Muhammad Asif Raza 6 months ago
Muhammad Asif Raza #education

ابا جی کی ڈائری : کرنل کی ڈائری سے

زندگی ماہ و سال کی کہانی ہے؛ ہر گذرتا دن تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور یہ زمین پر بسنے والے انسانی تاریخ کی کہانی بن جاتی ہے۔ انسانی تاریخ قوموں کے عروج و زوال کی داستان ہے؛ اس داستان کا افراد خاندان قبیلے اور قوموں کا کردار اہم حصہ ہوتا ہے۔ یہ تحریر ایک سبق آموز کہانی ہے جو شاید ہر مڈل کلاس گھرانے میں دحرائی جاتی ہے؛ اسے لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ) نے قلم زد کیا ہے۔

ابا جی کی ڈائری


ابا جی اور میرے مابین دوری فطری تھی۔ وہ رات گئے دفتر سے واپس گھر آتے تو میں نیند کی وادیوں میں کھو چکا ہوتا اور جب میں اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلتا تو وہ اپنی رات بھر کی تھکن اتارنے کے لیے نیند پوری کر رہے ہوتے۔۔۔


یوں میں ماں جی کے نزدیک ہوتا چلا گیا اور ابا جی سے دوری بڑھتی گئی۔ مگر ماں جی ہر وقت مجھے کہا کرتیں کہ میرے ابا جی بھی مجھ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں مگر باپ کی محبت کے درمیان بہت سے پردے حائل ہوتے ہیں۔ اس وقت تو میں فکرِ معاش اور فکرِ فردا کے معانی سے بھی ناآشنا تھا لہٰذا میری ان سے ناراضی برقرار رہی اور میں ہمیشہ یہی سمجھتا رہا کہ ماں جی یہ سب ابا جی کے تعلقات معمول پر لانے کے لیے کہا کرتی ہیں۔۔۔ 


وہ ایک اخبار میں بطور کاتب ملازمت کرتے تھے۔ ان کی قلیل سی تنخواہ میں بھی ماں جی بڑے سلیقے سے گھر کا خرچہ چلایا کرتیں۔ ابا جی دوپہر کا کھانا کھا کر گھر سے نکل جاتے اور جب اخبار چھپائی کے لیے پرنٹنگ پریس چلا جاتا تو وہ رات گئے گھر لوٹتے۔ دن یونہی گزرتے رہے۔ دسویں جماعت کے امتحانات کے نتائج نزدیک تھے اور میری سولہویں سالگرہ بھی۔ الحمدللہ نمایاں نمبروں کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا اگلے ہی دن میری سالگرہ بھی تھی۔ ماں جی اور ابا جی خوشی سے نہال تھے کہ ان کی محنت رائیگاں نہیں گئی۔ 


اس خوشی کے موقع پر انھوں نے مجھے کوئی تحفہ دینے کا سوچا تو تحفے کی پسند کا اختیار بھی مجھے ہی سونپ دیا۔ تحفے کا سنتے ہی ذہن میں فوراً اپنے ہم جماعت عمران کا پارکر پین کا خوبصورت اور قیمتی سیٹ آیا، جسے میں اکثر اسٹیشنری کی دکان پہ دیکھ کر اس کی قیمت معلوم کرتا اور پھر اپنی مالی حیثیت دیکھ کر پین واپس رکھ دیتا۔ یوں اسے خریدنے کی خواہش ہمیشہ خواہش ہی رہی۔ مگر آج اس مچلتی ہوئی خواہش کو پورا کرنے کا نادر اور سنہری موقع میں ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ موقع غنیمت جان کر میں نے ماں جی اور ابا جی سے پارکر پین کے اس سیٹ کی فرمائش کر ہی دی۔ ابا جی کے ماتھے پر اچانک پسینہ آ گیا مگر انہوں نے انتہائی مہارت سے اپنی پریشانی چھپا کر نہ صرف میری پسند کی تعریف کی بلکہ مجھے گلے لگا کر پیار بھی کیا۔ ماں جی کو تو یقیناً اس پین سیٹ کی قیمت کا اندازہ بھی نہ ہوگا۔۔۔ 


کل سالگرہ پہ مجھے میرا پسندیدہ تحفہ ملنے والا تھا۔ میں پارکر پین سیٹ ملنے کی خوشی میں رات بھر سو نہ سکا۔ اگلے دن میں نے محلے کے کچھ دوستوں کو بھی سالگرہ پہ مدعو کر لیا تاکہ پارکر پین کی شیخی بھگار سکوں۔ خلافِ توقع ابا جی نے بھی اس شام گھر جلدی آنے کا وعدہ کر لیا۔ 


نیند نہ پوری ہونے کے باوجود اس صبح میں بہت جلدی بیدار ہو گیا لیکن ابا جی آج میرے اٹھنے سے پہلے ہی گھر سے نکل چکے تھے۔ امی جی نے گھر میں ہی کیک بنا لیا۔ ٹھیک پانچ بجے محلے کے دوست بھی گھر پہنچ گئے، مگر پانچ سے چھ، سات اور پھر آٹھ بھی بج گئے مگر ابا جی گھر نہ آئے۔ دوستوں نے میرا وہ مذاق اڑایا کہ میں پھوٹ پھوٹ کے رو دیا۔ ماں جی نے پیار سے جو کیک بنایا تھا دوستوں نے میرے کاٹے بغیر ہی کھا لیا اور اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہو لیے۔ ماں جی بھی ابا جی کے نا آنے پہ کچھ نادم اور کچھ پریشان دکھائی دیں۔ مگر میں روتے روتے آج وقت سے بہت پہلے ہی سو گیا۔ صبح اٹھا تو اپنے سرہانے پارکر پین کا سیٹ پایا۔ ناجانے اب اس پین کی مجھے کوئی خوشی کیوں نہ رہی۔ شاید ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے اور اس وقت پہ وہ چیز نہ ملے تو اس کو حاصل کرنے کی وہ خوشی نہیں رہتی۔ مجھے غصہ تھا کہ ابا جی نے مجھ سے وعدہ خلافی کی۔ لہٰذا میں نے وہ پین سیٹ اٹھا کر بیٹھک کی شیلف پہ رکھ دیا اور ماں جی اور ابا جی کے بے حد اصرار کے باوجود وہ تحفہ قبول نہ کیا۔۔۔


البتہ تعلیم کے معاملے میں میں نے ان کا بھرم قائم رکھا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے سی ایس ایس کے امتحان میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کی اور پولیس میں اے ایس پی تعینات ہو گیا۔ اس ملازمت کے وجہ سے مصروفیت اتنی بڑھ گئی کہ گھر میں وقت ہی نہ دے پاتا۔ میری گڑیا رانی کی پہلی سالگرہ تھی بنگلے پہ سالگرہ کے شاندار انتظامات تھے، بہت سے لوگ بھی مدعو تھے۔ مگر دعوت سے ٹھیک ایک گھنٹہ قبل مجھے اعلیٰ حکام کی جانب سے ایک اہم میٹینگ کے لیے بلا لیا گیا۔ وہاں مجھے رات کے بارہ بج گئے۔ میں اپنی گڑیا رانی کی پہلی سالگرہ پہ اس کے ساتھ نہ تھا۔ گھر پہنچا تو بیگم ناراض۔ ابا جی بھی میرے انتظار میں جاگ رہے تھے۔ انھوں نے اپنی بہو کو سمجھایا کہ ملازمت میں ایسا ہو جاتا ہے۔ رات بستر پہ لیٹا تو میرے ذہن میں اپنی سولہویں سالگرہ کا منظر گھومنے لگا۔ اس دن ابا جی کی بھی کوئی مجبوری رہی ہو گی۔ اپنی نادانی پہ شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔ عہد کیا کہ صبح سب سے پہلے ابا جی سے اپنے رویئے کی معافی مانگو گا۔ مگر شاید چند خواہشات کے مقدر میں محض خواہش رہنا ہی لکھا ہوتا ہے۔ ابا جی رات کے کسی پہر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ 


دل میں خلش باقی تھی۔ ماں جی سے اس کا اظہار کیا وہ بھی اب پیرانہ سالی میں داخل ہو چکی تھیں۔ مجھے گلے لگا کر دعا دی اور ابا جی کے بکسے کی چابی مجھے تھما دی۔ بکسے میں سب سے اوپر پارکر پین کا وہی سیٹ اب بھی نیا نکور موجود مجھے ماضی میں لے گیا۔ باقی پورا بکسا ان کی ڈائریوں سے بھرا پڑا تھا۔ میں نے جلدی جلدی اپنی سولہویں سالگرہ والے سال کی ڈائری ڈھونڈ نکالی۔۔۔ابا جی کاتب تھے تو ڈائری میں موتی جڑے تھے۔۔۔


5 جون 1988: ماشاءاللہ! احمد علی آج سولہ برس کے ہو گئے۔ برخردار کی پارکر پین کی فرمائش تو پوری کرنی تھی۔ دفتر کے ساتھ ایک بڑی بلڈنگ کی تعمیر میں مزدور کو اچھی اجرت مل رہی تھی۔ تپتی دھوپ میں کام کرتے کرتے کب بے ہوش ہوا علم نہیں۔ ہوش میں آیا تو اسپتال میں اپنے ساتھ چیف رپورٹر احسن جمیل کو موجود پایا۔ کمزوری کے سبب ڈاکٹر نے فوری طور پر گھر جانے کی اجازت نہ دی۔ برخوردار کی سالگرہ اور پارکر پین کی فرمائش کا بتانا بھی کام نہ آیا۔ البتہ احسن جمیل صاحب پارکر پین کا سیٹ کہیں سے خرید لائے اور زبردستی میرے حوالے کر دیا۔ میرے بے حد اصرار پہ اب تنخواہ سے کٹوتی کی جائے گی۔ افسوس احمد علی آج رات بہت جلدی ہی سو گئے۔ بیگم نے بتایا کہ پین کے نہ ملنے پہ روتے روتے سو گیا۔ یوں ہر روز کی طرح آج بھی اس کے سرہانے بیٹھ کر سر میں دیر تک ہاتھ پھیرا تو میرے پورے دن کی کمزوری اور تھکان دور ہو گئی۔ میں نے تحفہ اس کے سرہانے رکھ دیا کہ صبح کچھ بہانہ بنانا پڑے گا۔۔۔


ابا جی کی ڈائری پڑھتے پڑھتے آنکھیں نم ہو چکی تھیں اور منظر دھندلا چکا تھا۔ میری چشم تر پانی کا بوجھ مزید برداشت نہ کر سکیں یوں موتی جیسی لکھائی کی روشنائی آنسوؤں کے سبب پورے صفحے پہ پھیل گئی۔ پارکر پین سیٹ کا تحفہ مدتوں بعد قبول ہوا۔۔۔


آج ابا جی بہت دور جا کر بھی مجھے خود سے بہت قریب محسوس ہو رہے تھے۔ آنکھ کی ساری نمی ان محبتوں کے نام تھی جنہیں میں کبھی اپنی نادانی کے سبب محسوس نہ کر پایا۔۔۔ 


لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ)

5 جون 2024 

کراچی


🪀: 0340 4303030

📧: khanabrar30c@gmail.com

0
321
پاکستان کے مشہور نعت خواں

پاکستان کے مشہور نعت خواں

1714584133.jpg
Muhammad Asif Raza
1 year ago
Boosting Hyderabad’s Local Services with WhatsApp Marketing

Boosting Hyderabad’s Local Services with WhatsApp Marketing

defaultuser.png
space
3 months ago
A Voice for the Ages: Remembering James Earl Jones

A Voice for the Ages: Remembering James Earl Jones

defaultuser.png
Laiba Rafiq
3 months ago
The Best Immigration Agents in Melbourne: A Proven Track Record

The Best Immigration Agents in Melbourne: A Proven Track Record

defaultuser.png
AVANA
4 months ago
32 Ways To Keep Getting Better II Bang Box Online Official

32 Ways To Keep Getting Better II Bang Box Online Official

defaultuser.png
Bang Box Online
1 year ago