عالمِ انسانیت کے لیے نئے ورلڈ آرڈر کا ارتقا
2024-06-14 18:08:03 - Muhammad Asif Raza
انسانیت کا پھلنا پھولنا اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک مستقبل قریب کی تمنا بارآور نہ ہو اور مستقل بعید کے خواب دلچسپ اور رنگین نہ ہوں۔ انسانیت کو پچھلے سو سال سے دو عظیم جنگوں کے تحت مغربی تہذیب سے مغلوب کیا گیا۔ ساری دنیا کے انسانوں کو مغربی اقوام نے اپنی تہذیب کو انسان دوستی، جمھوریت اور عظمت انسان کا فریب دے کر لوٹ مار کا ایک نظام قائم کیا گیا۔ اور اس کی انتہا 9/11 کے بعد امریکی تسلط سے کی گئی۔
روسی صدر ولادیر پوٹن نے اس طرف بالکل صحیح نشاندہی کی ہے " "ڈالر کی اجارہ داری کا استعمال کرتے ہوئے، امریکہ اپنی پیداوار سے ایک ٹریلین ڈالر زیادہ استعمال کرتا ہے، گویا یہ وسائل دوسرے ممالک سے حاصل کر رہا ہے۔ یہ بالکل ایک جدید نوآبادیاتی نظام ہے"۔ جی ہاں؛ یونائٹڈ نیشن کے تحت موجودہ ورڈ آرڈر سے قبل انسانیت مغربی اقوام کی نو آبادیاتی نظام کے تحت جی رہا تھی؛ اور اس دور کی داستان کسی بھی طرح ان دلائل اور خوشکن کہانیوں سے مطابقت نہیں رکھتے جو انسانی عظمت اور مغربی اقوام کی شان بیان کرنے کے لیے سنائی جاتی ہیں۔
یک قطبی ورلڈ آرڈر کا تاج جب سے امریکہ نے اپنے سر پر سجایا ہے، عالم انسانیت مسلسل جنگ اور خونریزی بھگت رہی ہے۔ اس کا سلسسلہ افغانستان سے شروع ہوا، اور پھر عراق، لیبیا، سومالیہ سے ہوتا ہوا؛ آج اسرائیل کی غزہ میں انسانیت سوز فلسطینی نسل کشی تک پہنچ گئی ہے۔ امریکہ اس جنگ میں براہِ راست شریک ہے اور اس کے ساتھ اس کے حلیف بھی۔ عالم انسانیت کو اس بارے میں سوچنا ہوگا کہ یہ ظلم و ستم آخر کب تک جاری رکھا جاسکتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ سارا تام جھام امن و عاشتی کے لیے سجایا گیا تھا مگر ایسا کیا نہیں گیا۔
روسی سلامتی کونسل کے نائب چیئرمین دمتری میدویدیف نے پچھلے دن اک مضمون لکھا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ " انسانیت کو بالآخر نوآبادیاتی نظام کی میراث سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ میٹروپولیسس کا وقت ختم ہوچکا ہے" ۔ آئیے اس مضموں کے چیدہ چیدہ نکات پر اور اس کے نتیجے میں ڈھلنے والی نئی دنیا کے منظر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں؛ جو مندرجہ ذیل ہیں:-
◾️ امریکہ عالمی پابندیوں والا نیو میٹرو پولس بن گیا ہے، تیسرے ممالک کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرتا ہے، اور ثانوی پابندیوں کے ساتھ پورے ممالک کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
◾️ مغرب مصنوعی طور پر معاشی بحران پیدا کرتا ہے، اشرافیہ کو برقرار رکھنے کے لیے گرین ایجنڈے کا استعمال کرتا ہے، اور آئی ٹی کارپوریشنوں کی اجارہ داری کے ذریعے ان لوگوں کو خاموش کر دیتا ہے جن کی رائے اس کے ایجنڈے سے متصادم ہوتے ہیں۔
◾️ خصوصی آپریشن کے تمام مقاصد کی تکمیل کے بعد ہی یوکرین کو مغرب کے نوآبادیاتی طوق سے آزاد کرنا ممکن ہو گا۔
◾️ گلوبل ساؤتھ "زیلینسکی فارمولے" کی پیروی کرنا اور روس کے ساتھ دیرینہ تعلقات کو توڑنا نہیں چاہتا۔
◾️ مغرب گلوبل ساؤتھ میں اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے "قرض نو نوآبادیات" کے ٹولز استعمال کرتا ہے۔
◾️ مغرب وفاداری کے بدلے آرمینیا کو "سونے کے پہاڑ" اور یورپی یونین میں رکنیت دینے کا وعدہ کرتا ہے، لیکن وہ اسے "منتخب لوگوں کے کلب" میں مدعو کرنے کا منصوبہ نہیں بنا رہا ہے۔
◾️ فرانس افریقہ میں اپنی پوشیدہ مالیاتی موجودگی کو جتنا ممکن ہو سکے رکھنے کی کوشش کرے گا، کیونکہ یہ میکرون کے لیے بہت ضروری ہے۔
◾️ مغرب نو استعمار کے خاتمے کی مزاحمت کرے گا، اس کے خلاف جنگ میں تمام قوتوں کا تعاون مضبوط کرنا ضروری ہے۔
◾️ مغرب نے "قوموں کی آزادی کے لیے" نوآبادیات کے خلاف تحریک کو سختی سے قبول کیا ہے، بانی کانگریس میں خلل ڈالنے کی کوشش کی گئی۔
◾️ بین الاقوامی تعلقات کے ایک نئے نظام کی تشکیل کی ضرورت ہے؛ جس میں کوئی پابندیاں، استحصال اور جھوٹ نہ ہو؛ اب وہ مستقبل قریب کی بات معلوم ہوتی ہے۔
◾️ روس کو امید ہے کہ برکس-افریقی یونین کی شکل میں تعاون ایک نئی سطح پر پہنچے گا۔
◾️ زیادہ سے زیادہ ممالک نوآبادیاتی نظام کی میراث کے بغیر اور خود مختار مساوات کے اصولوں کے مطابق امن سے رہنا چاہتے ہیں۔
◾️ ترکی، تھائی لینڈ اور پاکستان کی برکس میں شمولیت نئے ابھرتے ہوئے عالمی نظام کے کھیل کو بڑی حد تک خوشگوار کر دے گا۔
◾️ نیا پولی سینٹرک ہمہ جہتی ورلڈ آرڈر عملی ہوگا اور متنوع تعلقات معاشی استحکام کی کلید ہیں۔
◾️ مشہور روسی فلسفی الیگثنڈر ڈوگن ہمہ جہتی عالمِ انسانیت کے ضمن میں کلیدی مقالاجات لکھ رہے ہیں اور متعدد کانفرنس منعقد کر رہے ہیں۔ برکس کی تنظیم اس کا ابتداء اور ارتقاء کا مظہر ہے۔
◾️ بھارت، مصر، ایران، برازیل، انڈونیشیا اور نائیجیریا سمیت ابھرتی ہوئی عالمی طاقتوں اور موجودہ عالمی کھلاڑی، روس، یورپی یونین اور جاپان پر مشتمل نئے کثیر قطبی عالمی نظام کی تشکیل میں چین امریکہ کے ساتھ ایک اہم قطب کے طور پر ابھرا ہے۔
◾️ ضرورت اس امر کی ہے کثیر جہتی ورلڈ آرڈر میں تمام ارضی علاقاجات اور تہذیبوں کو شامل کیا جائے۔ اب ماضی بنتے، مرتے ہوئے اسلام دشمن ورلڈ آرڈر سے مکمل نجات پائی جائے اور مسلم ملکوں کو بھی اس میں نمایاں حیثیت دی جائے۔