الصراط المستقيم؛ حسنة في الدنيا و الآخرة

Life is a journey; it is pleasant, beautiful and enjoyable too, but it offers its bounty to only those who undertake this journey as per some principles and time tested methods. Al Quran is the final Holy Book revealed upon the Last of Prophets Hazrat Muhammad (PBUH). The Quran & Sunnah is the only source of holy guidance with detailed instructions for each and every walk of human life for a Muslim. This write up in Urdu "الصراط المستقيم؛ حسنة في الدنيا و الآخرة" is a discussion for success in this life as a person and as a Nation.

2025-03-08 19:26:26 - Muhammad Asif Raza

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے

 

الصراط المستقيم؛ حسنة في الدنيا و الآخرة

 

ہم مسلمان ماہِ رمضان المبارک بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ ماہِ صیام اللہ سبحان تعالی کی رحمت کا مہینہ ہے۔ اور اس کی رحمت کے امیدوار وہ بندے ہیں، جو اللہ جل شانہ اور رسول اللہ محمدﷺ کی اطاعت گذار ہوتے ہیں۔ اطاعت گذار صوم و صلوۃ کے پابند ہوتے ہیں۔ ہر مسلمان جب اللہ تعالی کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کرتا ہے تو اللہ سے عرض گذار ہوتا ہے "اهدنا الصراط المستقيم"؛ یعنی ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر چل کر انسان اس قول کا حامل بنتا ہے کہ "يقول ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار"؛ "یعنی اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا"۔

 

صراط المستقیم انسان کو دنیا و آخرت میں حسنۃ، خیر و بھلائی عطا کرتا ہے۔ دنیا کی بھلائی میں ہر اچھی اور مفید شے داخل ہے خواہ وہ کفایت کرنے والا رزق ہو یا اچھا گھر یا اچھی بیوی یا اچھی سواری یا اچھا پڑوس وغیرہا۔ آخرت کی بھلائی تو ہی مغز یعنی اصل مقصد زندگی۔ ہم یہاں پہلے دنیا کی زندگی میں خیر تلاش کرتے ہیں؛ مگر وہ تلاش نکلے گا الصراط المستقیم سے؛ یعنی اس دنیا میں زندگی گذارنے کا سیدھا طریقہ، سیدھا راستہ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ سیدھا راستہ کیا ہے؟

 

اللہ سبحان تعالی نے سورۃ يٰـسٓ کی آیات 60-61 میں فرمایا ہے کہ

اے آدم کی اولاد! کیا میں نے تمہیں تاکید نہ کردی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، کیونکہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔

اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا، یہ صِرَاطٌ مُّسْتَقِـيْـمٌ یعنی سیدھا راستہ ہے۔

 

اوپر کی آیات سے ایک سبق یہ ہے کہ دنیا میں ایک حق سچ کا راستہ ہے اور ایک غلط یا گمراہی کا راستہ ہے۔ یاد رکھیے کہ بالکل اسی طرح اس دنیا کی زندگی میں ہر انسان کو ہر دم ہر لمحے ایک امتحان ایک آزمائش درپیش ہوتا ہے اور وہ لمحہ ہوتا ہے کہ اس کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ صحیح راستہ چنتا ہے یا غلط۔؛ قانون کے درست سمت میں کھڑا ہوتا ہے قانون توڑتا ہے۔ اخلاق اور معاشرتی رسموں پر توجہ دیتا ہے یا سارے بندھن توڑ کر بدقماش بن جاتا ہے۔ ہر انسان کو دن کے چوبس گھنٹوں میں بارہا ایسے مراحل طے کرنے ہوتے ہیں کہ وہ صحیح اور غلط میں کس چناو کو اختیار کرتا ہے۔ آئیے ایک اجمالی نظر ڈالتے ہیں۔

 

یہ ماہِ رمضان کے مبارک دن ہیں تو ضروری ہے کہ ہم آغاز اس ماہ ہی سے کرتے ہیں۔ ایک مسلمان کے دن کا آغاز سحری سے ہوتا ہے؛ ایک صراط مستقیم پر چلنے والا مسلمان ہمیشہ سحری پر اس طرح اٹھے کہ دو رکعت تہجد پڑھ لے۔ رمضان میں آدمی دو وقت ہی کھاتا ہے سو اسے چاہیے کہ سحری بھی ذوق و شوق سے تناول کرے۔ اور پھر باجماعت فجر کی نماز میں شامل ہو۔ اس کے بعد قرآن سے لولگائے۔ کچھ ہی دیر میں سورج طلوع ہوجائے گا تو صبح کی سیر کرلے جس سے جسم تنومند رہے گا۔

 

یقین کیجیے کہ صراط مستقیم کے دو راستے ہیں ایک دنیا کا راستہ اور ایک آخرت کا راستہ۔ اگر خواہش دنیا کے حصول کی ہے تو وہ بھی دنیاوی صراط مستقیم پر چلنا ہوگا۔ اور دنیاوی صراط مستقیم دنیا کے معمولات کو مزین و منظم کئے بغیر حاصل ہوہی نہیں سکتا۔ اور اگرخواہش دنیا میں بھلائی حاصل کرنے کے لیے ہے؛ تو ضروری ہے کہ انسان اپنی روزمرہ کی زندگی کو کسی نظم وضبط کا پابند کرے۔ غیر منظم افراد نہ ہی دین کے ہوتے ہیں اور نہ ہی دنیا کے۔ معمولات زندگی میں منظم طریقہ کار صراط مستقیم کا راستہ ہوتا ہے۔ کیا وقت پر باجماعت نماز پڑھنا نظم و ضبط کے بغیر ممکن ہے؟ یاد رکھیے کہ اگر ہماری خواہش اللہ کی رضا ہے تو اپنی دنیاوی زندگی کو بھی منظم کیجیے اور دنیاوی معاملات میں بھی نظم و ضبط کو رائج کیجیے۔ 

 

ہم اس دنیا میں بچپن کی عمر سے نکلتے ہیں تو ہمیں سکول، کالج، یونیورسٹی، دفاتر، کاروبار وغیرہ سے جڑجاتے ہیں۔ ہم اس زندگی میں ہمیشہ کسی کردار میں ہوتے ہیں۔ یا تو ہم گاہک ہوتے ہیں یا پھر دکاندار؛ یا سائل ہوتے ہیں یا مدد گار، ہم آجر ہوتے ہیں یا آجیر۔ ہم کسی بھی کردار میں ہوں تو ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ہمارا کردار کیا ہونا چاہیے؛ اس میں درست اور غلط کیا ہے اور کام کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ صراط مستقیم کام کرنے کے صحیح طریقے پر عمل کرنا ہے۔

 

دنیا کے معاملات میں صراط مستقیم یہ ہے کہ دھوکہ نہ دیا جائے؛ فراڈ نہ کیا جائے؛ ملاوٹ نہ کی جائے؛ تول پورا کیا جائے؛ کام چوری اور تساہل سے دور رہا جائے؛ بےایمانی اور بدگمانی سے پرہیز کیا جائے؛ ظلم، جبر، زیادتی اور نا انصافی سے رک جایا جائے؛ چھینا جھپٹی مت کیجیے اور وعدہ ہر حال میں پورا کیا جائے۔ ایک دوسرے کے مددگار بنیں؛ چغلی اور غیبت سے بچیں؛ اخلاص ایمانداری، وفاداری اور عدل کو اپنائیں؛ ایثار اور قربانی کا جزبہ پالیں؛ ہمدردی اور غمگساری سے کام لیں۔ مولا علیؑ کا قول ہے کہ" زیردست مغلوب زندگی سے موت بہتر ہے اور جدوجہد آزادی میں موت زندگی ہے"؛ مغربی دنیا نے اس قول کو تین سو سال کی جدوجہد سے سیکھا اور جمہوریت کا نام دے کر اپنا لیا۔ اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ آج دنیا کی ترقی یافتہ ممالک دنیاوی صراط مستقیم پر چل کر ایک ایسا نظام بنا سکے ہیں کہ عام آدمی کی زندگی کے مسائل آسانی سے حل ہوجاتے ہیں۔ اور اجتماعی طور پر بحیثیت قوم ترقی کی میدان میں اگلی منزلوں کی طرف گامزن ہیں۔

آج مسلمان دنیا کی اکثریت ترقی پزیر ہے اورغربت اور کَسْم پُرْسی کے عالم میں رہ رہی ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے یا غور کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ یہ جہان ابلیس کی جنت ہے؛ اسے چھوٹ ہے اور اسلامی دنیا میں منافق شتونگڑے بھی آزاد ہیں کہ خوب رنگ جمائے بیٹھے ہیں۔ سو تقریبا تمام ہی مسلمان ملکوں میں ابلیسی ناچ جاری ہے۔ استغفر اللہ۔ اس ناچیز کی سوچی سمجھی رائےکہ امت مسلمہ نے صراط مستقیم کو چھوڑ دیا ہے۔ ہم دھڑلے سے ہرغلط راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ہم نے کوئی دنیاوی صراط مستقیم بنایا ہی نہیں ہے تو دنیا کیسے حاصل ہوگی؟ اور اخروی زندگی کا تو کل روزِ قیامت ہی پتہ چلے گا۔ مگر اقبال نے کہا ہے کہ

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

 

اگر ہمیں صراط مستقیم پر چلنا ہے اور حسنة في الدنيا و الآخرة حاصل کرنا ہے تو صرف ایک کام کو حرزِ جان بنالیں اور وہ ہے سچ بولنا۔ صادق بننا کیوں ضروری ہے؟ آقا کریم محمدﷺ نے فرمایا ہے کہ مسلمان بزدل ہوسکتا ہے؛ بخیل ہوسکتا ہے مگر کذاب یعنی جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ روایت ہے حضرت صفوان بن سلیم سے کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ فرمایا: ہاں۔پھر عرض کیا گیا :مومن کنجوس ہو سکتا ہے ؟فرمایا: ہاں۔ پھرعرض کیا گیا: کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ فرمایا نہیں۔(مالک،بیہقی،شعب الایمان)

راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فرماتےہوئے سنا:اے لوگو!جھوٹ سے بچو! کیوں کہ جھوٹ ،ایمان كو دور كر ديتا ہے۔ (مسند أحمد)

اور جب ایمان ہی نہیں ہوگا تو پھر کون سی دنیا اور آخرت کی کامیابی۔ آج مسلمان دنیا میں خوار اس لیے ہورہا ہے کہ وہ صرف زبانی ایمان کا دعوی دار ہے کیونکہ وہ جھوٹ اس طرح بولتا ہے کہ اسے اس خوفناک غلطی کا ادراک ہی نہیں ہوتا۔ آج مسلم معاشرہ جھوٹ پر کھڑا ہے؛ جہاں اس کا آئین جھوٹا ہے؛ اس کے قوانین غیراسلامی ہیں؛ اس کے رسم و رواج ڈھکوسلے پر قائم ہیں۔ سو نتیجہ یہ ہے کہ ذلیل اور رسوا ہیں۔

 

مغربی دنیا نے آخرت کی سیڑھی چھوڑ کر دنیاوی راستہ مزین اور منظم کیا ہے تو اس دنیا میں کامیاب ہیں؛ مسلمان نہ اس دنیا میں کامیاب ہیں اور محض امید حور پر زندہ ہیں مگر عمل ندارد۔ "عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی؛ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے"۔اقبال۔ 



آئیے اس ماہِ رمضان میں مصمم ارادہ کریں کہ الصراط المستقيم پر اس طرح چلیں کہ سچ کو اپنائیں؛ صادق بنیں تو یقین کیجیے کہ حسنة في الدنيا و الآخرة بالیقین ہماری منزل ہوگی۔ اس سے مفر دوسرا راستہ تباہی کا ہے؛ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ آج مسلمان دنیاوی زندگی میں ناکام و نامراد ہے اور خدانخواستہ آخرت کا گھر بھی مہیب ہوا تو بڑی خرابی ہے۔

 

آقا کریم محمدﷺ نے فرمایا " جو شخص (روزہ کی حالت میں) جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا (یعنی فریب، دھوکہ دینا)، اور جہالت کو (بیہودہ اعمال، باتیں) نہ چھوڑے تو الله کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ شخص اپنا کھانا اور پینا چھوڑے" بخاری 6057۔۔ آئیے رمضان المبارک میں اعمالِ صالحہ اپنائیں اور باقی زندگی میں زادِ راہ بنائیں۔

 

 سُبْحَانَ ذِی الْمُلْکِ وَالْمَلَکُوْتِ ط سُبْحَانَ ذِی الْعِزَّةِ وَالْعَظَمَةِ وَالْهَيْبَةِ وَالْقُدْرَةِ وَالْکِبْرِيَآئِ وَالْجَبَرُوْتِ ط سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْحَيِ الَّذِی لَا يَنَامُ وَلَا يَمُوْتُ سُبُّوحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا وَرَبُّ الْمَلَائِکَةِ وَالرُّوْحِ ط اَللّٰهُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّارِ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْر۔

’’پاک ہے (وہ اﷲ) زمین و آسمان کی بادشاہی والا۔ پاک ہے (وہ اﷲ) عزت و بزرگی، ہیبت و قدرت اور عظمت و رُعب والا۔ پاک ہے بادشاہ (حقیقی، جو) زندہ ہے، سوتا نہیں اور نہ مرے گا۔ بہت ہی پاک (اور) بہت ہی مقدس ہے ہمارا پروردگار اور فرشتوں اور روح کا پروردگار۔ اِلٰہی ہم کو دوزخ سے پناہ دے۔ اے پناہ دینے والے! اے پناہ دینے والے! اے پناہ دینے والے رحمن و رحیم رب؛ ہم ہر رحم فرما اور صراط المستقیم کا حصول ہمارے لیے آسان کردے۔ آمین ثم آمین!‘‘


More Posts