Muhammad Asif Raza 2 days ago
Muhammad Asif Raza #education

الصراط المستقيم؛ حسنة في تعلیم و طلب علم

Life is a journey; it is pleasant, beautiful and enjoyable too, but it offers its bounty to only those who undertake this journey as per some principles and time tested methods. Al Quran is the final Holy Book revealed upon the Last of Prophets Hazrat Muhammad (PBUH). The Quran & Sunnah is the only source of holy guidance with detailed instructions for each and every walk of human life for a Muslim. This write up in Urdu "الصراط المستقيم؛ حسنة في تعلیم و طلب علم" is a discussion for success through education and knowledge in this life.

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے

 

الصراط المستقيم؛ حسنة في تعلیم و طلب علم

 

ہر مسلمان نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کرتا ہے تو اللہ سے عرض گذار ہوتا ہے "اهدنا الصراط المستقيم"؛ یعنی ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر چل کر انسان اس قول کا حامل بنتا ہے "يقول ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار"؛ "یعنی اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا"۔

 

صراط المستقیم انسان کو دنیا و آخرت میں حسنۃ، خیر و بھلائی عطا کرتا ہے۔ دنیا کی بھلائی میں ہر اچھی اور مفید شے داخل ہے خواہ وہ کفایت کرنے والا رزق ہو یا اچھا گھر یا اچھی بیوی یا اچھی سواری یا اچھا پڑوس وغیرہا۔ آخرت کی بھلائی تو ہی مغز یعنی اصل مقصد زندگی۔ ہم یہاں پہلے دنیا کی زندگی میں خیر تلاش کرتے ہیں؛ مگر وہ تلاش نکلے گا الصراط المستقیم سے؛ یعنی اس دنیا میں زندگی گذارنے کا سیدھا طریقہ، سیدھا راستہ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ سیدھا راستہ کیا ہے؟

 

اللہ سبحان تعالی نے سورۃ يٰـسٓ کی آیات 60-61 میں فرمایا ہے کہ

اے آدم کی اولاد! کیا میں نے تمہیں تاکید نہ کردی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، کیونکہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔

اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا، یہ صِرَاطٌ مُّسْتَقِـيْـمٌ یعنی سیدھا راستہ ہے۔

 

اوپر کی آیات سے ایک سبق یہ ہے کہ دنیا میں ایک حق سچ کا راستہ ہے اور ایک غلط یا گمراہی کا راستہ ہے۔ یاد رکھیے کہ بالکل اسی طرح اس دنیا کی زندگی میں ہر انسان کو ہر دم ہر لمحے ایک امتحان ایک آزمائش درپیش ہوتا ہے اور وہ لمحہ ہوتا ہے کہ اس کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ صحیح راستہ چنتا ہے یا غلط۔؛ قانون کے درست سمت میں چلتا ہے یا مخالف سمت میں قانون توڑتا ہے۔ ہر انسان کو دن کے چوبس گھنٹوں میں بارہا ایسے مراحل طے کرنے ہوتے ہیں کہ وہ صحیح اور غلط میں کس چناو کو اختیار کرتا ہے۔ اس مضمون کا مقصد علم اور تعلیم سے موسوم جدوجہد کی اہمیت اور سمت پر توجہ دلانا ہے۔ یعنی اس دنیا میں حصول علم اور نظام تعلیم میں صراط مستقیم کا سیدھا طریقہ، سیدھا راستہ جو ایسا نظام تعلیم ہے جس کے ذریعےحصول علم اللہ سبحان تعالی کی رضا کا باعث ہو اور فلاح انسانیت کا موجب ہو۔

تحصیل علم اور صراط مستقیم

 سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم علم کی اہمیت کے ضمن میں آقا کریم محمدﷺ کی حدیث پیش کریں کہ علم کا حصول عین دین کا حکم ہے اور تحصیل علم امر لازم ہے۔

 

حضرت کثیر ابن قیس ؓ فرماتے ہیں کہ میں (ایک صحابی) حضرت ابودردا ؓ کے پاس دمشق (شام) کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں سرکار دو عالم ﷺ کے شہر سے آپ کے پاس ایک حدیث کے لئے آیا ہوں جس کے بارے میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسے آپ سرکار دو عالم ﷺ سے نقل کرتے ہیں۔ آپ کے پاس میرے آنے کی اس کے علاوہ اور کوئی غرض نہیں ہے ( یہ سن کر) حضرت ابودردا ؓ نے فرمایا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے یہ سنا کہ جو آدمی کسی راستہ کو (خواہ لمبا ہو یا مختصر) علم دین حاصل کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بہشت کے راستہ پر چلاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی رضا مندی کے لئے اپنے پروں کو بچھاتے ہیں اور عالم کے لئے ہر وہ چیز جو آسمانوں کے اندر ہے (یعنی فرشتے) اور جو زمین کے اوپر ہے (یعنی جن وانس) اور مچھلیاں جو پانی کے اندر ہیں دعائے مغفرت کرتی ہیں اور عابد پر عالم کو ایسی ہی فضیلت ہے جیسے کہ چودہویں کا چاند تمام ستاروں پر فضیلت رکھتا ہے اور عالم انبیاء (علیہم السلام) کے وارث ہیں۔ انیباء وراثت میں دینار و در ہم نہیں چھوڑ گئے ہیں، ان کا ورثہ علم ہے لہٰذا جس نے علم حاصل کیا اس نے کامل حصہ پایا۔ [مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ]

 

یہ طے ہے کہ علم کا حصول امر لازم ہے مگر کون سا علم اور کیسا علم؟ اس ضمن میں قرآن ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ اللہ سبحان تعالی نے سورۃ نجم کی آیت 29 ، 30 میں فرمایا ہے اور تنبیہ کی ہے۔غور فرمائیے؛-۔

سو آپ اپنی توجّہ اس سے ہٹا لیں جو ہماری یاد سے رُوگردانی کرتا ہے اور سوائے دنیوی زندگی کے اور کوئی مقصد نہیں رکھتا۔

یہ ان (غیر مسلم) کے علم کی انتہا ہے۔ بیشک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے جس نے ہدایت پائی"۔

 

اللہ سبحان تعالی نے سورۃ الروم کی آیت 7 میں عالم مغرب کے علم کی حد بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:-۔

"وہ صرف آنکھوں کے سامنے کی دنیاوی زندگی کو جانتے ہیں اور وہ آخرت سے بالکل غافل ہیں"۔ یعنی اس علم کی تحصیل ہے جو محض دنیا کے حصول کے لیے ہے۔

 

سورۃ الزمر کی آیت 9 میں اللہ تعالی عقل والے دانش مند افراد سے متعلق مزید فرمایا ہے کہ

بھلا (یہ مشرک بہتر ہے یا) وہ (مومن) جو رات کی گھڑیوں میں سجود اور قیام کی حالت میں عبادت کرنے والا ہے، آخرت سے ڈرتا رہتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے؛ فرما دیجئے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں؟ بس نصیحت تو ( اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ) عقل مند لوگ ہی قبول کرتے ہیں"۔

 

یقین کیجیے کہ صراط مستقیم کا راستہ تو ایک ہی ہے؛ مگر منزل دو ہیں۔ ایک دنیا و آخرت کی کامیابی اور دوسرا صرف دنیا کی طلب۔ اگر تحصیل علم کی خواہش صرف دنیا کے حصول کی ہے تو تب بھی کسی اصول و ضوابط پر عمل کرنا ہوگا۔ ساری تہذیبیں اصول و ضوابط پیش کرتی ہیں اور کوئی بھی قوم یا فرد دنیا کے معمولات کو ان اصول و ضوابط کے مطابق مزین کئے بغیر کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ اور اگرتحصیل علم کی خواہش دنیا میں شہرت اور عزت حاصل کرنے کے لیے ہے؛ تو تب بھی ضروری ہے کہ انسان اپنی روزمرہ کی زندگی کو ایک نظم وضبط کا پابند کرے اور یہی دنیاوی صراط مستقیم ہے۔ غیر منظم افراد نہ ہی دین کے ہوتے ہیں اور نہ ہی دنیا کے۔ یاد رکھیے کہ اگر ہماری تحصیل علم کی خواہش اللہ کی رضا ہے تو اپنی دنیاوی زندگی اور دنیاوی معاملات میں بھی نظم و ضبط کو رائج کرنا ہوگا۔ ہر طالبعلم کے لیے ضروری ہے کہ ہر دم علم کی منازل طے کرتے ہوئے صراط مستقیم پر ہی قائم رہے۔

منازلِ علم اور فکری نظریات

ہم انسان خاص طور پر مسلمان؛ آج جس دنیا میں جی رہے ہیں اور جس طرح کی تہذیب برت رہے ہیں وہ برِّ اعظم ایشیاء اور افریقہ کی نوآبادیاتی غلامی کے بعد میں قائم ایک نظام ہے جس کے مَدار الْمَہام یورپی اور امریکی قومیں اور تہذیب ہے۔ ان ممالک میں زیادہ تر عیسائی بستے ہیں جو محض نام ہی کے حضرت عیسی علیہ السلام کے ماننے والے پیروکار ہیں؛ درحقیقت انکی بڑی واضع اکثریت لبرل ہیں؛ آزاد انسان جن کا اوڑھنا بچھونا نفس کی بے مہابا آزادی کے ساتھ پیروی کرنا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ہے کہ انسانوں کی فکر انکے زندگی کے نظریات کی بنیاد ہوتے ہیں؛ اور وہی نظریات انسانوں کے دیگر معاملات زندگی پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ تو بھلا علم کیسے انکے نظریات اور فکری آزادی سے محفوظ رہتا؟

 

آج مغربی اقوام نے بلاشبہ سائنس اور ٹیکنولوجی اور اس کے نتیجے میں صنعت و حرفت میں بے تحاشہ ترقی کررکھی ہے۔ اور ہر طرف انکا ڈنکہ بجتا ہے۔ علم کے حصول کے لیے دنیا بھر کے ذہین افراد مغربی درسگاہوں اور جامعات کا رخ کرتے ہیں۔ اور کیاعجب ہے کہ پھر ان ہی کے غلام بن کر رہتے ہیں۔ ان سا رہن سہن، بول چال، رکھ رکھاو اور آخر میں انہی کے نظریات کے حامل بن جاتے ہیں۔ اور کمال یہ کرتے ہیں کہ اپنے آباو اجداد کو گمراہ، اجڈ، گنوار اور بے فیض ماننے لگتے ہیں۔ یہ مضمون ذہین افراد کو متنبہ کرتا ہے کہ علم کے حصول کے لیے جہاں چاہیں جائیں مگر یاد رکھیے گا کہ ہدایت اور دانش کی واحد کتاب قرآن ہے؛ سو اسے کسی صورت میں پس پشت مت کیجیے گا۔

 

دنیا میں کسی بھی دین نے تعلیم وتعلم کا وہ اہتمام نہیں کیا جو دین اسلام نے کیا ہے۔ دین اسلام میں جہاں علم کے حصول پر زور دیا گیا وہیں تقویٰ کو بھی علم کے حصول کا جزو لازم قرار دیا۔ اللہ سبحان تعالی نے سورۃ فاطر کی آیت 28 میں فرمایا ہے کہ " اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چوپایوں کے مختلف رنگ ہیں ۔ اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں بیشک اللہ عزت والا، بخشنے والا ہے"۔ یعنی اس کی واضع تشریح یوں ہے کہ "اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں اور اس کی صفات کو جانتے اور اس کی عظمت کو پہچانتے ہیں اور جو شخص جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا علم رکھتا ہو گا وہ اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو گا اور جس کا علم کم ہو گا تو ا س کا خوف بھی کم ہو گا "۔ کیا اس ہدایت سے تحصیل علم میں صراط مستقیم کا سفر متعین نہیں ہوتا؟

 

اللہ سبحان تعالی نے سورۃ التوبہ کی آیت 122 میں جہاد اور دین کی سمجھ بوجھ کے ضمن میں فرمایا ہےجو بہت قابلِ غور ہے کہ " علم حاصل کرنے کے لئے سب مسلمانوں کا اپنے وطن سے نکل جانا درست نہیں کہ اس طرح شدید حَرج ہوگا توجب سارے نہیں جاسکتے تو ہر بڑی جماعت سے ایک چھوٹی جماعت جس کا نکلنا انہیں کافی ہو کیوں نہیں نکل جاتی تاکہ وہ دین میں فقاہت (علم اور سمجھ) حاصل کریں اورا س کے حصول میں مشقتیں جھیلیں اور اس سے ان کا مقصود واپس آ کر اپنی قوم کو وعظ و نصیحت کرنا ہو تاکہ ان کی قوم کے لوگ اس چیز سے بچیں جس سے بچنا انہیں ضروری ہے"۔ کیا اس ہدایت سے نظامِ تعلیم اور مقصد علم کا تعین ہوتا ہے کہ نہیں؟

ماحصل مضمون

 اے علم کے متوالو( اُولُوا الۡاَلۡبَابِ )؛ عقل و خرد کے دیوانو اور نظام تعلیم کے مدارالمہام لوگو؛ آو؛ آج کی دنیا میں پھلیےعلم کے سمندر میں سے وہ خزانے، جو اللہ سبحان تعالی کی حقانیت اور وحدانیت سے معمور ہوں اور شرک اور طغی سے مبرا ہوں اور فلاح انسانیت کے لیے ہوں؛ کو الگ کرلیں اور ملک قوم اور امت کی رہنمائی کے لیے پیش کریں۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ علم کا حصول دنیا کی دولت اور شہرت کے لیے نہیں ہونا چاہیے بلکہ تقوی کے حصول کے لیے کرنا چاہیے۔ یعنی اس دنیا میں نظام تعلیم میں حصول علم صرف صراط مستقیم کے لیے ہو؛ جس کا مطلوب و مقصود صرف اللہ سبحان تعالی کی رضا ہو اور جو فلاح انسانیت کا موجب ہو۔ اور یہی علم والوں کا صراط مستقیم اور نظام تعلیم کا مقصد و مطلوب ہونا چاہیے۔

0
134
Delhi University School of Open Learning (DU SOL)

Delhi University School of Open Learning (DU SOL)

defaultuser.png
Onlineuniversitiess
3 months ago

Eyeliner Market Size and Share 2024: Trends and Projections for 2032

defaultuser.png
Prity
2 months ago
Roof Repairs Gympie

Roof Repairs Gympie

defaultuser.png
Roof Response
1 month ago
Best Venues and Activities for a Playa Del Carmen Bachelor Party

Best Venues and Activities for a Playa Del Carmen Bachelor Party

defaultuser.png
Silvester Hills
7 months ago

GoHighLevel 30 Day Free Trial: Unlock Powerful Marketing Tools

Useful information about the GoHighLevel 30 day trial is provided by FairTech, professiona...

defaultuser.png
nalim
3 weeks ago