السّلامُ علیکم ورحمةُ اللہ وبركاته
Greeting is a formal expression of goodwill, said on meeting or in a written message; is often a polite word or sign of welcome or recognition; and may be an action of giving a sign of welcome. The Muslims greet each other with May God’s peace, mercy, and blessings be upon you. This write up "السّلامُ علیکم ورحمةُ اللہ وبركاته" is to highlight the message of greeting in a society.
2025-04-04 11:22:48 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
السّلامُ علیکم ورحمةُ اللہ وبركاته
اسلام ایک مکمل دینِ حیات ہے اور زندگی کے تمام پہلووں اور جہتوں کے لیے تمام انسانوں اور ذی حیات کے لیے رہنمائی کرتا ہے۔ چنانچہ یہ کیسے ممکن ہے میل ملاقات جو عام زندگی کا اہم خاصہ ہے اور پر آن، ہر دم ہم اس کے گذرتے ہیں؛ کے لیے کوئی طریقہ یا ہداہت نہ ہوتی۔ دینِ اسلام کے پیغمبرِ خاتم اور حبیب کبریاء محمدﷺ نے تمام مسلمانوں کو میل ملاقات کی ابتداء پر سلام کرنا سکھایا ہے؛ یعنی " السلام علیکم و رحمۃ و برکاتہ" کہنا [ "آپ پر سلامتی ہو اللہ تعالی کی رحمتوں اوربرکتوں کا نزول ہو"] اور دوسرے کے لیے بھی اس کا جواب دینا لازم قرار دیا کہ کہے " وعلیکم السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ" [ " اور آپ پر بھی سلامتی ہو اللہ تعالی کی رحمتوں اوربرکتوں کا نزول ہو"]۔
سلام کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔ سلام اسلام کا شعار ہے۔ سلام ایک متبرک اور دعائیہ کلمہ ہے؛ اور اس کا بہت شدت سے تذکرہ ہوا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ " اے عائشہ! یہ جبرئیل تھے،تمہیں سلام کہہ رہے ہیں، میں نے کہا : وعلیہ السلام ورحمة اللّٰہ وبرکاتہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اِس پر اضافہ کرنے لگیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلام کی حد یہیں تک ہے، پھر آپ نے (مذکورہ آیت) پڑھی (اللہ کی رحمت اور برکات تم پر ہوں اے اہل بیت!)"۔ (بخاری، رقم: ۳۰۴۵، بدء الخلق)
دنیا بھر کی قوموں میں اس بات کا رواج ہے کہ آپس میں ملاقات کے وقت کوئی کلمہ آپس کی موانست اور اظہارِ محبت کے لئے ایک دوسرے سے کہیں۔ دین اسلام نے بھی اس کا اہتمام کیا گیا؛ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہوئے باہمی موانست و اظہارِ محبت کے لئے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو ” سلام“ کرنے اور دوسرے مسلمان کا پہلے مسلمان کے ” سلام“ کا جواب دینے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ
" اور جب تمہیں کوئی کسی لفظ سے سلام کرے تو تم اس سے بہتر لفظ جواب میں کہو یا وہی کہہ دو بے شک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے۔ (سورۃ النساء آیت ۸۶)
’’اے لوگو! جوایمان لائے ہو، اپنےگھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس بات کا خیال رکھوگے۔‘‘ (سورۃ النور:۲۷)
’’البتہ جب گھروں میں داخل ہوا کرو تواپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، یہ دعائے خیر ہے اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی، بڑی بابرکت اور پاکیز۔‘‘(النور:۶۱).
حضور نبی کریمﷺ نے مسلمانوں کے باہمی ”سلام“ کو رواج دینے کی بڑی تاکید فرمائی ہے اور اس عمل کو سب اعمال سے افضل قرار دیا ہے اور اس کے فضائل و برکات اور اس کا (خوب) اجر و ثواب بیان فرمایا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا: ” تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم مومن نہ ہو ، اور تمہارا ایمان (اس وقت تک) مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ، میں تم کو ایک ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمہارے آپس میں محبت قائم ہوجائے گی ، وہ یہ کہ آپس میں” سلام“ کو عام کرو ، یعنی ہر مسلمان کو سلام کرو خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو۔“ (صحیح مسلم)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ : ” ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا : ” اسلام میں سب سے افضل عمل کون سا ہے؟۔“ آپ نے فرمایا : ” تم لوگوں کو کھانا کھلاو اور سلام کو عام کرو چاہے تم کسی کو پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو۔“ ( بخاری و مسلم)
حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو ”سلام“ کرنے میں ابتداءکرے۔ “ ( ترمذی ، ابو داود ، مسند احمد)
ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں ایک صاحب آئے اور کہا: ”السلام علیک یا رسول اللہ!“آپ نے اس کے جواب میں ایک کلمہ بڑھا کر فرمایا : ” وعلیکم السلام ورحمة اللہ“ ۔ پھر ایک دوسرے صاحب آئے اور انہوں نے کہا : ” السلام علیک یا رسول اللہ ورحمة اللہ۔“ آپ نے اس کے جواب میں ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا : ” وعلیکم السلام ورحمة اللہ و برکاتہ ۔“ پھر ایک تیسرے صاحب آئے اور انہوں نے کہا : ” السلام علیک یارسول اللہ و رحمة اللہ و برکاتہ ۔“ آپ نے جواب میں صرف ایک کلمہ : ”وعلیک“ ارشاد فرمایا ، ان کے دل میں شکایت پیدا ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ! : ” میرے ماں باپ آپ پر قربان ! پہلے جو حضرات آئے آپ نے ان کے جواب میں کئی کلمات دعاءکے ارشاد فرمائے اور میں نے ان سب الفاظ سے سلام کیا تو آپ نے ” وعلیک“ پر اکتفاءفرمایا ۔“ آپ نے ارشاد فرمایا کہ : ” تم نے ہمارے لئے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں اضافہ کرتے ، تم نے سارے ہی کلمات اپنے” سلام“ میں جمع کردیئے ، اس لئے ہم نے قرآنی تعلیمات کے مطابق تمہارے سلام کا جواب بالمثل دینے پر اکتفاءکرلیا ۔( ابن جریر و ابن ابی حاتم)
سوار کو چاہیے کہ وہ پیدل چلنے والے کو سلام کرنے میں پہل کرے ، اور پیدل چلنے والابیٹھنے والے کو سلام کرنے میں پہل کرے، اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کرنے میں پہل کریں۔اسی طرح گھر میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلے اپنے گھر والوں کو سلام کرنا چاہیے کہ اس سے ”سلام“ کرنے والے کے لئے بھی برکت ہوگی اور اس کے گھر والوں کے لئے بھی ۔ (ترمذی)
علامہ ابن العربی ؒ نے اپنی مایہ ناز تصنیف” احکام القرآن“ میں لکھا ہے کہ لفظ” سلام “اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے اور ” السلام علیکم“ کے معنی ہیں : ”اللہ رقیب علیکم “ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارا محافظ اور نگہبان ہو۔ سلام کرنے سے ہم اپنے ملاقاتی کو یہ اطمینان دلاتے ہیں کہ اس کو ہماری نیت، زبان، ہاتھ پیر، اور دیگر اعضا وجوارح سے جانی ومالی ہر اعتبار سے مامون دی گئی ہے۔ گویا سلام اظہار ہمدردی کے ساتھ ادائے حق بھی ہے کہ سلام کرنے والا اپنے ملاقاتی کے لیے خیر وبقا کی دعا کرتا ہے۔
سلام سے مراد دراصل سلامتی ، امن اور عا فیت ہے ۔ سلامتی میں انسان کی ساری زندگی اس کے معمولات ، تجارت ، اس کی زراعت اور اس کے عزیزو اقا رب گویا معاشرتی زندگی کے سب پہلو ، دین دنیا اور آخرت شامل ہوتے ہیں ۔ ہم جب کسی کو سلام کرتے ہیں تو اسے سلامتی کی دعا دیتے ہیں کہ اللہ تمہیں سلامت رکھے۔ سلامتی کی اس دعا میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم کسی کو سلام کرتے ہیں تو گویا اسے اپنی طرف سے سلامت رہنے کی ضمانت بھی فراہم کرتے ہیں۔
سلام اتنا اہم کلمہ ہے کہ جنت والوں کو اللہ سبحان تعالی کہیں گے کہ "پروردگار مہربان کی طرف سے سلام (کہا جائے گا)"۔ ﴿سورۃ یٰس٥٨﴾۔
"تو داروغہ جنت ان سے کہے گا۔ تم پر سلام ہو ،تم بہت اچھے رہے ۔اب اس میں ہمیشہ کے لیئے داخل ہو جاؤ۔" ﴿سورة الزمر٧٣﴾۔
"وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ ،وہاں ان کا کلام سلام ،سلام ہو گا۔" ﴿سورة الواقعۃ۲۵-۲۶﴾۔
برادران وہمشیران اسلام؛ حضور اکرم رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگنے کا حکم فرمایا ہے کہ " اللهم انت السلام ومنك السلام تباركت يا ذالجلال والاكرام"۔ یعنی "اے اللہ!تو سلامتی کا منبع ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے ، اے عزت اور بزرگی کے مالک تیری ذات ہی با برکت ہے"۔ تو ہمیں کیا معانع ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اس کلمہ خیر کو رائج نہ کریں؟ سلام کی اہمیت اور ثمرات تقاضا کرتے ہیں کہ ہم شعوری طورپر اس سنتِ مطہرہ کا اپنی زندگی میں خود بھی اہتمام کریں۔اور اپنے دوست و احباب؛ عزیز و اقارب و رشتہ داروں کو بھی وقتاً فوقتاً تاکید کرتے رہیں۔اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین