Muhammad Asif Raza 1 day ago
Muhammad Asif Raza #education

الصراط المستقيم؛ حسنة في السياسة والحكم

Life is a journey; it is pleasant, beautiful and enjoyable too, but it offers its bounty to only those who undertake this journey as per some principles and time tested methods. ALLAH the Almighty has sent divine guidance through various prophets and Al Quran is the final Holy Book revealed upon the Last of Prophets Hazrat Muhammad (PBUH). The divine guidance helped humans to formulate their life for better livings. This write up in Urdu "الصراط المستقيم؛ حسنة في السياسة والحكم" is a discussion for success in politics and governance for any nation.

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے

 

الصراط المستقيم؛ حسنة في السياسة والحكم

 

مسلمان سورۃ الفاتحہ کی تلاوت میں عرض گذار ہوتا ہے "اهدنا الصراط المستقيم"؛ یعنی ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر چل کر انسان اس قول کا حامل بنتا ہے "يقول ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة"؛ "یعنی اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما"۔

 

صراط المستقیم دنیا و آخرت میں حسنۃ یا خیر و بھلائی کی تلاش کا راستہ ہے۔ دنیا کی بھلائی میں ہر اچھی اور مفید شے داخل ہے خواہ وہ کفایت کرنے والا رزق ہو یا اچھا گھر یا اچھی بیوی یا اچھی سواری یا اچھا پڑوس وغیرہا۔ آخرت کی بھلائی تو ہی مغز یعنی اصل مقصد زندگی۔ ہم یہاں پہلے دنیا کی زندگی میں خیر تلاش کرتے ہیں؛ مگر وہ تلاش نکلے گا الصراط المستقیم سے؛ یعنی اس دنیا میں زندگی گذارنے کا سیدھا طریقہ، سیدھا راستہ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ سیدھا راستہ کیا ہے؟

 

اللہ سبحان تعالی نے سورۃ يٰـسٓ کی آیات 60-61 میں فرمایا ہے کہ

اے آدم کی اولاد! کیا میں نے تمہیں تاکید نہ کردی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، کیونکہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔ اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا، یہ صِرَاطٌ مُّسْتَقِـيْـمٌ یعنی سیدھا راستہ ہے۔

 

اوپر کی آیات کا ایک سبق یہ ہے کہ دنیا میں ایک حق سچ کا راستہ ہے اور ایک غلط یا گمراہی کا راستہ ہے۔ یاد رکھیے کہ بالکل اسی طرح اس دنیا کی زندگی میں ہر انسان کو ہر دم ہر لمحے ایک امتحان ایک آزمائش درپیش ہوتا ہے اور وہ لمحہ ہوتا ہے کہ اس کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ صحیح راستہ چنتا ہے یا غلط۔؛ قانون کے درست سمت میں چلتا ہے یا مخالف سمت میں قانون توڑتا ہے۔ ہر انسان کو دن کے چوبس گھنٹوں میں بارہا ایسے مراحل طے کرنے ہوتے ہیں کہ وہ صحیح اور غلط میں کس چناو کو اختیار کرتا ہے۔ اس مضمون کا مقصد سیاسیات اور الحکم یعنی حکومت و گورننس سے موسوم مقاصد کی اہمیت اور سمت پر توجہ دلانا ہے۔ یعنی اس دنیا میں حکومتوں کے معاملات میں صراط مستقیم کا سیدھا طریقہ، سیدھا راستہ کیسا نظام سیاست و حکومت ہونا چاہیے؟ جس کے ذریعے کسی بھی قوم کے ملک اور سلطنت میں حکومت کا قیام ہو جو اللہ سبحان تعالی کی رضا کا باعث ہو اور فلاح انسانیت کا موجب ہو۔

حسنة في السياسة والحكم

اس موضوع پر مزید آگے بڑھنے سے قبل ضروری ہے کہ ہم دنیا میں مروج سیاسیات کے نظام پر ایک نظر ڈال لیں۔ سیاست (قدیم یونانی لفظ "پولیٹیکا" بمعنی 'شہروں کے معاملات') ایسی سرگرمیوں کا مجموعہ ہے جو انسانی گروہوں یا افراد کے درمیان طاقت کےتوازن اور ریاست میں حاکم اور محکوم کی حیثیت اور باہم وسائل کی تقسیم کو باضابطہ بناتا ہے۔ روزمرہ کی اصطلاح میں "سیاست" سے مراد وہ طریقہ کار ہے جس سے ممالک میں حکومت قائم کی جاتی ہے؛ اور جس کے تحت مخصوص طریقوں سے حکومتیں انسانی معاشرے کو صحیح طریقے سے منظم کرنے کے لیے قواعد و ضوابط بناتی ہیں اور معاملات حکومت عمل پذیر کرتی ہیں۔ سیاست لوگوں کے درمیان معاہدہ قائم کرنا ہے کہ جس کے تحت افراد قبائل، شہروں یا ممالک میں ایک نظم و ضبط کے ساتھ رہتے ہیں۔ سیاسی اطوار میں ملک کے لوگوں میں سیاسی خیالات کو فروغ دینا، سیاسی موضوعات پر گفت و شنید و بحث و مباحثہ کا ہونا، قانون بنانا، اور اندرونی اور بیرونی طاقت کا استعمال کرنا، بشمول مخالفین کے خلاف جنگ شامل ہے۔ سیاسی فکر سے ریاست کی ساخت، نوعیت اور مقصد کا تعین ہوتا ہے۔ سیاسی فکر "معاشرے میں انسانی رویوں کے اخلاقی مظاہر" سے توانا ہوتی ہے۔ ہمیں یہ ذہن نشین رکھنا ہے کہ کسی قوم کی اکثریت کی سیاسی فکر کسی نظریہ کو جنم دیتی ہےاور اس نظریہ کی کوکھ سے اس قوم کا آئین پیدا ہوتا ہے جو اس قوم کے اجتماعی سوچ کا مظہر ہوتا ہے۔

 

مختلف ممالک میں مختلف سیاسی جہتیں قائم ہوتی ہیں جن کے تحت لوگ سیاسی خدمات کے لیے ایک نظام میں ایک عمرانی معاہدے کے پابند اپنا وقت صرف کرتے ہیں۔ ان ریاستوں میں جہاں ووٹ سے منتخب حکومت کا نظام ہوتا ہے؛ سیاستدان عوام کی نمائندگی کرتے ہیں، فیصلے کرتے ہیں اور عوامی سوچ کے تحت حکومتی پالیسی کی تشکیل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سیاست دانوں کو جو کردار یا فرائض انجام دینے چاہئیں وہ حکومت کی سطح کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں، جو مقامی یا قومی ہوتے ہیں۔ سیاسی فلسفہ، یا سیاسی نظریہ حکومت کا فلسفیانہ مطالعہ ہے، جو عوام، سیاسی کارپرزاروں (ورکرز اور سیاستدان) اور اداروں کی نوعیت، دائرہ کار، اور قانونی حیثیت اور ان کے درمیان تعلقات کے بارے میں سوالات کو حل کرتا ہے۔ سیاسی فلسفہ اہم ہوتا ہے کیونکہ اسی کے تحت معاشرے پارلیمان کے سیاسی فیصلوں اور پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ لینے کی اجازت دیتے ہیں۔ سیاسی فلسفہ ہی آزادی، عدل و انصاف، مساوات اور بنیادی انسانی حقوق جیسے معاملات کی جامع تفہیم فراہم کرتا ہے۔ سیاسیات میں، سیاسی نظریہ اخلاقی نظریات، اصول، عقائد، افسانوں یا سماجی تحریک کے ذریعے اداروں، طبقات اور دیگر تمام عناصر و گروہوں کی علامتوں کو جنم دیتا ہے اور وہ یہ بتاتا ہے کہ معاشرے کو کس طرح کام کرنا چاہیے؛ کیونکہ وہ ایک مقصود سماجی نظم کو قائم کرنے کے لیے سیاسی اور ثقافتی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔

 

الحکم یعنی حکومت یا گورننس ایک ایسا نظام ہے جو ریاستی انتظام کے لیے فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کون فیصلے کر سکتا ہے، کس کے پاس ریاست کی جانب سے کام کرنے کا اختیار ہے اور کون کیسے جوابدہ ہے۔ الحکم یعنی حکومت یا گورننس ایک منظم طریقے سے ریاست اور عوام کے مابین تعلق، برتاؤ اور کارکردگی کے نظام کو واضع کرتا ہے اور جس کے عملی مظاہرے سے معاشرہ ترتیب پاتا ہے اور ملک، قوم اور سلطنت کا نظام چلتا ہے۔ الحکم یعنی حکومت یا گورننس سیاسی حکمرانی میں پالیسی بنانے کے لیے فیصلہ سازی کا اختیار ہے؛ جس سے انتظامِ حکمرانی کے نفاذ ہوتا ہے۔ الحکم یعنی حکومت یا گورننس کا نظریہ ریاستی کارروائی کے ذریعے اجتماعی قومی مسائل کے حل کا نظام ہوتا ہے۔ حسنۃ فی الحکم یعنی بہترحکومت یا گورننس ایک اچھی حکمرانی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی معاملات کے عمل کو فلاح عام کے ڈھانچے میں ڈھالنے کا نام ہے۔

 

ایک فلاحی ریاست مذہبی عقائد پر قائم نہیں ہوتی؛ مگر اللہ تعالی کے قائم کردہ اصول عمرانیات کو یقینا" مقدم رکھتی ہے۔ جو قوم بھی ایک مستحکم اور خوشحال ریاست بننا چاہتی ہے اسے حسنۃ فی الحکم یعنی بہتر حکومت یا گورننس کے اصولوں پر قائم کرتی ہے۔ اس زمین پر بسنے والے سارے انسان اللہ سبحان تعالی کی مخلوق ہیں اور جو گروہِ انسان؛ قبیلہ یا قوم اپنی قومی ریاستی زندگی میں حسنۃ فی الحکم یعنی بہتر حکومت یا گورننس کی خواہش رکھتی ہے؛ وہ ان اصولوں پر چلتی ہےجس کی تعلیم اللہ تعالی نے اپنی کتابوں کے ذریعے ہم انسانوں کو دے رکھی ہے۔ ان اصولوں کو ہم حق سچ کا راستہ؛ انسان دوست حقوق اور انسانی عزت و وقار کو مقدم رکھنا کہہ سکتے ہیں۔ جن انسانی تہذیبوں نے ان اصولوں پر عمل کیا وہ ممتاز اور معتبر ہوئیں اور جب انہوں نے روگردانی کی تو تباہ ہوگئیں۔

 

حسنۃ فی الحکم یعنی بہتر حکومت یا گورننس چاہے اسلامی ریاست ہو یا غیر اسلامی؛ ریاستی اداروں میں اختیار کے کلیدی اور دیگرعہدوں پر اخلاقی اور قانونی اصولوں اور طریقوں پرقائم ایک نظم و نسق قائم کرنا ہوتا ہے۔ اور اس میں متعدد جوہرشامل ہوتے ہیں۔ ان جواہر میں شامل ہیں عہدوں کا واضح کردار و ذمہ داریاں، شفافیت، جوابدہی، اور انصاف؛ جن سے ایک پائیدار اور قابل اعتماد ماحول بن پاتا ہے۔ یہاں ہمیں اس بات کو ذہن نشین رکھنا ہے جمھوری ملکوں میں حکومت افراد کے وقتی جزبات کے تحت ووٹ کے ذریعے قائم ہوتی ہیں۔ ذیل میں وہ بنیادی اصول پیش کئے جاتے ہیں جو سیاسی حکومتوں کو الحکم یعنی حکومت یا گورننس کو حسنۃ کی طرف گامزن کرتا ہے:-۔

 

مقصد اور مشن:  ایک واضح اور اچھی طرح سے طے شدہ مشن کسی بھی حکومت کی بنیاد ہوتا ہے؛ جو اس کے انتخابی وعدوں پر مبنی ہوتا ہے، اور پھر وہ اس کے اعمال اور فیصلوں پر رہنمائی کرتا ہے۔

اسٹریٹجک منصوبہ بندی:  منتخب حکومت جامع اسٹریٹجک منصوبہ تیار کرتی ہیں، اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بناتی ہیں جو انکے مشن اور اہداف سے ہم آہنگ ہونے چاہیے۔

انصاف اور مساوات:  تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جانا چاہیے، معلومات تک مکمل رسائی اور فیصلہ سازی میں حصہ لینے کے یکساں مواقع ملنا چاہیے۔

ذمہ داری:  اتھارٹی والوں کو ریاست اور عوام کے بہترین مفاد میں کام کرنا چاہیے، مفادات کے تصادم سے گریز کرنا چاہیے اور ذات سے بالاتر فیصلے کرنا چاہیے۔

قانونی فریم ورک:  منتخب حکومت یقینی بناتی ہیں کہ ملک کو چلانے والا قانونی فریم ورک درست ہے اور تمام سرکاری اعمالداروں کے اقدامات منظور شدہ قوانین اور ضوابط کے مطابق ہوں۔

آزاد و خودمختار ارکان حکومت اور ریاستی ملازمین:  منتخب حکومتیں عوامی مفاد میں فیصلہ سازی میں معروضیت اور غیر جانبداری کو یقینی بنانے کے لیے آزاد، خودمختار اور باشعور ارکان پارلیمان کے کردار کو تقویت دیتی ہیں۔

شفافیت:  تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کھلی اور ایماندارانہ بات چیت بہت ضروری ہے، اس بات کو یقینی بنانا کہ مالی کارکردگی، حکمرانی کے طریقوں، اور ممکنہ خطرات کے بارے میں بروقت اور درست معلومات کو مشتہر کیا جائے۔

احتساب:  منتخب قائدین گورننگ باڈیز کو اپنے اعمال اور فیصلوں کے لیے جوابدہ کرتے ہیں، اور شفافیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور انکو اپنے فیصلوں اور سرکاری عہدوں پربٹھائے افردا کے انتخاب کی وضاحت کے لیے ہر وقت آمادہ ہونا چاہیے۔

کارکردگی کی نگرانی:  منتخب حکومتیں سرکاری اداروں کی کلیدی کارکردگی کے اشارے کے ذریعے انکی کارگذاری کی مسلسل نگرانی کرتی ہیں اور ضرورت کے مطابق ایڈجسٹمنٹ کرتیں ہیں اور اس کے لیے عوامی رائے کا احترام کرتی ہیں۔

اسلام کا فلسفہ سیاست اور حکومت

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستورِ حیات ہے؛ سو اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہے۔ چنانچہ اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ مسلمان حکومتوں کے نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملاتِ معاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلامی ریاست میں نظام حکومت میں دین و مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں۔ قرآن پاک اور احادیث نبویہﷺ میں معاشرت، تمدن اور حکومت کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں

 

“سیاست‘‘ کا لفظ قرآن میں نہیں ملتا، یا اس سے مماثل کوئی لفظ آیا ہے، لیکن اس کے حامل معنی اور مواد قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآنی آیات میں سیاست کا بنیادی تصور اور ساخت موجود ہے۔ قرآن پاک کی جن آیات میں سیاست کے بنیادی معانی شامل ہیں، ان میں الفاظ خلافت، امارت، حاکمیت، ولایت، اختیار، بادشاہت، مشاورت، جنگ، معاہدہ، امن، عدلیہ، رعایا کے انفرادی اور سماجی حقوق، شہریوں کے حقوق اور فرائض کی تفصیلات شامل ہیں۔ لفظ "خلافت" قرآن میں متعدد مقامات پر آیا ہے، اور لفظ "امامت" کا مطلب ہے خلافت اور مومنین کی قیادت، یہ اس معنی کے مترادف ہے جسے علماء نے ملک کے حالات کے انتظام، دین کی حفاظت اور ریاستی سیاست میں ایک عام اصول کے طور پر مرتب کیا ہے۔

 

اسلامی ریاست میں نظام حکومت کی تعمیر مکمل آزادی، وسیع تر شوریٰ اور رضامندی اور انتخاب پر مبنی سماجی معاہدے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اسلام کی ریاست سماجی اور اقتصادی ماحول کو اس طرح ترتیب دیتا ہے جہاں انسان آزادی، مساوات اور انصاف کے نظریے کے تحت زندگی گذارتا ہے۔ اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ مذہب، معاشرہ اور انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا جائے۔ انسانوں اور دیگر مخلوقات کو اس زمین پر ایک دوسرے کے ساتھ باہمی فوائد کے لیے اکھٹا رہنا ہے جو غیب اور ابدیت پر یقین کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

 

 ایک جامع اسلامی ریاست کی تعمیر قرآن اور سنتِ رسولﷺ کی رہنمائی سے ماخوذ ہوتا ہے اور لوگوں کو رہنمائی اور معاشرے کے مسائل کے حل کے لیے ایک منضبط نظام کو قائم کرتا ہے۔ اور پھر یہی نظام انسانوں کی آزادی اور امن پر مبنی عالمی انسانی زندگی کے دروازے کھولتا ہے۔ سیاست اور مذہب طاقت کا سرچشمہ ہیں؛ مگر ان کا غلط استعمال انسانی معاشرے اور افراد کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہے۔

 

انسان اپنی ماں کی پیٹ سے آزاد جنم لیتا ہے۔ سو آزادی انسان کا پیدایشی حق ہے؛ جو اللہ سبحان تعالی اُسے عطا فرمائی ہے۔ چنانچہ انسان کو اپنے خالق کے سوا کسی کا محکوم نہیں ہونا چاہیے۔ چنانچہ فرد ہو یا ریاست، کسی کا بھی حق نہیں ہے کہ وہ انسانوں کے ایمان و علم و عمل راہ پر کوئی ایسا اقدام کرے یا قدغن لگائے یا اُس کے جان و مال اور آبرو کے خلاف جاتا ہو۔ ایک اسلامی ریاست میں کوئی بھی حکومت ایسی کوئی قانوں سازی نہیں کر سکتی جو انسانوں کے بنیادی حقوق پر قدغن لگائے۔ آزاد انسانوں کا معاشرہ خودمختاراور خوشحال ہوتا ہے۔ اسلامی ریاست آزاد انسانوں کی ریاست ہوتی ہےجو فلاحِ عام کے فلسفے پر قائم ہوتی ہےاور ایسی ریاست پر اللہ سبحان تعالی کا فضل و کرم نازل ہوتا ہے؛ یعنی دین و دنیا میں کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ ایسا حضرت سلیمان علیہ السلام کے دورِ حکومت اور آقا کریم محمدﷺ کی قائم کردہ مدینۃ الرسولﷺ کے دور حکومت و خلافت میں ہوا تھا۔

0
181
Jennifer Lopez and Ben Affleck

Jennifer Lopez and Ben Affleck

defaultuser.png
Laiba Rafiq
7 months ago
Books Review: Rasul Allah (SAWW) & Khulfaye Rashedon(RA) Kay Faislay Part-3 -- Bangbox Online

Books Review: Rasul Allah (SAWW) & Khulfaye Rashedon(RA) Kay Faislay P...

defaultuser.png
Bang Box Online
1 year ago
السَّفَرُ: آدَابٌ وأحْكامٌ; سفر کے آداب اور احکام

السَّفَرُ: آدَابٌ وأحْكامٌ; سفر کے آداب اور احکام

1714584133.jpg
Muhammad Asif Raza
7 months ago
Election Campaign Strategies: Leveraging SMS and Automated Voice Call Services

Election Campaign Strategies: Leveraging SMS and Automated Voice Call...

defaultuser.png
aaanvi
6 months ago
النَّزَاهَةُ رِفْعَةٌ وَكَـرَامَةٌ : دیانت داری شرافت اور وقار ہے

النَّزَاهَةُ رِفْعَةٌ وَكَـرَامَةٌ : دیانت داری شرافت اور وقار ہے

1714584133.jpg
Muhammad Asif Raza
4 months ago