علم کیا ہے اور کیسے حاصل کریں؟

علم دین کا ہو یا دنیا کا، ہمیشہ سے تمام عالمِ انسانیت کے لیے اعزاز، فضلیت اور امتیاز کا باعث ہوا ہے۔ علم کا مقصود اور منتہا فضل وکمال سے آراستہ ہونا اور میراثِ انسانیت کا حاصل کرنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ " اطلبوا العلم من المهد إلى اللحد“؛ " یعنی ماں کی گود سے قبر تک علم حاصل کرو" ۔ اس تحریر کا مقصد بینگ باکس کے قارئین کو تحصیل علم کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے۔

2024-08-15 19:15:09 - Muhammad Asif Raza

 

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

 

علم کیا ہے اور کیسے حاصل کریں؟

 

علم کی دو قسمیں ہیں: دینی علوم اور دنیاوی علوم۔ علم دین کا ہو یا دنیا کا، ہمیشہ سے تمام عالمِ انسانیت کے لیے اعزاز، فضلیت اور امتیاز کا باعث ہوا ہے۔ علم کا مقصود اور منتہا فضل وکمال سے آراستہ ہونا اور میراثِ انسانیت کا حاصل کرنا ہے۔ ابنِ آدم کو تمام مخلوقات میں اشرف کیا تو سبب علم ہی ہے تبھی تو اللہ سبحان تعالی نے اپنے حبیب محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم کو جب اعزاز پیغمبری پر معمور کیا تو حضرت جبرئیل کے ذریعے وحی بھیجی اور پہلی وحی تھی کہ

 

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ (1)۔ اپنے رب کے نام سے پڑھو؛ جس نے پیدا کیا۔

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) انسان کو خون بستہ سے پیدا کیا۔

اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْـرَمُ (3) پڑھیے اور آپ کا رب سب سے بڑھ کر کرم والا ہے۔

اَلَّذِىْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) جس نے قلم سے سکھایا۔

عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5) انسان کو سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔

( سورۃ العلق )

 

پروردگارِ عالم نے قرآن میں سورۃ الفاطر کی آیت ۳۷ میں فرمایا ہے

 

أَوَ لَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَ جَآئَ کُمُ النَّذِیْرُ۔


" کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں وہ شخص سمجھ سکتا تھا جو سمجھنا چاہتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا آیا تھا "۔


 سرکارِ دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم نے علم کی اہمیت کے ضمن میں واضع حکم دیا ہے کہ ’’ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے"۔ (ابن ماجہ حدیث:۲۲۴)

 

ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ

" جس شخص نے وہ علم سیکھا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہوسکتی ہے اور پھر اس کو متاعِ دنیا کا ذریعہ بنایا تو ایسا شخص قیامت کے دن جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا"۔ (مشکوٰة شریف:۳۴)

 

اور اسی سلسلے میں مزید فرمایا کہ " جس شخص نے اس غرض سے علم حاصل کیا کہ اس کے ذریعہ علماء سے مقابلہ کرے یا کم عقلوں سے بحث کرے یا لوگوں کی تو جہ اپنی طرف مائل کرے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو آگ میں ڈالیں گے"۔ (مشکوٰة شریف:۳۴)

 

اوپر کی قرآن کی آیات اور آقا کریم محمدﷺ کی احادیث کی روشنی میں یہ بات واضع ہے کہ علم دینوی ہے یا پھر دنیاوی ہے اور دونوں کے حصول کے مقاصد الگ الگ ہیں۔ یہ بات صاف صاف کہہ دی ہے کہ دین کا علم دنیا کے حصول کے لیے بالکل بھی نہیں ہوسکتا۔ اور حضرت عمرؓ کے دور کے قانون سے یہ بھی واضع ہوا کہ دنیا کے کاروبار کے لیے بھی اپنے کام کی مہارت لازمی ہے۔ یعنی دنیا کے کاروبار کے لیے بھی اس پیشے کا علم کا راستہ اختیار کرنا لازم ہے۔

 

اب اگر علم حاصل کرنا فرض ہے تو پھر اس کے حصول کا کیا راستہ ہو؟ ہم پڑھنا چاہیں یا اپنے علم کی استعداد میں اضافہ کرنا چاہیں تو کوئی راستہ یا کوئی سمت کیا ہوسکتی ہے؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ علم حاصل کیسے کیا جائے؟ اور علم حاصل کرنے کے ذرائع کیا ہیں؟ یگانہ چنگیزی نے ایک شعر میں یوں فرمایا ہے کہ

 

علم کیا، علم کی حقیقت کیا

جیسی جس کے گمان میں آئی


علم مگر گمان ہی کا معاملہ ہوتا تو یہ حکایت اس طرف اشارہ ایسے نہ کرتی جو علم کے حصول کو اس طرح آسان کردیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ شیخ سلمان العودہ اپنی کتاب "زنزانہ' میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے شیخ سے شکایت کی کہ میں نے ایک کتاب پڑھی، لیکن مجھے اس میں سے کچھ یاد نہیں رہا!

چنانچہ انھوں نے مجھے ایک کھجور دی، اور فرمایا:

لو_ یہ چباؤ ! پھر مجھ سے پوچھا:

کیا اب تم بڑے ہوگئے ؟ میں نے کہا: نہیں !

فرمایا: لیکن یہ کھجور تمھارے جسم میں گھل مل گئی ، چنانچہ اسکا کچھ حصہ گوشت بنا، کچھ ہڈی، کچھ پیٹھ، کچھ کھال، کچھ بال، کچھ ناخن اور مسام وغیرہ!!

تب میں نے جانا کہ جو کتاب بھی میں پڑھتا ہوں، وہ تقسیم ہوجاتی ہے۔

چنانچہ اس کا کچھ حصہ میری لغت مضبوط کرتا ہے، کچھ میرا علم بڑھاتا ہے، کچھ میرا اخلاق سنوارتا ہے ، کچھ میرے لکھنے بولنے کے اسلوب کو ترقی دیتا ہے، اگرچہ میں اسکو محسوس نہیں کر پاتا !!

 

یہاں یہ بات واضع کرنا ضروری ہے کہ اگر ہم قرآن کو حفظ کرنا چاہتے ہیں تو یقین کیجیے اس کا راستہ گزشتہ چودہ سو سالوں میں متعین کردیا گیا ہے سو اس کو لازم کرلیجیے۔ اللہ سبحان تعالی نے اس کی حفاظت کا وعدہ کررکھا ہے سو وہ مدد کرتا ہےاور کام آسان ہوجاتا ہے۔


اب یہ معاملہ دیگر علوم کا۔ ذاتی مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ کتاب کو پڑھیے، لفظ بہ لفظ بغور پڑھیے اور سطور در سطور؛ جملہ در جملہ اور مضمون در مضمون سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ اس طرح سمجھ کر پڑھیے کہ جو دلیل دی گئی یا جو پیغام دیا گیا؛ اسے اپنے لفظوں میں بیان کرسکیں۔ جب ہم اس قابل ہوجاتے ہیں کہ کتاب کے پیغام کو اپنے الفاظ میں بیان کرسکیں تو کتاب ہم سے گفگتگو کرنے لگتی ہے۔ اور پھر کتاب کے علم کے موضوعات پر انسان کی لغت مضبوط ہوتی ہے؛ اس کے لکھنے اوربولنے کی مہارت میں اضافہ ہوتا ہے؛ اور پھر اس کے اخلاق میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ صاحب علم کہلانے لگتا ہے۔

 

انسان ساری عمر طالبِ علم رہتا ہے مگر اللہ کی دین سے ایک شخص صاحبِ علم بنتا ہے تو اس کی معراج استاد بننا ہے اور سب سے بڑا استاد وقت کا پیغمبر ہوتا تھا۔ اب چونکہ آخری نبی اور پیغمبر آقا کریم محمدﷺ آچکے ہیں اور کوئی اور نبی نے نہیں آنا مگر رتبہ کتنا بڑا ہے جو آج بھی کسی استاد کو میسر ہے؟ تو سوچیں علم کی سند کس بلند مقام پر پہنچا سکتی ہے؟

سائنس کی طالبعلم جانتے ہیں اس مقام کو جو آئن سٹائن کو حاصل ہے اور وہ اسے سائنس کے صاحب علم ہونے کی بنیاد پر حاصل ہوا ہے۔

اطلبوا العلم من المهد إلى اللحد“؛ " یعنی ماں کی گود سے قبر تک علم حاصل کرو" ۔


وہ علم جو عمل پذیر نہ ہو, بیکار ہے

ہدایت اور روشنی کی واحد کتاب قرآن ہے

More Posts