ہماری زمین پر مون سون کا موسم ساون اور بھادوں ک مہینہ ہوتا ہے۔ برسات کا موسم آتا ہے تو چاروں طرف خوشیاں اور ہریالی چھا جاتی ہے۔ ساون بھادوں کا موسم اپنے اندر حزن و ملال اور رجائیت دونوں جہات رکھتا ہے اور ماہِ ستمبر میں یہ اختتام پزیر ہوتا ہے۔ یہ مضمون " بادل و بارش اور ستمبر کا ستارہ " برسات اور اس کے بعد آنے والے خزاں کی آمد سے متعلق لکھا گیا ہے۔ یہ تحریر آزاد ویب نیٹ پر موجود مختلف ذرائع سے دستیاب مواد کی مدد سے مرتب کی گئی ہے۔
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
بادل، بارش کا موسم اور ماہِ ستمبر کا ستارہ
ہم جس زمین پر رہتے ہیں یہ کرہ ارض نظامِ شمسی کا واحد سیارہ ہے جس پر زندگی ہنس کھیل رہی ہے اور زندگی کا سب سے بڑا مظہر اولادِ آدم اس زمین پر نیرنگی کو بڑھا رہی ہے۔ مگر وقت کا گھوڑا کسی کے قابو میں نہیں اور وہ سرپٹ بھاگا جارہا ہے۔ وقت کبھی نہیں رکتا، اور اس وقت سے بندھا موسم بھی جو اس زمین کا زیور ہے اور جو اس کے حسن کو نکھارتا ہے۔ کبھی موسم بہار بن کر، پھر موسم گرما ہوکر یا برسات کی میگھا برس کر ہر طرف جل تھل کردیتا ہے اور سب طرف ہرا ہی ہرا ہوجاتا ہے۔اور پھر خزان کا موسم آن وارد ہوتا ہے تو عالم شجر سب روپ سنگھار اتار کر برف کی چادر پہن لیتے ہیں اور خاموشی سے سرد موسم میں نئے مولود پنکھڑیوں کی آمد کا انتظار کرتے ہیں۔
برسات کا موسم گنگھور گھٹاوں، سرمئی بادلوں، سنسناتی ہواوں کے شور کے ساتھ طوفانی بارشوں کا موسم ہوتا ہے؛ خاص طور پر برصغیرِ پاک و ہند کی قطعہ زمین پر یہ میگھا بن کر نا صرف زمین کو جل تھل کردیتا ہے مگر ساتھ ساتھ انسانی جزبات کو بھی مہمیز کردیتا ہے۔ موسمِ برسات میں کی گئی کوئی سرگوشی، کوئی مسکراہٹ ، کوئی قہقہہ، کہیں سناٹے کی خاموشی اور کہیں منتظر آنکھوں میں ٹپکتے آنسو، ہر طرف سبزے کی بہتات میں پھولوں کے گجروں سے سجی کلائیاں اور جوڑے اور کہیں انہیں پھولوں کی مہک سے یادوں کی بارات میں سلگتی آندھیاں تمام عمر کے زندہ لمحوں میں زندگی کا سبق پڑھاتی ہیں۔
زندگی ہردم رواں ہے اور انسانی دماغ و دل یادوں کی آماجگاہ۔ عمر بڑھتی جاتی ہے اور یادوں کی پرانی تہوں پر نئی یادیں سجتی رہتی ہیں۔ زندگی اتنا تیز دھارا ہے کہ پیچھے مڑ کر پرانی یادوں سے دل لبھانا ایک مشکل عمل ہوتا ہے، مگر شاید برسات میں جہاں سبزہ خوب اگتا ہے وہیں پرانی یادیں بھی کچھ زیادہ ہی عود کر آتی ہیں۔ سو اگر کبھی زندگی تنہا ہوجائے تو کہیں رک کر بیٹھ جایا جائے تو یقینا" گزری زندگی کی حسین لمحات مسکراتے ہوئے ذہن کو گدگدا جائیں۔ اور برسات کی یادیں تب مزا دینگی جب برستے ساون میں امڈتی بوندوں کو اپنے چہرے پر محسوس کیا جائے۔
خدائے بزرگ و برتر آسمان سے بارش ایک نعمت بناکر زمین پر برسا کر پھر زندہ کردیتا ہے؛ ہر اس شے کو جو خود کو اس پانی سے تروتازہ کرتا ہے۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ برستی بارش کی بوندیں مٹی کو مہکا دیتی ہے اور مٹی پانی سے گوندھی جاتی ہے۔ اولادِ آدم مٹی کے جسم والے ہیں اور ساون کی بارشیں اس کے تن و من کو تروتازہ کردیتی ہیں اور اس کی روح کو سرشار کردیتی ہیں ۔ تو یہاں سوال بنتا ہے کہ ہم بارش کا مزا کس طرح لیتے ہیں؟
اولادِ آدم کی جون مٹی ہے اور مٹی کا رنگ الگ الگ ہے؛ سو انسان کی عادتیں اور چاہتیں بھی مختلف ہیں۔ ہم بارش کا لطف یا تو بھیگ کر لیتے ہیں؛ کھلے آسمان کے نیچےچھما چھم برستی بوندوں کے سنگ ناچتے گاتے ہوئے۔ یا پھر جھروکے یا چوبارے، یا بالکنی میں بیٹھ کر گرتی ہوئی بوندوں اور کڑکتی بجلیوں سےچمک دار آسمان کو دیکھ کر صرف مست ہوا کے سنگ پھرتی آوارہ بوندیں پاکر۔ ہم بارشوں کو قدرت کی مہربانی اور نعمت سمجھ کر ہر عمر میں شکر ادا کرسکتے ہیں؛ مگر قدرت کی فیاضی کا بہترین شکر ہم شاید صرف بچپن ہی میں ادا کرتے ہیں۔
بچے نا امیر ہوتے ہیں اور نا ہی غریب؛ وہ صرف بچے ہوتے ہیں اور بارشیں خوشی کا باعث ہوتی ہیں اور بچے رنگ و نسل؛ ذات پات اور دیگر تفریق سے متاثر ہوئے بغیر قدرت کی فیاضی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ ساون کی مستی سے کھیلتے ہیں اور اس کی رعنائی سے اٹھکیلیاں کرتے ہیں۔ ساون جب بپھرتا ہے اور گلیوں میں پانی بہنے لگتا ہے تو بچوں کو کئی کھیل مل جاتے ہیں۔ کس کی چھت ٹپک پڑی اور کس کا بسترا گیلا ہوا؛ بچپن کی شرارتوں کو کیا معلوم؟ ہم اپنے بچپن کی معصومیت کو عمر بھر ساتھ کیوں نہیں رکھ سکتے؟
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ قدرت ہر سال ایک مستند منصوبےکے تحت ہمیں کیسے آتے جاتے موسموں سے نوازتا ہے۔ یہ قدرت کی فیاضی اس کرہ ارض پر ایک بے بہا نعمت ہے۔ اور یہ سارا معاملہ قدرت کی صناعی کا شاہکار ہے۔ ہماری زمین سورج دیوتا کا سیارہ ہے اور اس کے گرد رقص میں ہے اور ساتھ ساتھ خود اپنے محور میں بھی جھوم رہی ہے اور جھومتے ہوئے کبھی آگے کو جھکتی ہے اور کبھی پیچھے کو۔ یہ زمین جب رقص کرتے ہوئے فضائے بسیط کے ایک ایسے حصے میں پہنچتی ہے جو بلند آسمانوں سے اترنے والے زندگی بخش رازوں کا حامل ہوتی ہیں تو زمین سیدھی ہوجاتی ہے [ اسے بہاریہ ایکوینوکس یا موسم بہار کا سماوی کہتے ہیں اور یہ 21 مارچ کو ہوتا ہے] اور ان رازوں کو وصول کرکے جھک کر شکر کرتی ہے تو شمالی کرہ ارض پر گرمیوں کو موسم آجاتا ہے اور جںوبی کرہ پر سردیاں۔ زمین ایک جانب تین ماہ جھکی رہتی ہے۔ سمر سولسٹیس 21 جون کو ہوتا ہے۔ چھ ماہ بعد یہی عمل پھر الٹایا جاتا ہے اور زمین خزاں کے موسم میں داخل ہوجاتی ہے۔ [ یہ خزاں ایکوینوکس یا موسم خزاں کا سماوی کہتے ہیں اور یہ 22 ستمبر کو ہوتا ہے]۔ موسم خزاں کا سماوی جھکاو اپنی انتہاء کو 21 دسمبر کو ہوتا ہے؛ جسے ونٹر سولسٹیس کہا جاتا ہے۔
آج ہمارے لیے بہت سی باتیں کرنا اور سمجھنا آسان ہے کہ سائنس کی ترقی نے کچھ علم عام کردیا ہے؛ اس لیے ہم یہ نہی دیکھتے کہ آسمان پر تارے کیا کہتے ہیں؟ مگر پچھلے وقتوں میں ہمارے بزرگ آسمانوں کے رازوں سے زیادہ واقف تھے۔ آسمان پر ہر روز رات کو لاکھوں ستارے جگمتاتے ہیں؛ مگر ان میں کچھ خاص ہوتے ہیں۔ اور کچھ خااص دنوں ہی میں دکھتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ستارا ستمبر کی مہینے میں بلند ہوتا ہے۔ یہ ستارہ پچھلے وقتوں انسانوں کے لیے اشارہ ہوتا تھا کہ اب گرمیاں اختتام پذیر ہیں اور سردیاں آنے والی ہیں۔ ہندوستان کے رہنے والےماہ و سال کا حساب موسموں کی گنتی سے رکھتے تھے۔ وسط ستمبر سے آسو کا مہینہ شروع ہوتا ہے۔
آج آسو کو شروع ہوئے ہفتہ گذر گیا ہے۔ اسو کے مہینے میں موسم کی رت بدلنے لگتی ہے جیٹھ اور ہاڑ کی شدید گرم راتوں اور مون سون کے مہینے ساون اور بھادوں کی برساتوں کے بعد دن تو گرم ہی رہتے ہیں مگر شامیں خنک ہوجاتی ہیں، راتیں معتدل ہو جاتی ہیں اور رات گئے اوس پڑنے لگتی ہے۔ اگر آپ کے لیے شب ذات کی آگہی کا سامان مہیا کرتا ہے تو یقین کیجیے کہ ستمبر کا ستارہ آپ کو مناسب ساتھی ملے گا۔ یہ بھید بھری راتوں کا آغاز ہوتا ہے۔ کچھ وقت آسمان کے نیچے گزاریے تو دیکھیے گا کہ شب کے بدلتے رنگ اور کیفیتیں کیا ہوتی ہیں؟ آسمان جامد ستاروں سے بھرا ہوتا ہے اور متحرک سیارے مسلسل قلانچیں بھرتے اپنی منزلوں کو جانب رواں دواں ہوتے ہیں۔ یہ سب کشاں کشاں اپنے اپنے سورج کے ساتھ کسی گردش میں ہیں۔ سب ہی رقص میں ہیں۔ قدرت کے بھید عجیب ہیں؛ قدرت کی نشانیاں بے شمار ہیں اور ان میں چشم بینا کے لیے بہت فکر و تدبر کا سامان موجود ہے۔
انسان حیوانِ ناطق ہے اور اسکا اعزاز ہے کہ وہ اپنے جزبات، احساسات، تجربات، فکر و خیال، عقل و دانش کا اظہار کرسکتا ہے۔ انسان نے اپنے اظہار کے لیے کئی جہتیں اپنا لی ہیں۔ شاعری بھی ایک ایسا ہی اظہار کا راستہ ہے؛ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انسانوں نے بدلتے موسموں پر کوئی اظہار نا کیا ہو۔ ادیبوں اور شاعروں نے بھی اپنی اپنی زبانوں میں بدلتے موسموں پر خوب کاوشیں اور اشعار کہہ رکھے ہیں اور مسلسل کہے جارہے ہیں۔
مون سون کے مہینے ساون اور بھادوں میں قدرت کی نعمتوں پر غور کی عادت اپنائیں اور ذرا دھیان دیں تو ہم جانیں گے کہ کیسے فلک سے بوندیں زمین پر اترتی ہیں تو لگتا ہے کہ زمین پر کسی سجنی کے پازیب کے دھن پرگنگنا رہی ہوں؟ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بجلی کڑکتی ہے اور بادل پھٹ جاتے ہیں اور میگھا دھنا دھن برسنے لگتا ہے تو ہوا سنساتی ہوئی ایسے گیت سناتی ہے کہ کہیں دور ایک ساجن بانسری بجا رہا ہو اور اس کی دل کی دھڑکن ہوا کے سنگ کہیں دور کے سفر پر ہو۔ کیا آپ نے ایسی برسات میں چھت پر؛ امبا کے باغوں میں، کھیت کھلیانوں میں برسات کے پھول رنگ بکھیرتے دیکھے ہیں؟ اگر نہیں تو اگلی برسات میں دیکھیے گا کہ کیسے لڑکیاں، بالیاں اور سہاگنیں گھٹا دیکھ کر خوش ہوتی ہیں؟
سو کیا آپ نے ایسی شاعری پڑھی ہے جو صرف برسات ہی نہیں بلکہ بے موسم بھی برسات کا مزہ دیتی ہو؟ یہاں آپ کے لئے ایسی ہی شاعری پیش کر رہے ہیں جو موسمِ برسات اور ماہِ ستمبر کے موضوع پر ہیں۔
ہر طرف پھول کھلے رنگ کے بادل برسے
اے سہیلؔ اس کی نگاہوں نے سجایا ساون
سہیل کاکوروی
دفتر سے مل نہیں رہی چھٹی وگرنہ میں
بارش کی ایک بوند نہ بیکار جانے دوں
اظہر فراغ
میں وہ صحرا جسے پانی کی ہوس لے ڈوبی
تو وہ بادل جو کبھی ٹوٹ کے برسا ہی نہیں
سلطان اختر
تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے
جمال احسانی
اوس سے پیاس کہاں بجھتی ہے
موسلا دھار برس میری جان
راجیندر منچندا بانی
لاکھ چاہا نہ ملی پیار کی پیاسی آغوش
گھر کی دیوار سے سر پھوڑ کے رویا بادل
چھا گیا سر پہ مرے گرد کا دھندلا بادل
اب کے ساون بھی گیا مجھ پہ نہ برسا بادل
نشتر خانقاہی
نذیر بنارسی کی غزل
کتنی شرمیلی لجیلی ہے ہوا برسات کی
ملتی ہے ان کی ادا سے ہر ادا برسات کی
اب کی بارش میں نہ رہ جائے کسی کے دل میں میل
سب کی گگری دھو کے بھر دے اے گھٹا برسات کی
جیب اپنی دیکھ کر موسم سے یاری کیجئے
اب کی مہنگی ہے بہت آب و ہوا برسات کی
ہم تو بارش میں کھلی چھت پر نہ سوئیں گے نذیرؔ
آپ تنہا اپنے سر لیجے بلا برسات کی
سہیل کاکوروی کی غزل " برسات " ۔
خوب بادل کا برسنا پیار ہے برسات میں
رحمتوں کا اس طرح اظہار ہے برسات میں
عرش سے آیا زمیں میں جذب پانی ہو گیا
آپ کو آنے میں ہم تک آ رہے برسات میں
اے سہیلؔ اس کو ذرا کھل کر برسنا چاہیے
احتیاط حسن دل دل بار ہے برسات میں
جوش ملیح آبادی کی نظم " ساون کے مہینے"۔
فردوس بنائے ہوئے ساون کے مہینے
اک گل رخ و نسریں بدن و سرو سہی نے
ماتھے پہ ادھر کاکل ژولیدہ کی لہریں
گردوں پہ ادھر ابر خراماں کے سفینے
مینہ جتنا برستا تھا سر دامن کہسار
اتنے ہی زمیں اپنی اگلتی تھی دفینے
اللہ رے یہ فرمان کہ اس مست ہوا میں
ہم منہ سے نہ بولیں گے اگر پی نہ کسی نے
وہ مونس و غم خوار تھا جس کے لیے برسوں
مانگی تھیں دعائیں مرے آغوش تہی نے
گل ریز تھے ساحل کے لچکتے ہوئے پودے
گل رنگ تھے تالاب کے ترشے ہوئے زینے
بارش تھی لگاتار تو یوں گرد تھی مفقود
جس طرح مئے ناب سے دھل جاتے ہیں سینے
دم بھر کو بھی تھمتی تھیں اگر سرد ہوائیں
آتے تھے جوانی کو پسینے پہ پسینے
بھر دی تھی چٹانوں میں بھی غنچوں کی سی نرمی
اک فتنۂ کونین کی نازک بدنی نے
گیتی سے ابلتے تھے تمنا کے سلیقے
گردوں سے برستے تھے محبت کے قرینے
کیا دل کی تمناؤں کو مربوط کیا تھا
سبزے پہ چمکتی ہوئی ساون کی جھڑی نے
بدلی تھی فلک پر کہ جنوں خیز جوانی
بوندیں تھیں زمیں پر کہ انگوٹھی کے نگینے
شاخوں پہ پرندے تھے جھٹکتے ہوئے شہ پر
نہروں میں بطیں اپنے ابھارے ہوئے سینے
اس فصل میں اس درجہ رہا بے خود و سرشار
میخانے سے باہر مجھے دیکھا نہ کسی نے
کیا لمحۂ فانی تھا کہ مڑ کر بھی نہ دیکھا
دی کتنی ہی آواز حیات ابدی نے
ساحر لدھیانوی کا برسات پر لکھا فلمی گیت
زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات
ایک انجان حسینہ سے ملاقات کی رات
ہائے وہ ریشمیں زلفوں سے برستا پانی
پھول سے گالوں پہ رکنے کو ترستا پانی
دل میں طوفان اٹھائے ہوئے جذبات کی رات
زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات
ڈر کے بجلی سے اچانک وہ لپٹنا اس کا
اور پھر شرم سے بل کھا کے سمٹنا اس کا
کبھی دیکھی نہ سنی ایسی طلسمات کی رات
زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات
سرخ آنچل کو دبا کر جو نچوڑا اس نے
دل پہ جلتا ہوا اک تیرا سا چھوڑا اس نے
آگ پانی میں لگاتے ہوئے حالات کی رات
زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات
میرے نغموں میں جو بستی ہے وہ تصویر تھی وہ
نوجوانی کے حسیں خواب کی تعبیر تھی وہ
آسمانوں سے اتر آئی تھی جو رات کی رات
زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات
ماہِ ستمبر پر لکھی ایک نظم جس کے شاعر نامعلوم ہیں
اسےکہنا ستمبر جا رہا ہے
شامیں سہانی لگنےلگی ہیں
دهوپ کی تپش ٹھنڈی ہو رہی ہے
پرندوں کی ہجرت___پرتول رہی ہے
دل بےوجہ اداس رہنےلگا ہے
ہر آہٹ پہ چونکتا ہے
انگوروں کےپتےلال ہوکرجھڑنےلگے ہیں
بادل، بارش، کالی گھٹا شرارت چھوڑ چکی ہے
ہوا میں دهوپ اور ساون کی نمی ہے
گلاب تھک رہے ہیں
موسمی پودے کیاریوں میں ڈه رہے ہیں
شاید نئی پنیریاں لگنےکا موسم آگیا ہے
کہ ستمبر جا رہا ہے
Ode To Autumn by John Keats
آتے خزاں پر ایک نظم از جان کیٹس
دھند اور بے ثمر پھلنے پھولنے کا موسم؛
پختہ سورج کا قریبی دوست؛ کہ جس کے سنگ
کاوش کروکہ کس کو بار آوری کی برکت دی جائے۔
پھلوں کے ساتھ وہ بیلیں جو چھاڑ کے چاروں طرف چلتی ہیں؛
سیب کے درختوں کے درمیان جھونپڑی سے لپٹتے ہوئے؛
اور جب تمام پھلوں کو رس سے بھر دیں؛
لوکی کو زیادہ پھاگن کرنے، اور ہیزل کے چھلکوں کو تڑکانے کو؛
دانے دانے میں مزید مٹھاس بھرنے کے واسطے؛
اور شہد کی مکھیوں کے لیے اگتے ہیں بےشمار پھول؛
یہاں تک وہ یہ سوچیں کہ گرم دن کبھی ختم نہیں ہونگے؛
کیونکہ موسم گرما میں ان کے چھتے مکمل بھر گئے ہیں۔
کس نے ان کو ان خزانوں کے درمیان اکثر نہیں دیکھا؟
اگر کبھی آپ نے گھر سے دور انکو تلاش کرتا دیکھا ہے۔
غلہ کے دھیڑ پر بے فکر بیٹھے ہوئے؛
تیرے بال تیز ہوا سے نرمی سے آڑتے ہوئے؛
یا آدھے کاٹے ہوئے کھردری کھال پر سویاہوا؛
پوست کے ڈوڈوں میں دانت گاڑے، نشے میں ڈوبے ہوئے؛
اگلی جھاڑی اور اس کےسارے پھولوں کو چھوڑ کر آگے چل دینا؛
اور کبھی کبھار ایک ہوشیار صفائی پسند کی طرح؛
اپنے لدے ہوئے سر کو نالے کے پار جاؤ۔
یا سیب کے رس پر؛ صبر کے ساتھ؛
آپ وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ پھسلتے ہیں۔
بہار کے گیت کہاں ہیں؟ ارے وہ کہاں ہیں؟
اس کے بارے میں مت سوچو، آپ کے پاس اپنی موسیقی بھی ہے؛
جب سرمئی بادل ختم ہونے والے دن کو روشن کردیتے ہیں؛
اور فصل کٹے میدانوں میں گلابی رنگت اتر آتی ہے؛
پھر چھوٹے مچھواڑے آہ و زاری سے ماتم کرتے ہیں؛ دریائی پروانوں کے درمیان،
ہلکی ہوا کے ساتھ بلند ہوتے یا ڈوبتے ہوئے۔
اور پورے بڑھے ہوئے بھیڑ کے بچے پہاڑی سے بلند آواز سے گونجتے ہیں۔
جھاڑیوں سے جھینگر گاتے ہیں؛ اور
گارڈن کرافٹ سے سرخ چھاتی والی چڑیاں ہلکی سیٹیاں بجاتی ہیں؛
اور اکھٹی ہوئی فاختائیں آسمان پر کلکاریاں مارتی ہیں۔
Unharvested by Robert Frost
رابرٹ فراسٹ کی نظم " فصل جو کاٹی نہی جائے "۔
دیوار کے پیچھے سے پکے ہوئے کی خوشبو؛
اور آزمودہ سڑک کو چھوڑ کر جو آسکو تو آؤ؛
اور دیکھو کس چیز نے مجھے روکا تھا،
وہاں، یقیناً ایک سیب کا درخت تھا۔
اس نے اپنے گرمیوں کے بوجھ کو آزاد کر دیا تھا۔
اب اس کے پاس کچھ بھی نہی سوائے چند معمولی کونپلوں کے؛
اب وہ سانس لے رہا ہے ایک خاتون کے پنکھے کی طرح؛
کیونکہ وہاں سیبوں کا سیلاب آیا تھا؛
بالکل ایسے مکمل جیسے سیب انسان کو ملا تھا۔
زمین ٹھوس سرخ رنگ کا ایک دائرہ تھا۔
کوئی تو فصل ہو جو ہمیشہ کاٹی نا جائے!
کاش بہت کچھ ہمارے بیان کردہ منصوبے سے محفوظ رہ سکیں،
جیسے سیب یا کوئی اور شے جسے ہم بھول جائیں؛
تو ان کی مٹھاس سونگھنا کوئی چوری نہیں ہو گا۔