بصارت و بصیرت
بصارت اور بصیرت کی آسان اور سادہ تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ جو آنکھ کے پردے پر دکھائی دیتا ہے، وہ بصارت ہے اور جو سجھائی دیتا ہے وہ بصیرت ہے؛ اور وہ بصارت کا منطقی نتیجہ ہوتا ہے۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اُس کے بارے میں سوچنا بھی لازم ہے۔ یہ طے ہے کہ بصیرت کے بغیر بصارت فضول ہے۔ بصیرت کا حامل افراد ظاہر کی آنکھ سے پہلے، دل کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد کچھ واقعات سے اس کی اہمیت واضع کرنا ہے۔
2024-12-05 15:02:35 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
بصارت و بصیرت
بصارت اور بصیرت کی آسان اور سادہ تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ جو آنکھ کے پردے پر دکھائی دیتا ہے، وہ بصارت ہے اور جو سجھائی دیتا ہے وہ بصیرت ہے؛ اور وہ بصارت کا منطقی نتیجہ ہوتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آنکھ سے دکھائی دینے والا منظر ہی کافی نہِں ہوتا کہ بصیرت کی ضرورت پڑے؟ انسانی آنکھ کے افعال بڑے پُر اسرار، تہہ در تہہ اور شعور و ذہن کی قوتوں میں الجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ انسانی آنکھ سے بصارت کا دروازہ کھلتا ہے اور صاحب عقل کو بصارت کے راستے بصیرت کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس سے آگے بصیرت کی روشنی دل کے تہہ خانوں میں اجالا کرتی ہے۔ بصیرت معاملہ فہمی کی بنیادی شرط ہے۔
جلال الدین محمد ﺍﮐﺒﺮ ہندوستان کا مشہور ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ گزرا ہے؛ جو خود تو تعلیم یافتہ نہیں تھا مگر اس کے دربار کے نو رتنوں نے خوب نام کمایا۔ ان ہی میں سے ﺍﯾﮏ ﻭﺯﯾﺮ ﺑﯿﺮ ﺑﻞ تھا۔ اس دربار سے متعلق بہت سے واقعات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں؛ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کیسے اکبر ایک عظیم شہنشاہ کہلایا۔ ذیل میں ایک ایسا ہی واقعہ پیش کیا جاتا ہے جس میں آج کے قارئین کے لیے ایک سبق ہے۔
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ جب اکبر بادشاہ کا دربار لگا ہوا تھا تو بیربل ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ 100 ﻣﯿﮟ ﺳﮯ 99 ﺁﺩﻣﯽ ﺍﻧﺪﮬﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺣﯿﺮﺕ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻏﺼﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺛﺎﺑﺖ ﮐﺮﻭ ﻭﺭﻧﮧ ﺳﺰﺍ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺟﺎﺅ ۔ ﺑﯿﺮ ﺑﻞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺣﻀﻮﺭ ﺣﮑﻢ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﻞ ﮨﻮﮔﯽ ۔
ﺍﮔﻠﮯ ﺭﻭﺯ ﺑﯿﺮ ﺑﻞ ﺷﺎﮨﺮﺍﮦ ﻋﺎﻡ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﭼﺎﺭ ﭘﺎﺋﯽ ﺑﻨﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﭩﮭﺎ ﻟﯿﺎ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ دیا ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻓﮩﺮﺳﺖ مرتب کرنی ہے جس میں ایک میں ﺍﻧﺪﮬﻮﮞ ﮐا نام لکھنا ہے اور دوسرے میں ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐا نام لکھا جائے۔
وہ شاہراہِ عام کافی مصروف تھی؛ سو کچھ ہی دیر میں ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﺁﯾﺎ؛ جو بیربل کو پہچانتا بھی تھا تو ﺍﺱ ﻧﮯ پوچھا کہ " ﺑﯿﺮ ﺑﻞ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟
ﺑﯿﺮ ﺑﻞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻌﺎﻭﻥ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﻧﺪﮬﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮫ ﺩﻭ۔ ۔ﭘﮭﺮ ﺍﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﺑﻦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ۔
ﯾﻮﮞ ﻟﻮﮒ ﺁﺗﮯ ﮔﺌﮯ؛ جو جان پہچان والے بھی تھے اور اجنبی بھی۔ آنے والے ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮔﺌﮯ کہ " ﺑﯿﺮ ﺑﻞ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺪﮬﻮﮞ کی فہرست مین تیزی سے ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﮑﮭﻮﺍﺗﮯ ﮔﺌﮯ ۔۔
ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﮨﯽ ﻗﺎﻓﻠﮧ ﮔﺬﺭﺍ ﺗﻮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ بھی ﭘﻮﭼﮭ لیا کہ " ﺑﯿﺮﺑﻞ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟"
تو ﺑﯿﺮ ﺑﻞ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻭﻥ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺪﮬﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺎ ۔
آخرکار ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮ ﭼﮭﺎ کہ "ﺧﯿﺮﯾﺖ ﮨﮯ ﺑﯿﺮﺑﻞ! یہ ﭼﺎﺭ ﭘﺎﺋﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﻦ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ"؟
ﺑﯿﺮ ﺑﻞ ﻧﮯ ﻣﻌﺎ ﻭﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﻮ اور پھر اپنا بوریا بستر اٹھایا اور بادشاہ کے دربار کو چلا۔
وہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوا اور ﺑﺎﺩ ﺷﺎﮦ کو مخاطب ہوکر ﮐﮩﺎ ۔
"ﻋﺎﻟﯽ جاہ و ﺟﻨﺎﺏ ! ﻓﮩﺮﺳﺖ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺠﯿﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﮭﯽ اندھوں میں ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭ ﭘﺎﺋﯽ ﺑﻦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺼﺎﺭﺕ ﭘﺮ ﯾﻘﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮔﻮﯾﺎ ﺍﻧﺪﮬﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ کہ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ۔ حضور والا؛ بہت دیر بعد ایک شخص آیا ﺟﺴﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺼﺎﺭﺕ ﭘﺮ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ اور جس کو بصیرت بھی حاصل تھی تبھی ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ میرے عمل کی ﺗﺼﺪﯾﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﭼﺎﺭ ﭘﺎﺋﯽ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﭘﻮﭼﮭﯽ؛ جو اس عمل کا منطقی نتیجہ بھی تھا کہ آخرکار بادشاہ کا رتن اور مصاحب چارپائی کیوں بن رہا ہے؟
قرآن نے بھی ایسا ہی کہا ہے کہ آنکھ والے اندھے ہیں؛ مگر کیسے؟ " کیا انہوں نے زمین میں سیرو سیاحت نہیں کی جو ان کے دل ان باتوں کے سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان ( واقعات ) کو سن لیتے ، بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں"۔ سورة الحج آیت 24
بصارت کا دائرہ کار یہ ہے کہ آنکھ کے پردے پر بننے والا عکس اس گواہی کا نام ہے گویا ہمیں کیا دکھائی دیتا ہے؟ اس سے آگے جو دکھائی دے رہا ہے تو ایسا کیوں دکھائی دے رہا ہے؛ ذی شعور کو بصیرت سے آشناء کرتا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا ....
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وَا کرے کوئی
جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اُس کے بارے میں سوچنا بھی لازم ہے۔ سوچنے ہی سے اشیاء کی حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے اور یوں فکر و عمل میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ پختگی زندگی کو زندگی بناتی ہے۔ اس لیے یہ تو طے ہوگیا کہ بصیرت کے بغیر بصارت فضول ہے۔ بصیرت کا حامل افراد ظاہر کی آنکھ سے پہلے، دل کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ شان الحق حقیؔ نے کہا ہے ؎
دل کی توفیق سے ملتا ہے سراغِ منزل ؎
آنکھ تو صرف نظاروں ہی میں کھو جاتی ہے!
اصل دیکھنا یہ ہے کہ انسان شے کی حقیقت کو دیکھے۔ جب حقیقت پر نظر پڑتی ہے تو معاملات کی اصل سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ ایسے میں فکر و نظر کے زاویے اور عمل کے انداز بدل جاتے ہیں‘اسی حقیقت کی طرف علامہ اقبال نے یوں اشارا کیا ہے ؎ ت
اے اہلِ نظر! ذوقِ نظر خوب ہے لیکن ؎
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا!
ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دن اپنے وزیر کے ایک سوال پر ایک سوئی دریا میں پھینک دی اور پھینک کر کہنے لگے ’’ اے مچھلیوں جس رب کو تم مانتی ہو، اس رب کو میں بھی مانتا ہوں، مجھے میری سوئی واپس کر دو‘‘۔ ایک مچھلی وہی سوئی لے کرآئی۔ ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ نے اس سے سوئی لی اوراپنے وزیر سے پوچھا کہ " اب پتا چلا کہ بڑی بادشاہت کونسی ہے"؟
دل بینا بھی کر خدا سے طلب ؎
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
علامہ محمد اقبال کا مندرجہ بالا شعر کا پیغام یہ ہے کہ لازم ہے کہ اللہ سبحان تعالی سے وہ بصیرت بھی طلب کی جائے جس سے دل روشن ہو۔ اس لئے کہ بصارتِ چشم ہی دل کے لیے بصارت نہیں بن سکتی۔ کہنے کا مقصد ہے کہ دل ہی روشن نہ ہوتو محض آنکھ کی روشنی کافی نہیں ہے۔ عملاً بصارت اور بصیرت کے بغیر انسان کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ مشہور و معورف شاعر جناب اقبال عظیم صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ؎
بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ