علّامہ محمّد اقبال پاکستان کے قومی شاعر ہیں اور مصورِ پاکستان کہلاتے ہیں۔ آپ شاعر، عظیم مفکر اور فلسفی بھی ہیں۔ خودی ایک وسیع المعانی لفظ ہے، جسے علّامہ محمّد اقبال نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ فلسفہ خودی اقبال کے فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے۔ یہ تحریر ان کے یوم پیدائش 9 نومبر کے موقع کی مناسبت سے خراجِ تحسین پیش کرنے کے غرض سے مرتب کی گئی ہے؛ جس کے لیے ویب نیٹ کے دستیاب وسائل استعمال ہوئے ہیں۔
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
علّامہ محمّد اقبال کا فلسفہ خودی
خودی فارسی زبان کا لفظ ہے جو لغوی اعتبار سے درج ذیل معانی رکھتا ہے ١) انانیت ٢) خود پرستی ٣) خود مختاری ٤) خود سری ٥) خود رائی ٦) خود غرضی ٧) نخوت، تکبر ٨)اپنے اوپر بھرپور بھروسا کرتے ہوئے سب کچھ حاصل کر لینا۔ تاریخِ اسلامی میں علامہ محمد اقبال وہ واحد فلسفی شاعر ہیں، جنہوں نے لفظ ’’خودی‘‘ کو مثبت معنوں میں استعمال کیا، وگرنہ اُن سے قبل یہ لفظ منفی معنوں ہی میں مستعمل رہا ہے۔ لفظ خودی کو ’’مَیں، اَنا اور غرور و تکبّر‘‘ جیسے معنوں سے مشروط کیا جاتا تھا۔ اقبال نے اِسے’’احساسِ ذات اور عرفانِ ذات‘‘ کے ناموں سے معروف کروایا۔
شاعر مشرق علّامہ محمّد اقبال ایک ہمہ جہت شاعر ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ محض ایک شاعر ہی نہیں، بلکہ عظیم مفکر اور فلسفی بھی ہیں۔ اقبال ایک ایسے مفکر ہیں جنہوں نے زندگی کے مختلف اور متنوع مسائل پر برسوں مسلسل غور وفکر کے بعد اپنے کلام اور نثری مقالہ جات کے ذریعے ایسے پرازحکمت اور بصیرت افروز خیالات پیش کئے۔ جنہوں نے دنیا کے لوگوں کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان ہی میں، سب سے قوی پیغام "فلسفہ خودی" ہے؛ خودی ایک وسیع المعانی لفظ ہے، جسے علّامہ محمّد اقبال نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے اور انھوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے۔
خودی کیا ہے راز دورنِ حیات
خودی کیا ہے بیدارئی کائنات
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حداس کے پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کی دھارے میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاک ِ آدم میں صورت پزیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
علّامہ محمّد اقبال نے انسان کو خودی کے درس میں خود شناسی کا پیغام دیاہے؛ یعنی آدمی خود کو پہچانے، اپنی معرفت حاصل کرے اور یہ سوچے کہ اسے اللہ نے اس دنیا میں کیوں بھیجا ہے ،اس نے کہاں جانا ہے؟ اور یہ کس لئے آیا ہے؟
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
علّامہ محمّد اقبال کے فلسفہ خودی یا پیغام کی تخلیق کا بھی ایک خاص پس منظر ہے۔ یورپ میں قیام کے زمانے میں انھوں نے فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اسلامی تہذیب کی ابتری خصوصا جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کی تباہی کی ذمہ دار وہ مسلمان ذہن ہے؛ جو افلاطونی فلسفے کی موشگافیوں میں پھنس کر حیات کے سر چشموں سے خشک ہو گیا ہے۔ اس کے بعد بے عملی اور کاہلی کو زندگی کا عین تصور کیا جانے لگا؛ افراد میں خودی اور خود داری ختم ہوکر رہ گئی اور ذلت و شکست موجب عار نہ رہی اور بے عملی، کاہلی ایک روگ کی شکل اختیار کر گئی اور یہ روگ آہستہ آہستہ پوری قوم کے رگ و پے میں سرایت کرتا گیا۔ علامہ اقبال اس روگ سے اپنی قوم کو نجات دلانا چاہتے تھے اور اس روگ سے نجات دلانے کا واحد ذریعہ’ فلسفہ خودی‘ مختلف انداز میں جگہ جگہ بیان کیا ۔
اسلام کی روح اللہ سبحان تعالی کی وحدانیت اور حقانیت ہے جو کلمہ توحید میں مضمر ہے۔ اقبال نے اس سچائی کو مسلمان کی خودی کا راز بتایا ہے۔ اقبال نے یہ بتایا کہ لااِلٰہ کا اصل راز خودی ہے، توحید خودی کی تلوار کو تابدار بناتی ہے اور خودی عقیدہ توحید کی محافظ ہے
خودی کا سرِّ نہاں لااِلٰہ اِللہ
خودی ہے تیغ فساں لااِلٰہ اِللہ
خودی علّامہ محمّد اقبال کے نزدیک نا م ہے احساسِ غیرت مندی کا ، جذبہ خوداری کا اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کا، اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا، مظاہراتِ فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کی بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے ”خودی“ زندگی کا آغاز، وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد وملت کی ترقی و تنزل، خود ی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔ خودی کا تحفظ، زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام، زندگی کا استحکام ہے۔ ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی ہے۔ اس کی کامرانیاں اور کار کشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں۔ اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نئے انداز میں کیا ہے۔
خودی، ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی
نہیں ہے سنجر و طغرل سے کم شکوہِ فقیر
خودی ہو زندہ، تو دریائے بیکراں پایاب
خودی ہو زندہ، تو کہسار پرنیان و حریر
اگر خودی (خود معرفتی) زندہ ہو اور انسان کو اپنے مقام کا علم ہو اور وہ صحیح فقیر ہو تو اس کا فقر شہنشاہی سے کم نہیں ہے ۔ ایک صاحب فقیر کی ہیبت اور جلال طغرل اور سنجر جیسے پرشکوہ اور پر ہیبت بادشاہوں سے کم نہیں ہوتی ۔ شرط یہ ہے کہ فقیر واقعی اسلامی فقر کا حامل ہو گداگر اور مکار نہ ہو ۔
اگر مرد فقیر کی خودی (خود معرفتی) زندہ ہو تو وہ دریا جو کنارہ نہیں رکھتے یعنی بڑے جوڑے ہوتے ہیں وہ ان کی سطح پر بھی پاؤں رکھ کر گزر جاتا ہے ۔ اس کے لیے وہ دریا ایک قدم کی عبوری سے زیادہ نہیں ہوتے اور پہاڑوں کا سنگلاخ سلسلہ ان کے نرم و ملائم ہو جاتا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ مرد فقیر کے آگے سخت سے سخت اور مشکل سے مشکل کام آسان ہوتی ہیں ۔ اس کی ایمانی اور روحانی طاقت کے آگے ہر بڑی طاقت اورہر بڑی مشکل زیر ہو جاتی ہے ۔
علّامہ محمّد اقبال کے کلام کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ فلسفہ خودی اقبال کے کلام کا مرکز اور محور ہے۔ اقبال کے اس فلسفہ خودی کے درج ذیل عناصر ہیں۔
1:اقبال کے فلسفہ خودی میں بندہ مومن کی فضیلت، اسکی استعداد اور اعلی صلاحیتوں پر بڑا زور دیا گیا ہے۔اور بتایا گیا ہے کہ بندہ مومن کے اجزا ترکیبی میں اگر خودی کا عنصر شامل نہ ہو تو وہ بندہ مومن کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔
2:فلسفہ خودی کا دوسرا بڑا عنصر عشق اور عقل کی معرکہ آرائی ہے اور اقبال نے ہمیشہ عشق کی برتری کا اظہار ہے۔
ہ3:فلسفہ خودی کا ایک اور عنصر خیر و شر کی کشمکش ہے جو کائنات میں ہر آن جاری ہے۔
4 :علامہ ؒ فلسفہ خودی میں زندگی کی جہد مسلسل کو بھی ایک عنصرخیال کرتے ہیں۔
5:فلسفہ خودی کا ایک بہت بڑا عنصر حیاتِ جاودانی اور بقائے دوام کا تصور ہے۔
علّامہ محمّد اقبال کا پیغامِ خودی بنیادی طور پر انسان کی عظمت، سر بلندی اور خود انحصاری کا فلسفہ ہے۔ مقصد حیات اور حقیقت کائنات کو سمجھنے کا نام ہے۔ اپنے آپ کو جاننے، اپنے احساس ضعف پر قابو پانے اور اپنے اندر یقین و اعتماد پیدا کرنا خودی ہے۔ یہ انسان کو حقیقی معنوں میں اشرف المخلوقات ثابت کرنے کی راہ ہے۔ خودی سے تعمیری کام لینے کے لیے اس کی تربیت ضروری ہے۔ بے قید و بے ترتیب خودی کی مثال شیطان ہے۔ اقبال بھی گوئٹے کی طرح اسے تخلیق کی عظیم الشان قوت سمجھتے ہیں جو صراط ِ مستقیم سے بھٹک گئی ہے۔ خودی کی منازل کے علاوہ تربیت خودی کے مراحل انتہائی اہم ہیں یہ مراحل تین ہیں ۔
1) اطاعت الہٰی:۔ اقبال کے نزدیک خودی کا پہلا درجہ اطاعت ہے یعنی اللہ کے قانون ِ حیات کی پابندی کرنا
2) ضبط نفس:۔ دوسرا درجہ ضبط نفس ہے انسان نفس کو جس کی سرکشی کی کوئی حد نہیں قابو میں لائے
3) نیابت الہٰی:۔ ان دونوں مدار ج سے گزرنے کے بعد انسان اس درجے پر فائز ہو جائے گا ۔
علّامہ محمّد اقبال انسان کو مظاہر فطرت سے برسر پیکار رہنے اور خود کو اشرف المخلوقات منوانے کا سبق دیتے ہیں۔ اقبال کے پیغام خودی کو انسانیت کا اوج کمال سمجھنا چاہیے۔ یہ نیابت الہٰی کا درجہ ارتقائے خودی کا بلند ترین نصب العین ہے۔ خودی سے نہ صرف انسان بلکہ اس کے ارد گرد کے افراد اور معاشرہ سبھی ترقی کرتے ہیں۔ اور جہاں خودی مر جائے یہ تمام ڈھانچہ نیست و نابود ہو جاتا ہے۔ انسان اپنی سطح سے نیچے قعر مذلت میں آ گرتا ہے۔ اس کی انا اور خود داری ختم ہوتی ہے تو اس کے اندر کا انسان بھی مر جاتا ہے۔ اس کا شوق، اس کا جذبہ، اس کا ایمان، اس کی ہمت اور اس کی جدوجہد روبہ زوال ہو جاتی ہے۔
خودی کی شوخی و تندی میں کبرو ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو ہے لذتِ نیاز نہیں
خودی کا طالب اللہ تعالیٰ کی محبت میں اِس قدر ڈوب جاتا ہے کہ وہ خودی کے مراحل و مدارج عبور کرنے کے باوجود تشنہ لب رہتا ہے۔اس تشنگی کو علامہ صاحب نے عشق حقیقی کا نام دیا ہے۔
عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
ع
تو ہے محیط بیکراں ، میں ہوں ذرا سی آب جو
ش
یا مجھے کنار کر یا مجھے بے کنار کر
علامہ اقبال کا فلسفہ خودی دراصل آقا کریم محمد ﷺ کی ایک حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے؛ " یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا "۔ اقبال نے خودی کے ذریعے اپنی ذات کے عرفان کا جو درس دیا ہے وہ اصل میں اپنے رب کو پہچاننے کی تلقین کا دوسرا نام ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اقبال کے ہاں خودی، خود شناسی، خدا شناسی اور خدا بینی کا ذریعہ ہے۔ وہ معرفتِ الہٰی کے لیے تصوّرِ خودی کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تُو
بے خبر! تُو جوہرِ آئینۂ ایّام ہے
تُو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
ہفت کِشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
تُو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
تصور خودی کو علّامہ محمّد اقبال کے فلسفہ حیات و کائنات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے؛ اور علّامہ اس فلسفۂ خودی کو ہر دَور کے انسان کے لیے مشعل راہ گردانتے ہیں؛ اور ہر مسلمان کے لیے لازم و ملزوم سمجھتے ہیں ہے۔ یہ فلسفہ نہ صرف زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہے بلکہ انسان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جگانے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ روحِ مسلم کو قوت، تربیتِ خودی ہی کی بدولت حاصل ہوتی ہے اور مسلماںوں نے حق و باطل کی جنگ میں جب بھی فتح پائی؛ تو اس کی وجہ انکا بلند خودی کا درجہ رہا ہے۔ مسلم قوم اور امت نے دوبارہ عروج حاصل کرنا ہے تو اس کو اپنی خودی کو زندہ اور پُر قوت کرنا ہوگا۔ علّامہ محمّد اقبال نے اپنا فرض ادا کیا کہ اللہ سبحان تعالی کا رسولِ آخر محمدﷺ کے ذریعے بھیجا پیغام واضع کردیا؛ اب ہمارا کام ہے کہ حاملِ قرآن ہونے کا حق ادا کریں۔