We, the humans are the special creature on habitat Earth. Our way of life leaves long lasting effects on our habitat. The World should be a peaceful dwellings but it is not. It is therefore very important to keep one hopes intact and keep the flame of hopes for good burning always. This write up in Urdu is to spread the message of hope.
اک چراغ کیا جلا، سو چراغ جل اٹھے
ہم انسان اس دنیا میں اشرف المخلوقات کے درجے پہ فائق ہیں۔ ہماری عمر رواں شب و روز کی کہانی ہے اور یہ کہانی روشن دن اور شب تاریک کی داستان کے طور پر سنائی جاتی ہے۔ ہر دور کا انسان اپنے طور پر اپنا سکھ اور دکھ بیان کرتا ہے۔ انسانوں نے اپنی خوشیوں اور غموں کی پوٹلی کھول کر بیان کرنے کے لیے استعاروں اور محاورات کا استعمال سیکھ لیا تو دکھ سیاہ رات بن گئے اور چراغ تاریک سیاہ رات میں اجالے کا استعارا۔ انسانوں نے جب سے بستی بنا کر رہنا سیکھا ہے؛ انسان دوستی، ہمدردی اور انصاف پسندی کی خواہش میں جیا ہے مگر اکثر اس کے مخالف ہی ہوا ہے؛ اور ظلم اور جبر کا دور مڑ مڑ کر اپنا چہرہ دکھاتا رہتا ہے۔ انسانی تاریخ نے دیکھا ہے کہ ایک چراغ کے جلنے سے دوسرے چراغ بھی روشن ہوجاتے ہیں، اور یوں ظلم اور استبداد کا دور ختم ہوجاتا ہے؛ اور ایک گروہ انسان اور ایک قوم اپنی آزادی حصل کر لیتی ہے۔
شہر کے اندھیرے کو اک چراغ کافی ہے
سو چراغ جلتے ہیں اک چراغ جلنے سے
احتشام اختر
جو ہو یقین تو بس اک چراغ کافی ہے
نہ ہو تو لاکھ مہ و مہر رائیگاں ہو جائیں
عرفان وحید
ہمارا دور اندھیروں کا دور ہے لیکن
ہمارے دور کی مٹھی میں آفتاب بھی ہے
کنول ضیائی
یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے
ہوا کی اوٹ بھی لے کر چراغ جلتا ہے
منظور ہاشمی
جناب افتخار عارف کہتے ہیں کہ " ہوا کے پردے میں کون ہے جو چراغ کی لو سے کھیلتا ہے؛ کوئی تو ہوگا؟ مگر کوئی تو ہے جو طوفانوں میں بھی چراغ بجھنے نہیں دیتا۔ کیا ہم اسے نہیں جانتے؟ انسانوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہوا تو چراغ کی دشمن ہی ہوتی ہے مگر پھر بھی ہر رات مسافر تنہا اور قافلوں کی صورت میں اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ ہر رات بالآخراختتام پذیر ہوتی ہےاور سحر طلوع ہوکر رہتی ہے؛ اور روشن دن ہمارے سامنے پیش ہوجاتا ہے۔
آزاد انسانوں کے دیس کے باسیوں کے دل اعتماد سے بھرے ہوتے ہیں کہ ان کی فکر اور سوچ میں جلتے چراغ بے وقعت، بے حیثیت نہیں ہوتے۔ ایسے ملک اور قوم کے باسی افلاس اور مصائب جھیلتے ہر جبر اور طاغوت کی دیوار گرا کر ہمیشہ آگے بڑھتے ہیں۔ وہ مایوسی بے روزگاری، بھوک اور افلاس سے محبور ہو کر نہیں مرتے۔ ہمت کا علم بلند رکھنے والوں کا دل ایک ایسا روشن چراغ ہوتا ہے کہ ہر روز طلوع ہونے والا سورج ان کے لیے ایک روشن دن بن کر ابھرتا ہے۔ ایسی قوموں میں ایک چراغ کئی چراغ بن کر روشن رہتے ہیں۔
علامہ محمد اقبال نے ایک بچے کی دعا کی نظم میں راہنمائی فرمائی ہے کہ
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری!
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے!
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے!
نگار صبح کی امید میں پگھلتے ہوئے
چراغ خود کو نہیں دیکھتا ہے جلتے ہوئے
عبید اللہ علیمؔ
ہوا سے کس لیے یاری نہیں کرتے؟
چراغو کیوں سمجھ داری نہیں کرتے؟
دیش راج کیف
اردو زبان کی شاعری میں اندھیرا بطور استعارا پھیل کرزندگی کی ساری منفیت کوگھیر لیتا ہے۔ اندھیرے کو کئی استعاراتی شکلوں میں استعال کیا گیا ہے۔ بعض جگہوں پریہی اندھیرا جدید زندگی کی خیرہ کن روشنی کے مقابلے میں ایک طاقت بن کرسامنے آتا ہے اورزندگی کی مثبت اقدارکا اظہاریہ ہوتا ہے ۔ اندھیرا صرف ایک لفظ نہیں ہے بلکہ تصورات کے دور تک پھیلے ہوئے علاقے کی ایک خارجی علامت ہے ۔ چراغ کی اہمیت کا جاننے کے لیے اندھیرا کیا ہے؟ کو بھی سمجھنا اہمیت کا حامل ہے۔ ہم کبھی کبھی روشنی کی آرزو میں اندھیر نگری بھی پہنچ جاتے ہیں۔ ذیل میں اس بابت کچھ اشعار پیش کے جاتے ہیں۔
جس زہر نے کر ڈالا گگن نیلا سحر تک
وہ زہر مرے خوں میں گھُلا تیز بہت ہے
یاور ماجد
اندھیرا رات کا اس وقت بوڑھا ہونے والا ہے
دریچے کھول کر دیکھو سویرا ہونے والا ہے
مستقیم ارشد
جو اہل دل ہیں ترے غم کی قدر کرتے ہیں
یہ اک چراغ ہی کافی ہے روشنی کے لئے
مجید کھام گانوی
دیتے نہیں سجھائی جو دنیا کے خط و خال
آئے ہیں تیرگی میں مگر روشنی سے ہم
انجم رومانی
روشنی پھیلی تو سب کا رنگ کالا ہو گیا
کچھ دیئے ایسے جلے ہر سو اندھیرا ہو گیا
آزاد گلاٹی
بڑے خلوص سے مانگی تھی روشنی کی دعا
بڑھا کچھ اور اندھیرا چراغ جلنے سے
مظفر وارثی
انسانی تاریخ کا سب سے مستند سبق یہ ہے کہ امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے؛ "چراغ جلتا رہنا چاہیے"۔ امید کا دیا، شب دیجور کی کالی سیاہی میں بھی، ظلم و جبروت کا سخت شکنجے میں بھی؛ اچھے سمے کے بھروسے کو قائم رکھتا ہے۔ کیونکہ" لمبی ہے ظلم کی رات مگر رات ہی تو ہے"۔ اک ذرا چراغ روشن ہوا نہیں تو سارا اندھیرا غائب ہوجاتا ہے۔ ’’وقت وقت کی بات ہوتی ہے"؛ " کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں"؛ مگر وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا؛ سحر انکو ضرور ملتی ہے جن کے دل میں امیدِ سحر کا چراغ جلتا رہتا ہے۔ وقت کا سفاک بہاؤ، زندگی کو کتنا ہی جبروت سے بھر دے، ایک نیا دن؛ ایک نئی صورت ضرور ابھرتی ہے۔ کبھی صورت خوشگوار ہوتی ہے اور کبھی تکلیف دہ۔ مگر کامیاب لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنا آج ضائع نہیں کرتے اور مسلسل امید کا چراغ روشن رکھتے ہیں۔
مجھ کو کافی ہے بس اک تیرا موافق ہونا
ساری دنیا بھی مخالف ہو تو کیا ہوتا ہے
رنجور عظیم آبادی
تمام رات مسلسل ایاغ چلتا رہا
درون قلب مسلسل چراغ جلتا رہا
پروین شغف
وہ چراغ زیست بن کر راہ میں جلتا رہا
ہاتھ میں وہ ہاتھ لے کر عمر بھر چلتا رہا
گلنار آفرین
آج کی رات ہوائیں بے حد سرکش لگتی ہیں
آج چراغ جلائے رکھنا کتنا مشکل ہے
نسیم سحر
عاشق نہ ہو تو حسن کا گھر بے چراغ ہے
لیلیٰ کو قیس شمع کو پروانہ چاہیے
بیدم شاہ وارثی
کشش چراغ کی یہ بات کر گئی روشن
پتنگے خود نہیں آتے بلائے جاتے ہیں
پرنم الہ آبادی
ہَوا ہے گو تُند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندازِ خسروانہ
محمد اقبال
روشنی کیا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ روشنی کے برعکس حالت کو ہم اندھیرے سے تعبیرکرتے ہیں؛ یعنی جب روشنی نہیں رہتی تو اندھیرا ہوجاتا ہے۔ جس معاشرے میں چراغ جلانے کی رسم اور روایت نہ ہو؛ وہ اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے۔ اور جس قوم میں سچے، کھرے اور ایماندار ضمیر انسان چراغ بن کر روشن نہ پھیلائیں وہ قوم جلد یا بدیر ظلم اور استنبداد کے اندھیروں میں فنا ہو جاتی ہے؛ اور تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اللہ بزرگ و برتر نے پچھلی اقوام مین نبی، پیغمبر اور رسول بھیجے ہیں اور جن اقوام نے اپنے مرسلین کی جلائے چراغ سے تونائی پائی، وہ کامیاب ہوئے۔ مگر اب اس خالق و مالک کُل نے شریعت بدل لی ہے؛ آقائے دو جہان ختم المرسلین محمدﷺ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اللہ سبحان تعالی اب انسانی بستیوں میں ایسے دیدہ ور پیدا کرتا ہے جو اپنی قوم کو مشکلات سے نکلنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ مغرب اقوام نے اپنی بستیوں کے روشن چراغوں سے روشنی حاصل کی اور متعدد چراغ جلاتے گئے اور آج دنیا کی عزت دار طاقتور قوم ہیں۔ اگر ہم نے بھی ملک، قوم اور سلطنت کو عروج دلانا ہے تو ہمیں اپنی صفوں میں اپنے چراغ جلانے ہونگے۔
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا
الطاف حسین حالی
عجیب بات ہے دن بھر کے اہتمام کے بعد
چراغ ایک بھی روشن ہوا نہ شام کے بعد
شوکت واسطی
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے۔۔۔
بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری ہے؛
بنام زہرہ جبینان خطۂ فردوس۔۔
کسی کرن کو جگاؤ بڑا اندھیرا ہے
ساغر صدیقی