Islam is the youngest faith of Abrahamic religions. It began with revelation of Quran to Prophet Muhammad (PBUH). It soon captured all the Arab Peninsula and became a formative force in Asia. However, the Muslim Nations are under duress and facing tough challenges for its survival. This write up is in the same spirit.
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
اے ایمان والو؛ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
یہ کائنات جو ہم دیکھ سکتے ہیں اور اس سے سوا اور بھی دنیائیں [ کہ سات آسمان اور اس کی طرح سات زمینوں کا ذکرتو قرآن میں ہے]؛ تمام عالمین اور ان میں موجود تمام مخلوقات کے خالق اور مالک اللہ سبحان تعالی ہیں اور سب آسمانی کتابیں اس پر مدلل بیان فراہم کرتی ہیں۔ انسان آج خود کو بہت ترقی یافتہ گردانتا ہے اور اس نے اپنے تئیں اپنی تارخ کو متعین کر لیا ہے؛ مگر کیا عجوبہ ہے کہ اس ساری تاریخ میں صرف اللہ سبحان تعالی ہی ایک واحد قوت ہیں جو ہر آسمانی کتاب میں اس دعوی کے حق میں دلائل پیش کرتے ہیں۔ اور اس کے بھیجے ہوئے نبی، پیغمبر اور رسول اس ضمن میں ہدایت کا راستہ بتاتے نظر آتے ہیں۔
اللہ سبحان تعالی نے ایک دلیل بہت واضع انداز میں بیان کیا ہے کہ اولادِ آدم کو صرف اللہ کی بندگی کے لیے پیدا کیا گیا اور صراط مستقیم صرف اللہ سبحان تعالی کی بھیجی ہوئی ہدایت پر عمل پیرا ہونا ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ یس میں فرمایا ہے
اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يَا بَنِىٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ اِنَّهٝ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ (60)
اے آدم کی اولاد! کیا میں نے تمہیں تاکید نہ کردی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، کیونکہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔
وَاَنِ اعْبُدُوْنِىْ ۚ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِـيْـمٌ (61)
اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا، یہ سیدھا راستہ ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا کہ شیطان اولادِ آدم کا کھلا دشمن ہے تو آخر ہمارا یہ ازلی دشمن کیا چاہتا ہے؟
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاكَمُوْۤا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْۤا اَنْ یَّكْفُرُوْا بِهٖؕ-وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا(60) سورۃ النساء
کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جن کا دعوی ہے کہ وہ ایمان لائے اس پر جو تمہاری طرف اترا اور اس پر جو تم سے پہلے اترا پھر چاہتے ہیں کہ شیطان کو اپنا پنچ بنائیں اور اُن کا تو حکم یہ تھا کہ اُسے اصلاً نہ مانیں اور ابلیس یہ چاہتا ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں پھینک دے۔
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ كَمَاۤ اَخْرَ جَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ یَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِیُرِیَهُمَا سَوْاٰتِهِمَاؕ-اِنَّهٗ یَرٰىكُمْ هُوَ وَ قَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْؕ-اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ(27) سورۃ الأعراف:
اے آدم کی اولاد خبردار تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسا تمہارے ماں باپ کو بہشت سے نکالا اتروا دئیے ان کے لباس کہ ان کی شرم کی چیزیں انہیں نظرپڑیں بے شک وہ اور اس کا کنبہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں نہیں دیکھتے بے شک ہم نے شیطانوں کو ان کا دوست کیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔
یہ بات طے ہوئی کہ جو ایمان والے نہی ہوتے شیطان انکا دوست ہوتا ہے یا یوں کہیں کہ شیطان کے دوست وہ ہیں جو اللہ تعالی کا انکار کرتے ہیں اور ایمان والوں کے دشمن ہیں۔ یہ اللہ تعالی کے دشمن چاہتے ہیں کہ اللہ کے دین کو غالب نا آنے دیں اور اور نا ہی اس زمین پر اللہ کی حاکمیت قائم ہوسکے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے اور اللہ سبحان تعالی نے یہ پیغام تين بار ( سورة التوبه؛ آيت 33: ؛ سورۃ الصف؛ آیت 9: اور سورة الفتح، آيت: 28 ) دهرايا گيا هے.
سورۃ التوبۃ
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ(32)
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(33)
چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں، اور اللہ اپنی روشنی کو پورا کیے بغیر نہیں رہے گا اور اگرچہ کافر ناپسند ہی کریں۔
اس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اور اگرچہ مشرک ناپسند کریں۔
دین اسلام کے مخالف جو دراصل ابلیس کے چیلے ہوتے ہیں اس مشن پر ہوتے ہیں کہ اللہ کی حاکمیت اس زمین پر قائم نہ ہوسکے۔
سورۃ الصف
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(9)
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے پڑے بُرا مانیں مشرک
سورۃ الفتح
هُوَ الَّـذِىٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَـهٝ بِالْـهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٝ عَلَى الـدِّيْنِ كُلِّـهٖ ۚ وَكَفٰى بِاللّـٰهِ شَهِيْدًا (28)
وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے ہر ایک دین پر غالب کرے، اور اللہ کی شہادت کافی ہے۔
کیا فتح مکہ کے بعد اسلام خیمہ زن ہوگیا تھا؟ یا رسول اللہ محمد صلى الله عليه وسلم نے جہاد و قتال جاری رکھا تھا؟ یہ ذہن نشین کرلیں کہ اوپر کی آیتیں ہر دور کے انسان اور خاص طور پر امت مسلمہ کے لیے ایک واضع حکم اور پیشگوئی ہے کہ اللہ قادر و مطلق اپنے دین کو جو دینِ ابراہیم ہے اور جو حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کا دین اسلام ہی ہے کو سارے ادیان اور نظاموں پر غالب کردے گا۔ یہ اس زمین کا نصیب ہے۔
اب یہ ہے ویزن اسٹیٹمنٹ یعنی تمام مسلمانوں کا " مقصدِ اولین "؛ جس کے اردگرد ہر مسلمان ریاست کو اپنی ریاست کا محور قائم کرنا چاہیے۔
اللہ تعالی نے اپنے حبیب حضور اکرم محمد صلى الله عليه وسلم كى بعثت فرما کر اپنا پیغام ہدایت كامل کردیا اور " دينُ الحَقّ " کو اولاد آدم کے لیے سچا اور عادلانه نظامِ زندگى عطا فرمایا۔ اسلام میں ایمان کا لازم حصہ یہ ہے کہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم كو خاتم الانبیاء بنا کر بھیجا اور اپنے دین کو مکمل کر دیا چنانچہ اب دين حق؛ یعنی الله كے نظامِ عدل وقسط كو دنيا كے تمام نظاموں پر غالب كر ديا جائے۔
حضور اکرم محمد صلى الله عليه وسلم نے اپنی امت کو یہی مشن سپرد کیا تھا جسے آپکے صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم نے پوری دیانت سے پورا کیا اور اسلام کو جزیرہ نما عرب پر نافظ کردکھایا۔ مگر افسوس، صد افسوس آج تمام کا تمام بنا استثناء دنیائے اسلام غلامی اور ضلالت کی زندگی بسر کر رہی ہے۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
اے برادرانِ اسلام؛ ہم سے ہمارے رب نے کیا چاہا ہے؟ کیا اللہ تعالی کا قرآن ہمارے لیے مشعل راہ نہی ہے؟ تو دیکھیں اللہ سبحان تعالی کا کیا حکم ہے؟ سورۃ آل عمران میں یہ حکم آیا ہے:-۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(102)
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اُس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہر گز نہ مرنا مگر مسلمان
آج کے سارے مسلم ممالک امریکہ اور مغربی اقوام سے ڈرتے ہیں؛ امریکہ اور اسکا گماشتہ اسرائیل ایک بدمست ہاتھی کی طرح اسلامی ملکوں پر حاوی ہیں اور ایک غیر مرئی حاکمیت قائم کئے ہوئے ہیں؛ اور بہت سارے مسلمان باسی دل ہی دل میں انکے ہمنوا بنے ہوئے ہیں۔ اور امریکی شہریت کا خواہاں ہوتے ہیں۔
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا۪-وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًاۚ-وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَاؕ-كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(سورۃ آل عمران (103))
اور اللہ کی رسّی مضبوط تھام لو سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (فرقوں میں بٹ نہ جانا)اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم میں بیر تھا (دشمنی تھی)اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے اور تم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچادیا اللہ تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم ہدایت پاؤ۔
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(سورۃ آل عمران (105
اور ان جیسے نہ ہونا جو آپس میں پھٹ گئے اور اُن میں پھوٹ پڑ گئی بعد اس کے کہ روشن نشانیاں انہیں آچکی تھیں اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے
اگر گزشتہ سو سال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات اظہر من الشمش ہے کہ مسلمان گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور باہم دست و گریباں ہیں۔ یہ قرآن کی رو سے ہم سے اللہ قادر و مطلق کی ناراضی کا مظہر ہے۔ کیا ہم اللہ کی خوشنودی کے بغیر کسی بھی طور پرخوشحالی اور آسودگی حاصل کرسکتے ہیں۔
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(سورۃ آل عمران (104)
اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بُری سے منع کریں اور یہی لوگ مُراد کو پہنچے۔
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ یَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ(سورۃ آل عمران (142)
کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی اللہ نے تمہارے غازیوں کا امتحان نہ لیا اور نہ صبر والوں کی آزمائش کی۔
آج کے مسلمان کو اور تمام اسلامی ممالک کو اوپر کی آیت پر غور کرنا چاہیے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا ہوگا؟ کس لیے ہوگا اور کیسے ہوگا؟ اتحاد و اتفاقِ ملت مسلمہ اور غلبہ دینِ اسلام ۔ اور دیکھیں کہ کیسے اللہ سبحان تعالی ہمیں غزہ کے مجاہدیں کے ذریعے ہمیں سبق دے رہا ہے؟ اللہ کسی گروہِ اسلام کو حزب اللہ نہی بناتا جبتک کہ وہ انہیں آزماء نہی لیتا اور صبر اور استقامت کا حامل نہی بنا دیتا۔
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۪- فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ(سورۃ آل عمران (159)
تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہوجاتے تو تم انہیں معاف فرماؤ اور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو بے شک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں
وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ (38) سورۃ الشوریٰ
اور وہ جنہوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور نماز قائم رکھی اور ان کا کام ان کے آپس کے مشورے سے ہے اور ہمارے دئیے سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں
اللہ سبحان تعالی نے اپنے رسول سے فرمایا کہ ان کے معاملات میں اپنے اصحاب سے مشورہ کرو اور جب باہم مشورہ سے کسی فیصلے پر پہنچو تو ثابت قدمی سے اس پر عمل کرو۔ کیا آج پوری اسلامی دنیا میں اس کا کوئی مظہر ہے؟
کوئی بھی ملک نہی جہاں کوئی قوم کوئی فیصلہ اتفاقِ رائے سے کررہی ہو اور پوری ملتِ اسلامیہ کا باہم اتحاد تو دیوانے کو خواب معلوم ہوتا ہے؛ پھر باہم مل کر مشورہ کرکے کوئی فیصلہ تو جوئے شیر لانے کے مترادف لگتا ہے۔
تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّؕ-وَ مَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعٰلَمِیْنَ(108)
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ(109) سورۃ آل عمران
یہ اللہ کی آیتیں ہیں کہ ہم ٹھیک ٹھیک تم پر پڑھتے ہیں اور اللہ جہان والوں پر ظلم نہیں چاہتااور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہی کی طرف سب کاموں کی رجوع ہے
اب کسی بھی مسلمان اور کسی بھی مسلم ریاست کا مشن اسٹیٹمنٹ یعنی تمام مسلمانوں کا " عزمِ اولین " کیا ہونا چاہیے؟ یہ یقینا" اوپر کے مقصدِ اولین ہی سے مشتق ہونا چاہیے؛ جو اللہ تعالی کی حاکمیت اعلی کو قائم کرنا ہے تو مشن ہونا چاہیے کہ مسلمان اللہ کے دین کا احکامات کے تحت زندگی گزارے اور اپنی ریاست کو قرآن و سنت کے ماتحت کردینے کی جدوجہد کرے؛ اپنی تمام بالغ زندگی اس کے نذر کرے۔
حضور سرور عالمﷺ نے قرآن پاک کی عظمت و شان بارے ارشاد فرمایا: اللہ تعالٰی اس کتاب کے ذریعے بعض قوموں کو عروج و کمال بخشتا ہے اور بعض کو ذلیل و خوار کرتا ہے۔ یعنی جو لوگ اس کے احکام و قوانین اپنی زندگی میں نافذ و جاری کر لیتے ہیں اور اس کے مطابق زندگی گزارتے ہیں انہیں اللہ تعالٰی عزت و کمال عطا فرماتا ہے اور جو لوگ قرآن پاک سے اپنا تعلق منقطع کر لیتے ہیں اور اسے اپنی زندگی کے دستور کے طور پر نہیں اپناتے، صفحہ ہستی سے اُن کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے۔
بِ
امت مسلمہ کو اپنی نشاطِ ثانیہ کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی؛ اور سب مسلمانوں کو اپنے اپنے محور میں رہ کر اپنےاپنے جہت میں اچھا ؛ بہت اچھا اور شاندار قابلِ تقلید مثال بننا ہوگا۔ اور جس بھی ادارے، کاروبار اور تنظیم میں ہو اس کو بہترین کرنا ہوگا۔ اور اس کے لیے رہنما اصول اور جزبہ محرک ریاستِ مدینہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کرنا ہوگی۔ ریاست مدینہ کی مثال میں چاروں خلفائے راشدین کا دور شامل ہے۔
امت مسلمہ کو جلد ازجلد یونائٹڈ نیشنز کے طرز پر ایک متحدہ جمعیت اسلامیہ قائم کرنا ہوگی اور جس کے فیصلہ مشاورت اور اتفاق کے اصولوں پر کرنے ہونگے۔ اپنی سرحدوں کو یورپین یونین کی طرح تمام مسلمانوں کے درمیان کھولنی ہونگی اور باہمی تجارت کو تمام مسلمانوں کے لیے آزاد کھولنی ہوگی۔ [یہاں نام مثال کی خاطر دیا گیا ہے؛ وگرنہ یہ اصول خلفائے راشدین کے دور سے مستعار لی گئی ہیں]۔ یہ ذہن نشین کرلیں کہ قرآن کا مخاطب ایمان والے ہیں؛ پاکستانی، ایرانی، مصری یا کوئی اور نہی ہے؛ سو اگر ہم نے خود کو علاقائی سرحدوں سے آزاد نہی کیا تو ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ مسلمان جو کلمہ طیبہ کو زبان و دل سےادا کرتا ہے وہ صرف امتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور عباد اللہ کا گروہ ہے؛ صدیقین ہے؛ شہداء ہے اور صالحین کا حصہ ہے۔
بُتانِ رنگ و خُوں کو توڑ کر مِلّت میں گُم ہو جا