Afghanistan is a neighboring country of Pakistan and was one of few who voted against its recognition at UNO. Afghans are fighting for its independence since 1979. This essay discusses about the relationship of Afghans' resistance with Pakistan and fate of two neighbours.
۱۹۴۷ عیسوی میں جب پاکستان آزاد ہوا تو افغانستان ان چند ملکوں میں تھا جس نے اسے قبول نہی کیا۔
اس وقت وہاں ظاہر شاہ کی حکومت تھی۔ جو آخری بادشاہ بھی ہوا۔ یہ درانی خاندان کا چشم و چراغ تھا اور اس نے وقت کی نزاکتوں کو بھانپتے ہوئے ملک میں جدت پسندی کو فروغ دیا۔ اس وقت وہاں رشین بلاک اور سامراجیت پسندوں کے درمیان رسہ کشی جاری تھی۔
دلچسپ معاملہ یہ ہے کہ ان دو گروہوں کا افغان اور خاص طور پر پشتون قوم کی بنیادی شرست اور رویوں سے بلکل مختلف تھا جو اسلام پرست اور قبائلی معاشرہ کی عکاس تھا۔ افغان قوم کی اکثریت اسلامی شعار پر عمل پیرا تھی اور اسے جدت طرازی کی کرشمہ سازی سے کوئی دلچسپی نہی تھی۔ مگر حکومتی ایواںوں میں براجمان گروہ افغانستان کو روشن خیال، ترقی پسند اور جدید ریاست بنانا چاہتے تھے۔ افغان اشرافیہ کے ہندوستانی بنیے سے پرانے مراسم تھے اور ہندوستان کے بڑے تجارتی مراکز میں ان کا جما جمایا کاروبار تھا۔ دو قومی نظریے پر قائم پاکستان ان کے لیے ایک رکاوٹ بن کر ابھرا تھا۔ ایک اسلامی ریاست کا قیام جو اسلامی بلاک کی تعمیر کا خواب لے کر بنا تھا جدید روشن خیال افغانسان اشرافیہ کے لیے خطرہ تھا۔ سو انہوں نے اس کو قبول نہی کیا۔
پاکستان کا قیام ہندو بنیے اور انکے کاسہ لیس افغان حکمران اشرافیہ کے لیے کیوں نامنظور تھا وہ اس نظم میں پیش ہے جو ایک نوجوان اصغر سودائی نے 1944 میں لکھی تھی۔
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟ ــــــــــ ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ
ﺷﺐ ﻇﻠﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﯼ ﮨﮯ
ﺍﭨﮫ ﻭﻗﺖ ﺑﯿﺪﺍﺭﯼ ﮨﮯ
ﺟﻨﮓ ﺷﺠﺎﻋﺖ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ
ﺁﺗﺶ ﻭ ﺁﮨﻦ ﺳﮯ ﻟﮍ ﺟﺎ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟
ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ
ﮨﺎﺩﯼ ﻭ ﺭﮨﺒﺮ ﺳﺮﻭﺭ ﺩﯾﮟ
ﺻﺎﺣﺐ ﻋﻠﻢ ﻭ ﻋﺰﻡ ﻭ ﯾﻘﯿﮟ
ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﺣﺴﯿﮟ
ﺍﺣﻤﺪ ﻣﺮﺳﻞ ﺻﻠﯽ ﻋﻠﯽ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟
ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ
ﭼﮭﻮﮌ ﺗﻌﻠﻖ ﺩﺍﺭﯼ ﭼﮭﻮﮌ
ﺍﭨﮫ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺑﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻮﮌ
ﺟﺎﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﺟﻮﮌ
ﻏﯿﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﭩﺎ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟
ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ
ﺟﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮨﮯ ﺗﻮ
ﮨﻤﺖ ﻋﺎﻟﻤﮕﯿﺮ ﮨﮯ ﺗﻮ
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﮨﮯ ﺗﻮ
ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﺑﻨﺎ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟
ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ
ﻧﻐﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻋﺠﺎﺯ ﯾﮩﯽ
ﺩﻝ ﮐﺎ ﺳﻮﺯ ﻭ ﺳﺎﺯ ﯾﮩﯽ
ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﯾﮩﯽ
ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻨﺎ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟
ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ
ﮨﻨﺠﺎﺑﯽ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺍﻓﻐﺎﻥ
ﻣﻞ ﺟﺎﻧﺎ ﺷﺮﻁ ﺍﯾﻤﺎﻥ
ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺟﺴﻢ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺟﺎﻥ
ﺍﯾﮏ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺧﺪﺍ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟
ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ
ﺗﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺧﺎﻟﺪ ﮐﺎ ﻟﮩﻮ
ﺗﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﻃﺎﺭﻕ ﮐﯽ ﻧﻤﻮ
ﺷﯿﺮ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﺷﯿﺮ ﮨﮯ ﺗﻮ
ﺷﯿﺮ ﺑﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺁ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟
ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ
ﻣﺬﮨﺐ ﮨﻮ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﮐﮧ ﻓﻦ
ﺗﯿﺮﺍ ﺟﺪﺍﮔﺎﻧﮧ ﮨﮯ ﭼﻠﻦ
ﺍﭘﻨﺎ ﻭﻃﻦ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻭﻃﻦ
ﻏﯿﺮ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺖ ﺁ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟
ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ
ﺍﮮ ﺍﺻﻐﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﮮﻧﻨﮭﯽ ﮐﻠﯽ ﭘﺮﻭﺍﻥ ﭼﮍﮬﮯ
پھول ﺑﻨﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻣﮩﮑﮯ
ﻭﻗﺖ ﺩﻋﺎ ﮨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎ
ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟ ــــــــــ ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ
پاکستان کے قیام پر ۱۹۴۰ سے ۱۹۴۷ تک بہت علمی بحث ہوئی۔ بی آر امبیدکر المعروف نیتا جی نے "تھوٹس آن پاکستان " نامی کتاب میں پاکستان کے مغرب میں ایران اور افغانستان سے متصل اسلامی ممالک کے بلاک پر ہندوستان کے باسیوں کے لیے بری خبر کی منادی کی تھی۔ پاکستان کا قیام اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا مظہر تھا سو پین اسلامزن کی روک تھام کے لیے افغانستان کے روشن خیال ترقی پسند حکمران اشرافیہ کو پروان چڑھایا گیا۔ ۱۹۱۹ میں اشتراکی طاقتوں نے زارِ روس کو ہٹھا کر سویٹ رشیا کا قیام کرلیا تھا۔ اور اس سے متعلق گریٹ گیم نامی تھیوری کو خوب ترویج دیا گیا جس کے تحت اشتراکیت کو گرم پانیوں تک رسائی کے لیے پاکستان کا ساحل چاہیے تھا۔ اس ضمن میں پاکستان کے قبائل اور بلوچ سرداروں کو حسین خواب دکھائے گئے۔ ان میں پیش پیش سرحدی گاندھی باچا خان اور کچھ بلوچ ناموران بھی تھے۔ افغانستان کے ظاہر شاہ نے پاکستان کی سرحد ڈیونڈر لائن کو سرحد ماننے سے انکار کردیا اور یہاں سے پختونستان کا نعرہ لگایا گیا۔
اس طرح دوسری جنگِ عظیم کے بعد قائم کی جانے والی عالمی اتحادی نظم کی بساط بجھائی گئی اور طاقتور کی لاٹھی کا کھیل جاری رہا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس وقت ایران پہلوی خاندان کی تحت امریکہ کا اتحادی تھا۔ مزید یہ کہ افغانستان کوئی ترقی یافتہ، ماڈل ریاست نہی تھی۔ ہاں شاہی خاندان اور حکمران اشرافیہ نے کچھ خوشحالی کے جزیرے بنا رکھے تھے۔ عام افغانی کے پاس اللہ کی زمین پر اللہ ہی کا آسرا تھا۔ بھوک تھی، غربت تھی اور جہالت تھی۔ انکے پاس اللہ کا نام تھا، رسولِ پاک محمد صلی اللہ و علیہ وسلم کے امتی کا فخر تھا اور قرآن کا اعجاز تھا۔ اور وہ اس میں مست تھا۔ اس عالم میں ایک اسلامی ریاست انکے جزبوں کو مہمز کرسکتی تھی اس لیے افغانستان کو بفر اسٹیٹ بنایا گیا اور پاکستان سے نفرت کے لیے پختونستان کا نعرہ ایجاد کیا گیا۔ اس طرح اسلام کی نشاطِ ثانیہ آگے نہی بڑھا اور اشتراکیت کو بھی مزید پھیلنے سے روک دیا گیا۔ یہ کھیل ۱۹۷۳ تک جاری رہا۔
۱۹۷۳ عیسوی میں کھیل میں بگاڑ پیدا ہوا۔ پاکستان اور افغانستان میں اشتراکیت پسند مارکسی کامریڈوں کو عروج حاصل ہوا۔ پاکستان میں بھٹو کا آئینی جمہوری اقتدار مضبوط ہوا اور افغانستان میں سردار داود نے رشین شہ پر ظاہر شاہ کو بیدخل کردیا۔ صاف نظر آرہا تھا کہ سرخ ریچھ اب افغانستان پر قبضہ کرنے والا تھا۔ اورجب اس نے وسط ایشیائی مسلم ریاستوں پر قبضہ کیا تو وہاں کی مسلمان آبادی کی مذہبی آزادی چھین لی۔ چنانچہ سردار داود کے اقتدار پر قبضے نے فکر اور دانشِ حریت رکھنے والے افغانوں کو پریشانی ہوئی تو انکو پاکستان کے سوا کوئی دوسرا سہارا نہی ملا۔
پاکستان میں روسی کامریڈوں نے پاکستان اور افغانستان کو سرخ کرنے کا نعرہ لگا دیا۔
پھر ۱۹۷۹ کو ایک اور تاریخی زلزلہ رونما ہوا۔ کابل میں کٹھ پتلی کامریڈوں کی دعوت پر روسی فوجوں نے افغانستان پر چڑھائی کردی۔ اور ایشیاء میں سرخ انقلاب کی جنگ کا آغاز کردیا گیا۔ اسی دوران پاکستان میں ۱۹۷۷ میں جنرل محمد ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اور ایران پر آیت اللہ خمینی نے حکومت قائم کرلی۔
دنیا کی طاقتوں نے روسی اقدام پر ٹسوے بہائے اور تصور کیا کہ افغانستان کا حال بھی دیگر وسط ایشیائی ریاستوں جیسا ہوگا۔ مگر جنرل ضیاء اس وقت ایک آہنی عزم سے ابھرا۔ اس نے روس کو سبق سکھانے کا ارادہ کیا۔ اس نے افغانی اسلام پسندوں کو اکھٹا کیا اور پاکستان انٹیلیجنس کو بروئے کارلایا۔ صدر ضیاء الحق نے بارہا پاکستانی قوم کو افغان جہاد پر اکسایا اور اس کی اہمیت جتائی۔ ملاحظہ ہو یہ دو کلپ, جو اوپر دیے گئے ہیں۔۔۔
https://www.youtube.com/watch?v=fuX5E8Y0r38 اور
https://www.youtube.com/watch?v=3aFHy8QabB8
پاکستان کی اس وقت کی فوجی قیادت کو یہ واضع تھا کہ روس کو افغانستان میں صرف جہاد ہی سے شکست ہوسکتی ہے اور اس کے لیے دیگر اسلامی ممالک سے مدد مانگی گئی۔ دوسرے مسلمان ملکوں سے بھی حریت پسند لوگوں نے اس جہاد میں حصہ لیا۔ پھر مغربی ممالک آگے بڑھے اور امریکہ بشمول نیٹو نے اس میں حصہ لیا۔ مگر یاد رکھیے کہ اس جنگ میں اگر کسی نے جان لڑائی تو وہ صرف افغان مجاہدین تھے جو پشتون بھی تھے اور ازبک، تاجک اور ہزارہ بھی۔ دس سال وہ خونریزی جاری رہی۔ مگر جب روس فوج دریائے آمو کے پار گئی تو افغان آپس کی لڑائی میں مشغول ہوگئے اور جو جنگ اسلامی جہاد کے لیے لڑی گئی وہ مفادات کے حصول کی جنگ بن گئی۔ امریکہ اور حواریوں نے اپنی فتح کا آلاپ لگایا اور خود مسلمان یہ سمجھ بیٹھے کہ امریکہ بہت بڑی طاقت ہے اور اسنے روس کو شکست دی۔ اس سے مسلمانوں کو کوئی تقویت نہی ملی ۔ اور اسلام ایک مکمل دین حیات ہے اور اسلام ایک نظامِ زندگی کا حامل ہے اس پر کوئی توجہ نہی دی گئی۔ لیکن جب روس ٹوٹ گیا اور برلن دیوار گرگئی تو نیٹو کو ختم نہی کیا گیا اور پوچھنے پر کہا گیا کہ اسلام بطور ایک سیاسی قوت کو ختم کئیے بغیر اسے سمیٹا نہی جاسکتا۔
اس وقت دنیا میں صرف دو ملک تھے جنہیں اسلامی قوت کہاجاسکتا تھا؛ پاکستان اور افغان مجاہدین۔ اس وقت القائدہ میں عرب مجاہدین بھی شامل تھے اور وہ زیادہ تر افغانستان میں رہ رہے تھے۔ افغان جہاد میں شامل افراد کی صلاحیتوں نے مغربی طاقتوں کو پریشان کیا ہوا تھا اور وہ سب اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ ۹/۱۱ کا بہانہ تراشا گیا۔ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ بدمست ہاتھی کی طرح افغانستان پر پل پڑا۔ اور آنا" فانا" کابل پر ملا عمر، جو ایک طالبان رہنما تھے، کو نکال باہر کیا۔ طالبان پاکستان اور افغانستان میں قائم اسلامی مدرسوں میں دین کا علم حاصل کرنے والے تھے جنہوں نے افغانستان میں جاری خونریزی کو روکنے کے لیے ہتھیار اٹھا لیا اور اپنے سلوک کے باعث کابل پر حکمران بن گئے۔ یہ دیوبندی مسلک کی شریعت کو نافذ کر رہے تھے۔ شمالی اتحاد جو زیادہ تر شعیہ مسلک کے ماننے والے تھے، انکے خلاف ہوگئے اور جب امریکہ اور اتحادی ۲۰۰۱ کے بعد یہاں وارد ہوئے تو انہوں نے انہیں خوش آمدید کہا۔ اور انکے ساتھ ملک کر کابل کے حکمران بن گئے.
دعوی تو کیا گیا کہ امریکہ بشمول اتحادی افغانستان سے دہشتگردوں کا صفایا کرنے آئے ہیں جن سے مغربی تہذیب کو خطرہ ہے۔ ہر اس شخص کو جس نے اسلام کی حقانیت اور اللہ کی حاکمیت کی بات کی اسے دہشتگرد قرار دیاگیا۔ اور اس کا تورابورا کیا گیا۔ پاکستان، افغانستان، کشمیر، فلسطین، ایشیاء، افریقہ یورپ اور امریکہ، ہر جگہ سے اسلام پسندوں کو پکڑ پکڑ کر پابندِ سلاسل کیا گیا۔ الغریب، بگرام، اور گوانتانامہ بے جیسے جسمانی تشدد کے مراکز بنائے گئے۔ انسانی حقوق کی آزادی کے لیے مسلمان حریت پسندون کو بدترین غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔
افغانستان کی تاریخ کا تصویری جائزہ اس لنک پر حاصل کریں۔
https://www.nationalgeographic.com/history/article/centuries-long-struggle-for-afghanistan
افغانستان کی آزادی کی جنگ لڑنے والے مجاہدین کی فکری جہت کو سمجھنے کے لیے اس ترانے کو غور سے پڑھیں جو اسلامی امارت افغانستان کے ترانے کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔
پاک ارداہ و پاک مراد
ہمارا پاک شعار ۔۔الجہاد
سر اور مال دیں پر قربان
ہم ہیں سخت مسلمان
ہم مخالف کفر والحاد
ہمارا ایک پیغمبر اور ایک امام
ہم پیروکار دیں اسلام
ایک ہی قوت ایک صدا ۔امارت امارت
یہی ہمیشہ ہمیشہ زندہ باد
سفید ہمارا پرچم و سفید نشان شفاف ہمارا عقیدہ و لاریب قرآن
ایک نصب العین ، ایک منزل
اور ایک ہی امیر
اور اسی پر ہمارا سو فیصد اعتماد
اب قوم اس عذاب سے نجات چاہتی ہے تو اسے نظریہ پاکستان سے جڑنا ہوگا جس کی منزل اسلامی فلاحی ریاست ہے۔
At Jones Road Productions, our corporate video production services are designed to help bu...