جون گرمیوں کا مہینہ ہے۔ مادر فطرت ہمیں سال بھر میں لامحدود انعامات اور تحائف مہیا کرتی ہے اور جون کا مہینہ بھی ایسا ہی ایک دور ہے۔ موسم گرما روایتی طور پر بادِ سموم یا گرم موسم سے وابستہ ہے اور دنیا بھر میں تعلیمی اداروں میں اس دوران چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ یہ مضمون مادرِ قدرت کی ان نعمتوں کے بارے میں ہے جو جون کے مہینے میں عطا کی جاتی ہیں۔
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
ہائے گرمی؛ جون آیا چھٹیاں لایا
جون گریگورین کیلنڈر کا چھٹا مہینہ ہے اور اس کا نام رومی دیوی جونو کے نام پر رکھا گیا ہے، جو مشتری کی بیوی اور شادی اور بچے کی پیدائش کی دیوی ہے۔ اصل اصطلاح "جون" کا مطلب لاطینی لفظ سے "نوجوان" ہے۔ جون تازگی، خوشی، خوشی، خواہشات اور خواہشات کا مہینہ ہے۔ جون کے مہینے کی اپنی پہچان ہے۔جون کے سورج کی روشنی ایک نعمت ہے۔
برصغیر ہند و پاک میں موسم گرما روایتی طور پر شدید گرمی کا موسم ہوتا ہے۔ گرمیوں میں سورج زیادہ وقت کو چمکتا ہے اور سورج جتنا زیادہ چمکتا ہے، اتنا ہی گرم ماحول کو کر دیتا ہے۔ سورج کی شعاعیں بھی گرمیوں میں زمین پر کھڑی زاویہ سے ٹکراتی ہیں جس سے ایک علاقے پر مرکوز شمسی توانائی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور گرمی کی شدت میں اضافہ کرتا ہے۔ موسم گرما کی چوٹی جون کا مہینہ ہے، کیونکہ یہ موسم گرما کے سالسٹیس کو نشان زد کرتا ہے، جو سال کا طویل ترین دن ہے (21 جون)۔ یہ شمالی نصف کرہ میں سورج کی روشنی اور گرمی کی کثرت کے لیے شمار کیا جاتا ہے۔
گرمی سی یہ گرمی ہے
مانگ رہے ہیں لوگ پناہ
عبید صدیقی
اس وقت کہاں تو ہوتا ہے جب موسم گرما کا سورج
دوزخ کی تپش بھر دیتا ہے دریاؤں میں کہساروں میں
معین احسن جذبی
ہوتا یوں ہے کہ سورج میاں غصّے میں آگ برساتے ہیں۔ طلوعِ سورج ہی سے درجۂ حرارت بڑھنا شروع ہوجاتا ہے اور ابھی صبح کا ناشتہ بھی مشکل سے ختم ہوتا ہے کہ تمازت چلچلانا شروع کر دیتا ہے اور دن چڑھنے کے بعد تو بس ہی ہوجاتی ہے۔ گرم کا احساس انسان ہی نہیں کرتے؛ دھوپ سے آنگن، بالکونیاں، چھتیں، دَر و دیوار تک تپ جاتے ہیں۔ اور یہ شدت شام گئے تک بھی کم نہیں ہوتی۔ ان جزبات کو دیکھتے ہوئے ہی شاید کہا گیا ہے کہ
شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے
ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے
راحت اندوری
یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشان کرے گی
کیوں ڈھونڈ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ
اطہر نفیس
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانا زمین پر
میر انیس
گرمی کی شدّت فصلوں، پھلوں کے پکنے اور رزق تیار ہونے کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ زمین پاکستان جہاں ہم بستے ہیں میں یہ گرمی ہمارے پھلوں کے بادشاہ آموں کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔ آموں میں رس اور ذائقہ سورج کی تمازت سے پیدا ہوتی ہے؛ جب وہ سارا دن تپتے سورج کی گرمی میں جلتے رہتے ہیں اور پھر آسمان سے برسا پانی اس کو امر کر دیتا ہے؛ جب انکے اندر دل کو لبھانے والے مہک، خوشبو اور مزا کو پیدا کرتا ہے۔
دھوپ کی گرمی سے اینٹیں پک گئیں پھل پک گئے
اک ہمارا جسم تھا اختر جو کچا رہ گیا
اختر ہوشیارپوری
شاعر کا جسم ہوسکتا ہے کہ کچا رہ گیا ہو مگر پاکستان میں موسمِ گرما کے پھل بکثرت دست یاب ہوتے ہیں اور اس کی بڑی وجہ سورج کی شدت بھری کرنیں ہوتی ہیں۔ قدرت اتنی مہربان ہے کہ ہر سڑک کنارے بے شمار پھلوں سے بھرے ٹھیلےنظر آتے ہیں۔ آم، جامن، آلوچے، خوبانی، آلو بخارا، آڑو، تربوز، خربوزہ، سردا، گرما، امرود الغرض نعمتِ خداوندی کی بھرمار ہوتی ہے۔ اسی طرح گرمی کی اس آگ سے متعدد سبزیوں سے بھی بازار سج جاتے ہیں۔
گرمی جو آئی گھر کا ہوا دان کھل گیا
ساحل پہ جب گیا تو ہر انسان کھل گیا
خالد عرفان
جون کی گرمی بھی اک آگ لگاتی ھے مگر
ہائے وہ دل کا دسمبر میں سلگتے رہنا۔۔۔
تو جون کی گرمی سے نہ گھبرا کہ جہاں میں
یہ لُو تو ہمیشہ نہ رہی ہے نہ رہے گی
شریف کنجاہی
محمد علوی نظم " گرمی"۔
رات اب سیانی ہو گئی ہے
گڑیا کھو جائے
تو روتی نہیں!
بخار میں مبتلا
بوڑھے آسمان میں
اتنی بھی سکت نہیں
کہ اٹھ کر وضو کرے
سورج خوں خوار بلے کی طرح
ایک ایک چیز پر
اپنے ناخن تیز کرتا ہے!
ہوا کا جھونکا
چوہے کی مانند
بل سے باہر آتے ڈرتا ہے!
وقت آج کل
دوزخ کے آس پاس سے گزرتا ہے!
جناب فہیم جوگاپوری کی غزل جس میں سورج کو بطور استعارا استعمال کرکے کیا خوبصورت اظہار کیا گیا ہے
کیا کرو گے بچاؤ سورج کا
جانتے ہو سبھاؤ سورج کا
گرم ہے وہ تو کم نہیں ہم بھی
کون سہتا ہے تاؤ سورج کا
میرے گھر کا چراغ بجھتے ہی
چڑھ گیا کتنا بھاؤ سورج کا
سرمئی شام آئے کمرے میں
اب تو پردہ ہٹاؤ سورج کا
رات سے جنگ کر کے آیا ہے
تازہ تازہ ہے گھاؤ سورج کا
ملنے جاتا ہے رات سے چھپ کر
اک فسانہ بناؤ سورج کا
آسمانوں سے دوستی کر کے
بڑھ گیا ہے تناؤ سورج کا
ہو گئی شام سوچتے کیا ہو
اب جنازہ اٹھاؤ سورج کا
رات بھر منہ چھپائے پھرتا رہا
کم نہیں پھر بھی تاؤ سورج کا
روز دریا کنارے بیٹھ کے ہم
جوڑتے ہیں گھٹاؤ سورج کا
جگنوؤں سے مقابلہ تھا فہیمؔ
کون کرتا بچاؤ سورج کا
ایک نامعلوم شاعر کی موسم گرما سے متعلق نظم پیش کی جاتی ہے
دیکھو موسم گرمی آیا
دیکھو موسم گرمی آیا
فطرت نے سردی کو بھگایا
دھوپ نے یہ ہم کو ہے بتایا
پھر گرمی کا موسم آیا
کیسی فضاؤں میں ہے حدّت
توبہ ، یہ گرمی کی شدّت
گلشن میں ہر گل کملایا
پھر گرمی کا موسم آیا
آم لگے ہیں پیلے پیلے
کتنے میٹھے اور رسیلے
اس پھل نے ہے دل کو لبھایا
پھر گرمی کا موسم آیا
بھاپ سے اب بنتے ہیں بادل
کر دیں گے برسات میں جل تھل
قدرت نے کیا کھیل دکھایا
پھر گرمی کا موسم آیا
دھوپ سے کرتی ہیں اب نفرت
چھاؤں سے ہے سب کو اُلفت
موسم کی پلٹی ہے کایا
پھر گرمی کا موسم آیا
دھوپ سے اب تپتا ہے میداں
گرمی سے ہے پھول پریشاں
ملتا نہیں میداں میں سایا
پھر گرمی کا موسم آیا
نظم جناب اسماعیلؔ میرٹھی " گرمی کا موسم"۔
مئی (جون) کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینا
بجے بارہ تو سورج سر پہ آیا
ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایا
چلی لو اور تڑاقے کی پڑی دھوپ
لپٹ ہے آگ کی گویا کڑی دھوپ
زمیں ہے یا کوئی جلتا توا ہے
کوئی شعلہ ہے یا پچھوا ہوا ہے
در و دیوار ہیں گرمی سے تپتے
بنی آدم ہیں مچھلی سے تڑپتے
پرندے اڑ کے ہیں پانی پہ گرتے
چرندے بھی ہیں گھبرائے سے پھرتے
درندے چھپ گئے ہیں جھاڑیوں میں
مگر ڈوبے پڑے ہیں کھاڑیوں میں
نہ پوچھو کچھ غریبوں کے مکاں کی
زمیں کا فرش ہے چھت آسماں کی
نہ پنکھا ہے نہ ٹٹی ہے نہ کمرہ
ذرا سی جھونپڑی محنت کا ثمرہ
امیروں کو مبارک ہو حویلی
غریبوں کا بھی ہے اللہ بیلی
آئیے ذرا کچھ لمحوں کو مغربی یورپی دینا کی موسم گرما سے متعلق شاعری پر نگاہ کرتے ہیں۔
ذیل میں رابرٹ لوئس سٹیونسن کے قلم سے ایک نظم " گرمیوں کا سورج" کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے
گرمیوں کا سورج : رابرٹ لوئس سٹیونسن کے قلم سے
سورج عظیم ہے، اور وہ چلتا ہی جاتا ہے؛
بیکراں خالی وسعتوں میں، آرام کے بغیر؛
اور نیلے چمکتے دنوں میں؛
وہ بارش سے زیادہ موٹی، اپنی کرنیں برساتا ہے۔
اگرچہ ہم نے کیسا پردہ کھینچ لایا ہو؛
زیرِ سایہ پارلر کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے
پھر بھی وہ ایک دو نفق ڈھونڈ لیتا ہے؛
اپنی سنہری انگلیاں اندر تک پھسلا دیتا ہے۔
وہ دھول دار اٹاری مکڑی پوش کو
چابی کے سوراخ کے ذریعے، نہال کر دیتا ہے؛
اور ٹائلوں کے ٹوٹے ہوئے کنارے کے ذریعے
سیڑھی والی گھاس کو مسکراہٹ دیتا ہے۔
اس دوران اس کا سنہری چہرہ ادھر ادھر
باغ کی تمام زمین کو نہلا دیتا ہے
اور اسے ایک گرم اور چمکدار نظارا دیتا ہے۔
آئی وی سب اندرونی کونوں کے درمیان۔
پہاڑیوں کے اوپر سے، نیلے گگن کے ساتھ؛
ہوا کے سنہرے دوش پہ؛ مضبوط قدموں کے ساتھ؛
بچے کو خوش کرتا ہوا، گلاب کو رنگین کرتا ہوا؛
دنیا کا باغبان، وہ جاتا ہے۔
ذیل میں اینیٹ وین کے قلم سے لکھی ہوئی نظم " جون کو کیوں بنایا گیا؟" پیش کیا جاتا ہے
اینیٹ وین" کی نظم " جون کو کیوں بنایا گیا؟"
جون کو کیوں بنایا گیا؟—کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں؟
جون خوشی کے لیے بنایا گیا تھا!
یہ بات درخت بھی جانتے ہیں، اور
ہوا کا جھونکا بھی؛
جو اٹھکیلیا کرنا پسند کرتا ہے۔
سارا دن باہر؛
اور کبھی بھی زیادہ زور آور یا کھردرا نہیں ہوتا؛
کچھ کچھ مارچ کی ہوا کی طرح، لیکن اک ہلکے تھپیڑے کے ساتھ۔
اور یہ راز سارا کھلیان جانتا ہے۔