اولمپک کھیل؛ تیز تر، بلند تر، مضبوط تر
انسانی تاریخ میں اولمپک کھیلوں سے متعلق اگر ایک حقیقت بیان کی جاسکتی ہے تو وہ محض اتنا ہے کہ یہ جدوجہد، کشمکش اور مقابلہ اعلان ہے انسان کی " تیز تر، بلند تر، مضبوط تر" کی تلاش کا کہ کون ہے جو آج کا ستارہ ہے؛ جو عام انسانوں کی صف سے اٹھ کر یونانیوں کے آسمانی دیوتاوں کی قطار میں شامل ہوسکتا ہے؟ یہ کھیل دراصل انسانی جسمانی طاقت اور کارکردگی کا مقابلہ اور اظہار ہے۔ اولمپک کھیل کا مقصد اس زمین پر بسنے والے سارے انسانوں میں" تیز تر، بلند تر، مضبوط تر اور باہم ساتھ ساتھ" کی تلاش اور تحسین ہے۔ یہ تحریر پیرس 2024 میں پاکستان کے ارشد ندیم کی تاریخی کامیابی پر ایک تبصرہ ہے۔
2024-08-11 15:31:53 - Muhammad Asif Raza
اولمپک کھیل؛ تیز تر، بلند تر، مضبوط تر
انسانی تاریخ کی ماضی کی داستان، کہانیاں اور قصے بہت پرانی نہیں ہیں کیونکہ ہمارے پاس ان سے متعلق زیادہ حقائق نہیں ہیں۔ مگر اولمپک کھیلوں سے متعلق اگر ایک حقیقت بیان کی جاسکتی ہے تو وہ محض اتنا ہے کہ یہ جدوجہد، کشمکش اور مقابلہ اعلان ہے انسان کی " تیز تر، بلند تر، مضبوط تر" کی تلاش کا کہ کون ہے جو آج کا ستارہ ہے؛ جو عام انسانوں کی صف سے اٹھ کر یونانیوں کے آسمانی دیوتاوں کی قطار میں شامل ہوسکتا ہے؟ یہ کھیل دراصل انسانی جسمانی طاقت اور کارکردگی کا مقابلہ اور اظہار ہے۔
جدید اولمپک کھیلوں کی روح کی وضاحت بھی اسی لاطینی نعرے سے کی جاتی ہے کیونکہ جدید دور میں اس کا آغاز بھی قدیم یونانی فکر سے نکالی گئی ہے۔ اس میں ایک اضافہ ہوا ہے " باہم ساتھ ساتھ" یعنی اب اولمپک کھیل کا مقصد اس زمین پر بسنے والے سارے انسانوں میں" تیز تر، بلند تر، مضبوط تر اور باہم ساتھ ساتھ" کی تلاش اور تحسین ہے۔ اور اولمپک کا نشان پانچ منسلک دائرے بھی پانچ براعظموں کے انسانوں کو باہم جوڑنے کی مہم ہے۔
اولمپک کھیل اتنے مشہور اور مقبول ہوئے تھے کہ وقت کے نواب، سردار اور بادشاہ، اس میں حصہ لینے لگے اور یہ قبیلوں اور قوموں کے درمیان مسابقت کا معیار بن گیا تھا۔ اور آج کی دنیا میں جہاں ٹیکنولوجی نے ساری دنیا کو، ایک بچے کی ہتھیلی میں موجود سماجانے والے، سمارٹ فون میں مہیا کردیا ہے۔ آج یہ اولمپک مقابلے واضع طور پر زیادہ دیکھے جاتے ہیں اور اس پر زیادہ گفتگو بھی ہورہی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اولمپک کھیل نسبتا" کل سے زیاہ مقبول اور پسندیدہ ہیں۔ اور آج یہ مقابلے زیادہ مثبت اور بہتر ہیں۔
آج دوسو چھ 206 قومی اولمپک کمیٹیوں اور آئی او سی ریفیوجی اولمپک ٹیم کے ملکوں اور علاقوں کے کھلاڑی اولمپک گیمز پیرس 2024 میں حصہ لے رہے ہیں۔ اولمپک بین الاقوامی کھیلوں کا میلہ ہر چار سال بعد منعقد ہوتا ہے؛ اور اس کا حتمی اہداف کھیل کے ذریعے انسانوں کی آبیاری کرنا اور عالمی امن میں حصہ ڈالنا ہے۔ فی الحال، اولمپک پروگرام 35 مختلف کھیلوں، 53 مضامین اور 400 سے زیادہ ایونٹس پر مشتمل ہے۔ مگر اولمپک کھیل کے نعرے سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ اس کا صحیح میدان " ٹریک اینڈ فیلڈ" کے مقابلے ہیں۔ یعنی دوڑیں، چھلانگ اور وزن اٹھانے اور پھنکنا ہے۔ مضبوط تر یعنی طاقتور کی ایک پہچان پہلوانی بھی بن گئی ہے۔ ان ہی مقابلوں میں ایک نیزہ پھینکنا ہے۔ پیرس 2024 کے مقابلے میں پاکستان کے ارشد ندیم نےنیزہ بازی میں اولمپک کا ریکارڈ بناکر گولڈ میڈل جیت لیا۔
اولمپک کھیلوں میں پاکستانی شمولیت کی تاریخ
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن 1948 میں بنائی گئی تھی؛ اور پاکستان نے پہلی بار 1948 میں لندن میں ہونے والے اولمپک گیمز میں شرکت کی تھی۔
پاکستانی ایتھلیٹس نے 1948 سے 2024 تک تمام سمر اولمپکس میں مجموعی طور پر 11 تمغے جیتے ہیں، جن میں 4 گولڈ / طلائی میڈلز شامل ہیں۔ پاکستان کی مردوں کی فیلڈ ہاکی ٹیم نے 1956 اور 1992 کے درمیان نو گیمز میں آٹھ تمغے جیتے، جس میں 1956 سے 1972 کے درمیان لگاتار 5 فائنلز کی دوڑ شامل تھی، جس میں یکے بعد دیگرے 2 طلائی اور 3 چاندی کے تمغے حاصل ہوئے۔ اب پیرس 2024 میں ارشد ندیم واحد پاکستانی ایتھلیٹ ہیں جنہوں نے انفرادی اولمپک گولڈ میڈل جیتا اور اولمپک ریکارڈ بھی بنایا ہے۔
ذیل میں پاکستان کی اولمپک کھیلوں میں میڈل کارکردگی کا چارٹ پیش کیا جاتا ہے۔ چارٹ سے واضع ہوجاتا ہے کہ آج تک کے سارے مقابلوں میں پاکستان کا واحد پہچان ہاکی بنا رہا ہے۔ ہاکی کے علاوہ آج تک دو کانسی کے تمغے حاصل ہوئے ہیں؛ 1960 روم اولمپک مین پہلوانی میں محمد بشیر نے تمغہ حاصل کیا اور 1988 سیول اولمپک میں حسین شاہ نے تمغہ حاصل کیا۔
اولمپک کھیلوں میں زیادہ میڈل کیوں حاصل نہ ہوئے؟
پاکستان نے اولمپک کھیلوں مں سب سے زیادہ میڈل ہاکی کے کھیل میں حاصل کئے ہیں اور اور وہ بھی آخری دفعہ سنہ 1992 میں؛ اور اب تو کئی سالوں سے کوالیفائی بھی نہی کرسکے ہیں۔ یعنی کل کے ورلڈ چیمپین آج علاقائی مقابلوں میں بھی ناکام ہیں۔ اور ایسا ہونا اچنبھا نہیں ہے۔ یہ بد نصیبی کی کہانی قومی بداعمالی کی داستان ہے۔ اس طویل داستان کو مختصر طور پر ایسے بیان کیا جاسکتا ہے۔
پچھلے اولمپک مقابلے 2020 میں ٹوکیو میں منعقد ہوئے تھے۔ ارشد ندیم نے اولمپکس کے لیے براہ راست کوالیفائی کرنے والے پہلے پاکستانی کھلاڑی بن کر تاریخ رقم کی تھی۔ اور پھر 85.16 میٹر کے تھرو کے ساتھ فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔ ارشد ندیم جیولین تھرو فائنل میں پہنچ گئے تھے۔ لیکن وہ فائنل میں اس کارکردگی کو دہرانے میں ناکام رہے ۔ وہ فائنل میں 84.62 میٹر کے تھرو کے ساتھ 5ویں نمبر پر رہے۔ اس مقابلے میں بھارتی نیرج چوپڑا نے گولڈ میڈل جیتا تھا۔
ٹوکیو 2020 کے مقابلوں میں ایک اور پاکستانی کھلاڑی طلحہ طالب نے مردوں کے ویٹ لفٹنگ میں حصہ لیا تھا۔ انہوں نے 67 کلوگرام وزنی کیٹیگوری ایونٹ کے دوران اسنیچ راؤنڈ کے دوران 150 کلوگرام وزن اٹھایا جس مین وہ دوسرے نمبر پر تھے؛ لیکن دوسرے جز کلین اینڈ جرک راؤنڈ کے دوران؛ وہ صرف 170 کلوگرام وزن اٹھا پائے تھے؛ جس کی وجہ سے وہ راؤنڈ میں ساتویں اور مجموعی طور پر پانچویں نمبر پر رہے۔ وہ کانسی کے تمغے سے صرف 2 کلو گرام سے محروم رہ گئے تھے۔
ان مقابلوں کے بعد پاکستان کی سرکاری حکام ستو پی کر سو گئے اور ان کھلاڑیوں کو انکے حال پر چھوڑ دیا۔ پاکستانی کھیلوں سے متعلق حکام بالا ایسے ہی ہیں۔ انکو کسی کھلاڑی کی کارکردی اور بھلائی سے کوئی سروکار نہی۔ وہ اللہ کی بے نیازی کی شان ہیں اور اللہ کے تعریف کرتے ہیں کہ وہ ان عہدوں پر قائم ہیں اور اللہ کی زمین پر اپنے عہدوں کی وجہ سے ملنے والی مراعات اور سہولتوں کے لیے صدقات اور خیرات کرتے ہیں۔ مگر انکے دان کردہ خیرات سے بین الاقوامی میعار کا کھلاڑی نہ پیدا ہوسکتا ہے اور نہ ہی تربیت پا سکتا ہے۔
پاکستان کی سرمایہ کاری تعلیم، صحت، پیشہ ورانہ تربیت، تحقیق و ترقی اور کھیلوں میں ترقی یافتہ اور بہت سے ترقی پذیر ممالک سے نمایاں طور پر پیچھے ہے۔ پاکستان اپنی جی ڈی پی کا تقریباً 1.7 فیصد (4 بلین ڈالر) تعلیم کے لیے مختص کرتا ہے، اس کے بالکل برعکس ترقی یافتہ ممالک کے خرچ کردہ 6.2 فیصد اور 5.5 فیصد (800 بلین ڈالر) اور ان کی جی ڈی پی کا تقریباً 9.6 فیصد اور 9.1 فیصد خرچ ہوتا ہے۔ ایک مضبوط نظام جو کھلاڑی پیدا کرتا ہے؛ وہ اعلی تعلیمی ادارے ہیں اور بھلا اس طرز کی سوچ سے ہم کیا اچھائی حاصل کرسکتے ہیں؟
پاکستان میں پیشہ ورانہ تربیت اور کھیلوں کو کم سے کم مالی امداد ملتی ہے۔ کھیلوں کا بجٹ سالانہ 40 ملین ڈالر سے زیادہ نہیں ہے، جس میں پاکستان اسپورٹس بورڈ، مختلف اسپورٹس فیڈریشنز اور انفراسٹرکچر کے منصوبے شامل ہیں۔ کھیلوں کی اکیڈمیوں اور تعلیمی اداروں کے مضبوط نیٹ ورک کا فقدان ہے جو نوجوان ٹیلنٹ کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہیں۔ ٹیلنٹ کی شناخت کے پروگرام محدود ہیں۔ پاکستان میں کھیلوں کا معاشی ماڈل پسماندہ ہے، جس کی وجہ سے کھیلوں کی معیشت کامیاب کھیلوں کے ممالک کے مقابلے میں غیر منافع بخش اور غیر منظم ہے۔
اولمپک میڈل کس نے حاصل کیا؟
نیزہ باز ارشد ندیم اپنی دھن کا پکا اور ضدی ثابت ہوا۔ اس نے شاید قسم کھائی تھی کہ ظلم اور نااہلی کی دیواروں سے ٹکرائے گا اور اپنا راستہ خود بنائے گا؛ اور اپنے نصیب کی یاوری؛ اپنے دستِ بازو کی قوت کو اللہ تعالی کے بھروسے آزمائے گا۔ چنانچہ پیرس 2024 اولمپکس میں، ارشد ندیم نے 92.97 کے اولمپک ریکارڈ تھرو کے ساتھ انفرادی اولمپک طلائی تمغہ جیتنے والے پہلے پاکستانی بن کر پاکستان کے لیے تاریخ رقم کی۔ یہ آج تک کے سارے عالمی مقابلوں کی تاریخ کا چھٹا سب سے طویل تھرو بھی تھا۔
یاد رہے کہ اولین اولمپک مقابلے جو 1908 میں لندن میں منعقد ہوئے تھے، میں جیولین کا ریکارڈ 54.44 میٹر تھا جو سویڈن کے ایرک لیمنگ نے قائم کیا تھا۔ ارشد ندیم نے ناروے کے اینڈریاس تھورکلڈسن کو پیچھے چھوڑ دیا جس نے بیجنگ گیمز 2008 میں 90.57 میٹر کے ساتھ اولمپکس میں سب سے طویل تھرو کا ریکارڈ اپنے نام کیا تھا۔ ارشد ندیم اس مقابلے کے لیےکسی سہولت سے محروم تھا؛ اس کے پاس دیسی زبان میں ٹوٹکے تھے اور ماں باپ؛ محبت کرنے والوں کی دعائیں اور اللہ تعالی پر بھروسہ تھا۔ مگر کیا دنیا بھر کے سارے کھلاڑی اس نوع کی تیاری سے میدان میں اترتے ہیں؟
یہ ارشد ندیم کی تن تنہا ذاتی کاوش کے علاوہ کوئی اور اعزاز نہی ہے۔ یہ ایک غریب نوجوان کے عزم کی داستان ہے۔ ایک مزدور مستری کے بیٹے کا خواب اور اس کے استاد کی تعبیر کا قصہ ہے؛ جس نے اس میں نیزہ پھنکنے کا ہنر دیکھ لیا تھا۔ اس کا خواب تھا کہ اس نے گمنام نہیں مرنا؛ اسکے خواب اسے بلندی کی پرواز پر لیجاتے تھے اور وہ زمین پر گھسٹنا نہی چاہتا تھا۔ اس نے تھوڑے کو بہت جانا اور سادگی اپنائی مگر اپنے خواب کا پیچھا نہی چھوڑا۔ اسے اپنے گاوں کی کچی گلیاں اور ان میں چلتے لوگوں میں ترقی اور کامیابی کا نشان بننا تھا؛ اس اپنے باپ کا مضبوط بازو بننا تھا اور اپنی ماں کی چادر کو عظمت کا نشان بنانا تھا۔ اسے اپنے وطن کا فخر بننا تھا۔ اسکا سفر لمبا؛ کھٹن اور دشوار تھا۔ مگر وہ پرعظم تھا اور اپنے سونہے رب کی عنایات پر یقین تھا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کا امتی ہے؛ اس نے یا علیؑ مدد کا نعرہ لگا کر نیزہ پھینکا اور وہ جیت گیا۔ سو سجدے میں گرا کہ مولا تو سب سے اعلی ہے؛ تیرے سوا کوئی عطا کرنے والا نہِیں؛ تری شان نرالی ہے۔ تیرا شکریہ۔ پھر اس نے سر اٹھایا؛ کھڑا ہوا، ملک کا جھنڈا پکڑا اور بولا پاکستان زندہ باد۔
آج جب ارشد ندیم نے تاریخ رقم کردی ہے تو بہت سے افراد اور بہت سے ادارے دعوی کریں گے کہ انکی مدد سے حاصل ہوا ہے یہ مقام۔ ان سارے عظیم لوگوں اور اداروں سے ایک سادہ سوال صرف اتنا ہے کہ
ٹوکیو 2020 میں ویٹ لفٹنگ مقابلے میں پانچویں پوزیشن حاصل کرنے والا پاکستانی کھلاڑی طلحہ طالب آج کہاں ہے؟
ہم کبھی بھی ایک عزت دار قوم نہیں بن سکیں گے جب تک حکومتی عہدوں سے چمٹے گِدھوں سے نجات نہیں پالیتے۔ جب تک یہ لوگ اقتدار میں رہیں گے؛ ہمارے بچے اپنی خداداد محنت ہی سے کچھ حاصل کریں گے کیونکہ اللہ سبحان تعالی اس وقت تک کسی قوم کی تقدیر نہیں بدلتے جب تک وہ خود اس کی کوشش نہی کرتے۔