانے کون کون سے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کے نام درج تھے۔ ان کو ایسا لگ رہا تھا کہ ایک گائناکالوجسٹ کو چھوڑ کر وہ ہر اسپیشلسٹ کو معائنہ کرانے کے اہل ہیں۔ بس اب ان میں وہاں مزید رکنے کی ہمت نہ تھی۔ انھوں نے فوراً موبائل ایپ سے گھر جانے کے لیے گاڑی بک کرائی۔ گاڑی کے ڈرائیور سے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی غرض سے بات چیت شروع کی تو معلوم ہوا کہ ڈرائیور بھی ایک ڈاکٹر ہی ہیں مگر ہومیوپیتھیک ڈاکٹر اور خرچہ پانی کی غرض سے یہ گاڑی بھی چلاتے ہیں۔ صاحب کی روداد سننے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ہومیوپیتھیک علاج کے فوائد پہ روشنی ڈالنا شروع کی۔ اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی فیسوں کے ستائے صاحب جلد ہی رام ہو گئے۔ بس پھر کیا، وہاں سے وہ سیدھے گئے ان کے کلینک پہ اور محض پانچ سو روپے میں پورے مہینے کی دوا لے آئے۔ ناجانے ہومیوپیتھیک کی میٹھی میٹھی گولیاں ان کو راس آ گئیں یا ڈاکٹروں کی مہنگی فیسوں سے چھٹکارا۔ ان کے چہرے کی رونق واپس لوٹ آئی اور بیماری جاتی رہی۔
اب ناجانے یہ ہومیوپیتھیک ڈاکٹر صرف ہومیوپیتھیک ڈاکٹر ہی رہیں گے یا ان کی بھی مزید اقسام منظر عام پر آ جائیں گی۔۔۔
لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ)
کراچی 2024
🪀: 0340 4303030
📧: khanabrar30c@gmail.com