بھٹک رہا کہاں کہاں، تو خود آگہی کے لیے
Self-awareness is the ability to recognize and understand ones own thoughts, feelings, behaviors, and characteristics. It involves being able to objectively evaluate self and how one's actions align with universal values. Man achieves self esteem by self awareness. This write up in Urdu " بھٹک رہا کہاں کہاں، تو خود آگہی کے لیے" is discussing the subject objectively.
2024-12-05 18:38:43 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
بھٹک رہا کہاں کہاں، تو خود آگہی کے لیے
خود آگہی کے معانی ہیں " اپنی شناخت کرنا، اپنے پہچاننا، اپنی ذات کا شعور"؛ اور انسان اشرف المخلوقات ہے تو اسے اس کی خود آگہی یہ ہے کہ وہ جان جائے کہ وہ کیا ہے؛ کون ہے اور کیوں ہے؟ خود آگاہ و خود شناس و خود بین انسان دراصل مطلوب و مقصود خالق و مالک کُل کائنات ہے۔
مطالعہ، مشاہدہ اور غور و فکر سے حاصل کئے گئے علم کو آگاہی کہتے ہیں۔ مطالعہ کا معنی ہے کسی چیز کو اس سے واقفیت حاصل کرنے کی غرض سے دیکھنا ۔ مطالعہ کے اور معنی بھی ہیں جیسے غور، توجہ، دھیان، خیال، مشاہدہ، کتاب بینی اور کتاب خوانی وغیرہ۔ خود آگہی کے لے اقبال نے کیا خوب مشورہ دیا ہے کہ " کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ"۔ مطالعہ، مشاہدہ اور غور و فکر معرفتِ ذات کے حصول کا ذریعہ ہے؛ یہ حقیقت ہے کہ انسان کتاب کے مطالعہ سے آغاز کرتا ہے اور پھر کائنات کے مشاہدہ کی طرف متوجہ ہوتا اور پھر اس پر درجہ بدرجہ کائنات کے سر بستہ راز کھلتے ہیں۔ مطالعہ، مشاہدہ اور غور و فکر سے عقل اور شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔ خود آگہی کے سفر میں انسان کے ذوق میں بالیدگی، طبیعت میں نشاط، نگاہوں میں تیزی اور ذہن و دماغ کو تازگی عطا ہوتی ہے۔ مطالعہ، مشاہدہ اور غور و فکر سے خود آگہی کا سفر میں ہدایت کے حصول کے لیے قرآن المجید واحد کتاب ہے؛ جس سے انسان اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ اس کتاب کے بغیر کسی کامیابی کا امکان ہرگز بھی نہی ہے۔ ہو ہی نہیں سکتا۔
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
مرزا اسد اللہ خان غالب کے اس شعر کا مفہوم اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ کوئی کتنا بھی سمجھدار، عالم، فاضل اور توجہ سے کلام سننے والا کیوں نہ ہو، میرے کلام کا اصل مطلب اس کی گرفت سے باہر رہے گا۔ عالم تقریر کے دو معنی ہیں۔ ایک میرے کلام کی دنیا یعنی جہانِ معنی اور دوسرا وہ کیفیات جن میں کلام صادر ہوا۔ غالب کہتے ہیں کہ میرے اشعار میں خیال و معنی کی پرواز اتنی بلند اور بے نظیر ہے اور اس کی کیفیت اس قدر نامانوس ہے کہ اس کا آپ کے ہاتھ آنا محال ہے۔ اور اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی نایاب عنقا کو پکڑنے کے لئے جال بچھانے کا جتن کرے۔ میری شعری گفتگو جن کیفیات پر مبنی ہے، ان سے کوئی گزرا ہی نہیں تو پھر میرے مطلب کو کس طرح سمجھ پائے گا۔ اس کے لئے میرا مدعا مثل عنقا نایاب و نادر الوجود رہے گا۔
اس شعر میں غالب نے قاری یا سامع سے اپنے کلام کو نہ سمجھ پانے پر ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ تمہارے علم و فضل (آگہی) پر مجھے کوئی شک نہیں۔ دراصل میں تصورات کی جس دنیا (عالم) میں رہتا ہوں وہ تمھاری فکری دنیا سے بہت مختلف ہے ۔ مجھ پر جو کیفیات طاری رہتی ہیں یعنی میں جس عالم میں رہتا ہوں اس میں کہی گئی باتیں اگر تم نہ سمجھ سکو تو اس میں تمھارا کوئی قصور نہیں۔ جس طرح عنقا کو اس کی بلندیٔ پرواز کے سبب پکڑ پانا محال ہے، اسی طرح میرے مطالب تک پہنچنا تمھارے لئے ممکن نہیں۔ اب دیکھیے کہ غالب ایک شاعر ہیں اور اپنے کلام کی بابت یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں کہ غالب کے مطالب تک پہنچ سکے؛ تو ذرا غور کیجیے کہ کائنات کے سب سے سربستہ راز یعنی انسان کو سمجھنا کوئی آسان کام تو نہیں ہوگا۔ پھر کیسے حاصل کریں راز خود آگی کا؟
انسان بڑا عجیب و غریب ہے۔ اس نے متعدد فلسفے گھڑ رکھے ہیں۔ اور ان فلسفوں کی روشنی میں خود آگہی کے سفراختیار کرتا ہے تو جیسا نتیجہ نکلنا چاہیے وہی نکلتا ہے یعنی بھٹک جاتا ہے اور بندگئی نفس کا شکار ہوجاتا ہے؛ جس کا سبب نفسانی خواہشات کی پیروی ہوتا ہے۔ نفس کا غلام کبھی بھی خود آگہی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ فقر اور فکر کا ارتکاز انسان کے خود اگہی کے سفر کا لازم توشہ ہیں۔ جب تک آدمی خود آگہی کے لیے اپنے قلب و ذہن میں ذوق، شوق، تجسس اور گہرائی کی قوتیں پیدا نہیں کرتا؛ وہ کسی طور بھی خود آگہی حاصل نہیں سکتا۔ نفس کی غلامی انسان کے فکر کی گیرائی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ خواہشات نفس کا شکار انسان صرف بھوک مٹا سکتا ہے؛ خود آگہی ناممکن منزل ہے۔
فرمان الٰہی ہے؛ ’’آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں دانش مندوں کے لئے نشانیاں ہیں جو اللہ کو یاد رکھتے ہیں۔ کھڑے، بیٹھے اور لیٹے اور تفکر کرتے ہیں۔ آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر اور نتیجہ میں کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! آپ نے یہ سب کچھ بلا وجہ پیدا نہیں کیا۔‘‘ (آل عمران)
محمد الرّسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا ارشاد گرامی ہے۔’’جس نے اپنے نفس کا عرفان حاصل کر لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:
’’ہم عنقریب انہیں آفاق اور انفس میں اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائیں گے۔‘‘
’’وہ تمہارے نفسوں کے اندر ہے۔ تم دیکھتے کیوں نہیں۔‘‘
جب کوئی شخص اپنی روح کی صلاحیتوں اور صفات کو تلاش کرتا ہے تو اس پر تخلیق کے راز منکشف ہو جاتے ہیں۔ عرفان نفس بالآخر ذہن میں ایسی روشنی پیدا کر دیتا ہے جو خالق کی پہچان کا باعث بن جاتی ہے۔ اور جس نے رب کو پہچان لیا اس نے خود آگہی کی منزل پالی۔ یہ بات بڑی سہولت سے کہی جاسکتی ہے کہ عبادتِ الہی خود آگہی کے سفر کی پہلی منزل ہے۔ خود آگہی کی منزل پر پہنچ کر انسان کیا حاصل کرتا ہے؟ اس بارے میں امام غزالیؒ نے اپنی کتاب کیمیائے سعادت کیا خوب لکھا ہے کہ:
’’اے دوست! اگر کوئی شخص عالم بیداری میں عبادت کرے اور خود کو برے اخلاق سے بچائے، تنہائی اختیار کرے۔ ظاہری آنکھیں بند کر دے اور ظاہری حواس معطل کر دینے کے بعد اپنے دل کو معرفت الٰہی کی طرف رجوع کرے۔ زبان کی بجائے دل سے ’’اللہ‘‘ کے نام کا ورد کرتے ہوئے خود کو محو کر دے اور دنیا کی ہر شئے سے بے نیاز ہو جائے تو اس درجہ پر پہنچنے کے بعد انسان کے قلب کا دروازہ عالم بیداری میں بھی کھل جاتا ہے۔ دوسرے لوگ جو خواب میں دیکھتے ہیں وہ عالم بیداری میں دیکھنے لگتا ہے۔ اس کو فرشتے نظر آتے ہیں، وہ انبیاء کرام کا دیدار کرتا ہے اور ان سے فیوض حاصل کرتا ہے۔ ملائکہ، زمین و آسمان اس کو دکھائی دینے لگتے ہیں"۔
ذیل کے اشعار ان راہوں کی نشاندہی کے لیے پیش کئے جارہے ہیں؛ جو انسان خود آگہی کی راہ میں اختیار کرلیتا ہے۔ یہ حتمی نہیں ہے
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
علامہ اقبال
خدا کا مطلب ہے خود میں آ تو خود آگہی ہے خدا شناسی
خدا کو خود سے جدا سمجھ کر بھٹک رہا ہے ادھر ادھر کیوں
عامل درویش
ڈبوئے دیتا ہے خود آگہی کا بار مجھے
میں ڈھلتا نشہ ہوں موج طرب ابھار مجھے
انور صدیقی
سوداؔ جو بے خبر ہے وہی یاں کرے ہے عیش
مشکل بہت ہے ان کو جو رکھتے ہیں آگہی
محمد رفیع سودا
آگہی سے ملی ہے تنہائی
آ مری جان مجھ کو دھوکا دے
جاوید اختر
اگر شعور نہ ہو تو بہشت ہے دنیا
بڑے عذاب میں گزری ہے آگہی کے ساتھ
صہبا اختر
یہی آئنہ ہے وہ آئینہ جو لئے ہے جلوۂ آگہی
یہ جو شاعری کا شعور ہے یہ پیمبری کی تلاش ہے
متین نیازی
جیسے جیسے آگہی بڑھتی گئی ویسے ظہیرؔ
ذہن و دل اک دوسرے سے منفصل ہوتے گئے
ظہیر صدیقی
چلے تو آئے ہو تجدیدِ دوستی کے لیے.... شکیب جلالی
یہ لُطف زہر نہ بن جائے زندگی کے لیے
چلے تو آئے ہو تجدیدِ دوستی کے لیے
نحیف ضَو کو عَجب طرح تقویت دی ہے
اندھیرے ڈھونڈ کے لائے ہو روشنی کے لیے
نہ جانے ہو گیا کیوں مطمئن تمھیں پآ کر
بھٹک رہا تھا مرا دل، خود آگہی کے لیے
جنھیں خود اپنی حقیقت پہ اعتماد نہ تھا
تمھارے دَر پہ چلے آئے بندگی کے لیے
چلے تو ایسے چلے جیسے بے نیازِ مقام
رُکے تو ایسے رُکے جیسے آپ ہی کے لیے
تمھاری سہل پسندی نے ہر قدم پہ ، شکیبؔ!
نئے اصُول تراشے ہیں رَہ رَوی کے لیے
مجھ کو ملا جَہاں سے یہ انعامِ آگہی .... شکیب جلالی
سینہ ہے زَخم زخم تو ہونٹوں پہ خامشی
مجھ کو ملا جَہاں سے یہ انعامِ آگہی
بے نغمہ و صدا ہے وہ بُت خانہِ خیال
کرتے تھے گفتگو جہاں پتھر کے ہونٹ بھی
اِک تارہ ٹوٹ کر، یمِ گردوں میں کھو گیا
اک چیخ، کائنات کے دل میں اتر گئی
کتنے ہی چاند تھے اُفقِ دل پہ جلوہ گر
یادوں سے جن کی آج بھی چھنتی ہے روشنی
کیا کیا نہ یاد آئے ہیں احساں بہار کے
جب دیکھتا ہوں کشتِ غمِ دل ہری بھری
تنہائیوں کے ساز پہ بجتا ہے دیپ راگ
جس دم ہواے شب سے سُلگتی ہے چاندنی
شا خو ! بھری بہار میں رقصِ برہنگی!
مہکی ہوئی وہ چادرِ گُل بار کیا ہوئی!
وہ پھر رہے ہیں زخم بپا آج دشت دشت
قدموں میں جن کے شاخِ گلِ تر جُھکی رہی
یوں بھی بڑھی ہے وسعتِ ایوانِ رنگ و بُو
دیوارِ گلستاں درِ زنداں سے جا ملی
رعنائیاں چمن کی تو پہلے بھی کم نہ تھیں
اب کے مگر، سجائی گئی شاخِ دار بھی
احسان دانش کی مندرجہ ذیل غزل ایک اور ہی درجہ کی خود آگہی کی بات کرتی ہے؛ ذررا غور کیجیے کہ کیسا کیسا بھٹکتا ہے انسان؟
احسان دانش غزل
یہ بجا کہ حسن ہی حسن ہے مرے گرد و پیش مگر نہیں
تری آرزو کی حُدود میں کسی آرزو کا گزر نہیں
وہ کلیم تھے! جو بہل گئے تری برق زیرِ نقاب سے
جو تجلیوں سے ہو مطمئن وہ مرا مزاجِ نظر نہیں
یہ خیالِ خام نہ کر کبھی کہ غلامِ وقت ہے آدمی
تری زندگی کی بلندیاں یہ نظامِ شمس و قمر نہیں
یہ بجا کہ دِیر و حرم میں ہیں تری عظمتوں کی علامتیں
مرے دل کو اپنا یقیں دلا مجھے اعتبارِ نظر نہیں
یہ مراقبے، یہ مکاشفے، یہ مجاہدے، یہ مجادلے
تری منزلیں ہیں یہ واقعی؟ یامجھے شعورِ سفر نہیں
یہ ہجومِ لالہ چمن چمن، یہ گھٹا میں برق کا بانکپن
ہو سُجودِ شوق میں رُخ کدھر؟ تری جلوہ گاہ کدھر نہیں
مری جستجو کی رسائیاں ہیں ترے حدودِ جمال تک
مجھے دو جہاں سے غرض ہی کیا مری دو جہاں پہ نظر نہیں
مرے سجدہ ہائے دل و نظر ہیں خراب کب سے اِدھر اُدھر
مجھے اس قدر تو پتا چلے کہ کدھر ہیں آپ کدھر نہیں
یہ قیام گاہ کا ہے اثر کہ مآل پر بھی نظر نہیں
ہے سفر کا وقت قریب تر مگر اہتمامِ سفر نہیں
مجھے بزم خوب کہے تو کیا مجھے دادِ شعر ملے تو کیا
تری آرزو کا یہ کمال سب مری شاعری کا ہنر نہیں
یہ چمن یہ دانشِ بے نوا، جو گِھرا ہے ابر شرر فشاں
کسی سامری کا ہے شعبدہ، یہ سحر تو میری سحر نہیں