16 December 1971 / 2014 - Black Days

Pakistan of Quaid-e-Azam was truncated on 16 December 1971, when Pakistan Army surrendered to Indian Army and Bangladesh was created. It was black day in the history of Pakistan and got blackened even more on 16 December 2014, when terrorist sprayed bullets on the students of APS Peshawar killing so many kids. This write up is to condemn the Black Days of Pakistan.

2024-12-15 19:04:00 - Muhammad Asif Raza


بنگلہ دیش کی جنگ آزادی، جسے بنگالی میں مکتی جدھو اور پاکستان میں سقوط مشرقی پاکستان یا سقوط ڈھاکہ کہا جاتا ہے، پاکستان کے دو بازوؤں، مشرقی و مغربی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ تھی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان آزاد ہو کر بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اس سانحہ سے پہلے اور بعد کے حالات پہ پاکستان کی خبر رساں ایجنسیوں، ریڈیو اور ٹی وی پہ وہاں کی اس وقت کی صورتحال پہ کم وبیش سناٹا طاری رہا۔ قتل و غارت گری کا سیلاب لاکھوں انسانوں کو بہا لے گیا۔ ہتھیار ڈالنے والی فوج کے علاوہ بہت سے شہری بھارت کی چھاؤنیوں میں قید ہوئے اور جو بنگلہ دیش میں رہ گئے وہ غیر ملکی شہری بن کر آج تک پناہ گزین کیمپوں میں انتہائی کسمپرسی کے عالم میں پڑے ہیں۔ آج آدھی صدی گزرنے کے بعد بھی ہم مکمل طور پہ ان ہجرت کرنے والوں سے بھی شواہد نہ جمع کرسکے جو اس سانحہ کے عینی شواہد تھے۔ 


کسی قوم نے ایسی بے حسی کا مظاہرہ نہ کیا ہوگا جو مغربی پاکستان کے باسیوں نے اپنے ملک کے ٹوٹنے پر دکھائی۔ ماسوائے کچھ دانشوروں اور سیاستدانوں کے ملک کے اکثر حکمران اشرافیہ نے چپ سادھے رکھی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے فرمایا تھا کہ "میرے نزدیک سقوطِ مشرقی پاکستان کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جس اِسلام اور اسلامی قومیت کے تصور پر پاکستان بنا تھا، قیام پاکستان کے بعد اول روز سے ہی اُس کو طاقت پہنچانے اور مضبوط کرنے سے صرف گریز ہی نہیں کیا گیا، بلکہ اُس کی جڑوں کو روز بروز کمزور کیا جاتا رہا، اور دشمنوں کو اُس کا پورا موقع دیا جاتا رہا کہ وہ باقاعدگی اور تسلسل کے ساتھ اُن کو کاٹتے رہیں۔ مشرقی پاکستان میں خود ہندو کافی تعداد میں موجود تھے اور اچھے خاصے طاقتور تھے۔ اُن کو پاکستان کا بننا سخت ناگوار تھا اور وہ اُس کو ختم کرنے کے کسی مناسب موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں اُن کے بہت سے شاگرد موجود تھے۔ اُن کے ذہن ہندو استادوں کی تعلیم اور ہندو مصنفین کے بنگلہ لٹریچر سے پوری طرح متاثر تھے۔ ہندوستان بھی یہ جانتا تھا کہ مشرقی پاکستان پاکستان کا کمزور ترین حصہ ہے اور وہاں اس دو قومی نظریے کو، جس پر پاکستان بنا ہے زیادہ آسانی کے ساتھ زَک پہنچائی جاسکتی ہے۔ اِس غرض کے لیے قیام پاکستان کے بعد ہی کلکتہ سے ایسا لٹریچر بارش کی طرح برسنا شروع ہوا جو اس نظریے کی بیخ کنی کرنے والا تھا۔ ان سب لوگوں کی کوشش یہ تھی کہ بنگالی زبان کی بنیاد پر مسلمان بنگال اور ہندو بنگال کو ملا کر ایک قوم بنایا جائے اور اس کے اندر غیر بنگالی مسلمانوں اور مغربی پاکستان کے خلاف نفرت کا زہر پھیلایا جائے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے ایک دن بھی اِس ابھرتے ہوئے خطرے کو نہ محسوس کیا اور نہ اِس کے تدارک کی کوئی فکر کی۔ درس گاہوں میں، صحافت میں اور رسائل نشرواشاعت میں یہ زہر مسلسل پھیلتا رہا، مگر ہمارے کارفرمائوں نے نہ تعلیم کے نظام کی اصلاح کی، نہ یہ دیکھا کہ درس گاہوں میں کیسے استاد درس دے رہے ہیں۔ نہ اس بات کا کوئی نوٹس لیا کہ طلبہ کی کیسے کھیپ اِن سے تیار ہو کر نکل رہی ہے"۔


لیفٹیننٹ جنرل اے کے نیازی سقوط پاکستان کی دستاویز پر دستخط کرنے والے وہ جرنیل ہے ، جن کی زندگی ہمیشہ نفرت کے ساتھ موضوع بحث رہی۔ مگر وہ مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے کے اسباب جس طرح بیان کررہے ہیں، وہ ضرور پیش نظر رہنا چاہئے۔ اس میں وہ ذہنیت بھی بے نقاب ہوتی ہے جو تمام غلطیوں کی ذمہ داری صرف سیاست دانوں پر ڈالنے میں عافیت محسوس کرتی ہے۔ اور اس سے مشرقی پاکستان کی منظم پسپائی کا وہ راز بھی افشا ہوتا ہے، جس سے یہ سوال باقی رہتا ہے کہ پھر مشرقی پاکستان الگ ہوا ہے یا اُس سے جان چھڑائی گئی ہے؟


"لاڑکانہ سازش کے علاوہ بھی بھٹو اور ان کے رفقا نے کئی منصوبے تیار کیے تھے۔ مثلاً لیفٹیننٹ جنرل گل حسن، ایئرمارشل رحیم خان اور بھٹو کے درمیان گاڑھی چھنتی تھی۔ جنرل گل حسن آرمی چیف اور ایئر مارشل رحیم خان فضائیہ کے سربراہ تھے۔ جب صدر یحییٰ خان نے استعفیٰ دینے سے انکار کیا تو ایئر چیف مارشل رحیم خان نے ایوان صدر پر سے طیارہ گزارا۔ جنرل گل حسن نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ یہ سب کچھ باہمی مشاورت سے کیا گیا تھا۔ بھٹو نے ٹکا خان کے ساتھ سازباز کی جو ان اکیس جنرلوں اور بریگیڈیئرز میں سے تھے جنہوں نے گل حسن سے سینئر ہونے کے باوجود استعفیٰ نہیں دیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ جنرل ٹکا خان کو آرمی چیف بنانے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے معاملات بہت بگاڑے اور لوگ انہیں ’’قصائی‘‘ کہا کرتے تھے۔ سابق مشرقی پاکستان میں پورا وار پلان بگاڑنے میں جنرل ٹکا خان کا مرکزی کردار تھا"۔


ناصر کاظمی نے اپنے عہد کواداس ہونے کے آداب سکھائے


یقینا" قارئین کو اداسی اور نفرت محسوس ہورہی ہوگی۔ ممتاز دانشور انتظار حسین نے ناصر کاظمی کے بارے میں کیا خوبصورت بات کہی ہے کہ اس نے اپنے عہد کواداس ہونے کے آداب سکھائے۔ آئیے اداس ہونے کے بجائے کچھ شاعرانہ نظر ڈالتے ہیں کہ ایسا کیا ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ 


رات ڈھل رہی ہے

ناؤچل رہی ہے

لوگ سو رہے ہیں

رت بدل رہی ہے

آج تو یہ دھرتی

خوں اگل رہی ہے

خواہشوں کی ڈالی

ہاتھ مل رہی ہے

جاہلوں کی کھیتی

پھول پھل رہی ہے


دھواں سا ہے جو یہ آکاش کے کنارے پر

لگی ہے آگ کہیں رات سے کنارے پر


صدائیں آتی ہیں اجڑے ہوئے جزیروں سے

کہ آج رات نہ کوئی رہے کنارے پر


یہاں تک آئے ہیں، چھینٹے لہو کی بارش کے

وہ رَن پڑا ہے، کہیں دوسرے کنارے پر۔

ناصر کاظمی


سقوط ڈھاکہ پر شاعری

اچھے شعراء کا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے سانحے کو بھی دل گداز جذبوں اور بلند انسانی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کرکے آفاقی بنا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لطیف احساسات رکھنے والے شعراء نے بڑی باریک بینی سے متحدہ پاکستان کے دو لخت ہونے کا تجزیہ کیا اور کئی نئے زاویوں سے سقوطِ ڈھاکا کے خوں چُکاں مناظر کو غیرجانب دارانہ انداز میں پیش کیا۔ اُنہوں نے مقتل میں بہنے والے ہر بے گناہ قطرۂ خون کو اپنے قلم کی روشنائی سے مشعلِ راہ بنادیا۔ 


 فیض احمد فیض کی نظم " ڈھاکہ سے واپسی پر"؛ پیش خدمت ہے؛ فیض نے یہ نظم 1974 میں ڈھاکہ سے واپسی پر لکھی

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد


کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد


تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے

تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد


دل تو چاہا پر شکست دل نے مہلت ہی نہ دی

کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد


ان سے جو کہنے گئے تھے فیضؔ جاں صدقہ کیے

ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد


فراز کی نظم  " سقوط ڈھاکہ" بھی اس موقع پر بر محل ہے سو پیشِ خدمت ہے۔


میں نے اب تک تمھارے قصیدے لکھے

اورآج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں

اپنے شعروں کی حرمت سے ہوں منفعل

اپنے فن کے تقاضوں سے شرمندہ ہوں

اپنےدل گیر پیاروں سےشرمندہ ہوں

جب کبھی مری دل ذرہ خاک پر

سایہ غیر یا دست دشمن پڑا

جب بھی قاتل مقابل صف آرا ہوئے

سرحدوں پر میری جب کبھی رن پڑا

میراخون جگر تھا کہ حرف ہنر

نذر میں نے کیا مجھ سے جو بن پڑا

آنسوؤں سے تمھیں الوداعیں کہیں

رزم گاہوں نے جب بھی پکارا تمھیں

تم ظفر مند تو خیر کیا لوٹتے

ہار نے بھی نہ جی سے اتارا تمھیں

تم نے جاں کے عوض آبرو بیچ دی

ہم نے پھر بھی کیا ہےگوارا تمھیں

سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے

جن کا خوں منہ پہ ملنے کو تم آئے تھے

مامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنے

یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے

ان کی تقدیر تم کیا بدلتے مگر

ان کی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے

اس کا انجام جو کچھ ہوا سو ہوا

شب گئی خواب تم سے پریشاں گئے

کس جلال و رعونت سے وارد ہوئے

کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے

تیغ در دست و کف در وہاں آئے تھے

طوق در گردن و پابجولاں گئے

جیسے برطانوی راج میں گورکھے

وحشتوں کے چلن عام ان کے بھی تھے

جیسے سفاک گورے تھے ویت نام میں

حق پرستوں پہ الزام ان کے بھی تھے

تم بھی آج ان سے کچھ مختلف تو نہیں

رائفلیں وردیاں نام ان کے بھی تھے

پھر بھی میں نے تمھیں بے خطا ہی کہا

خلقت شہر کی دل دہی کےلیئے

گو میرے شعر زخموں کے مرہم نہ تھے

پھر بھی ایک سعی چارہ گری کیلئے

اپنے بے آس لوگوں کے جی کیلئے

یاد ہوں گے تمھیں پھر وہ ایام بھی

تم اسیری سے جب لوٹ کر آئے تھے

ہم دریدہ جگر راستوں میں کھڑے

اپنے دل اپنی آنکھوں میں بھر لائے تھے

اپنی تحقیر کی تلخیاں بھول کر

تم پہ توقیر کے پھول برسائے تھے

جنکے جبڑوں کو اپنوں کا خوں لگ گیا

ظلم کی سب حدیں پاٹنے آگئے

مرگ بنگال کے بعد بولان میں

شہریوں کے گلے کاٹنے آگئے

ٓاج سرحد سے پنجاب و مہران تک

تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو

اتنی غارتگری کس کی ایما پہ ہے

کس کے آگے ہو تم سر نگوں غازیو

کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے

کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو

کیا خبر تھی کہ اے شپرک زادگاں

تم ملامت بنو گے شب تار کی

کل بھی غا صب کے تم تخت پردار تھے

آج بھی پاسداری ہے دربار کی

ایک آمر کی دستار کے واسطے

سب کی شہ رگ پہ ہے نوک تلوار کی

تم نے دیکھے ہیں جمہور کے قافلے

ان کے ہاتھوں میں پرچم بغاوت کے ہیں

پپڑیوں پر جمی پپڑیاں خون کی

کہ رہی ہیں یہ منظر قیامت کے ہیں

کل تمھارے لیئے پیار سینوں میں تھا

اب جو شعلے اٹھے ہیں وہ نفرت کے ہیں

آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے

اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں

خون اترا تمھاراتو ثابت ہوا

پیشہ ور قاتلوں تم سپاہی نہیں

اب سبھی بے ضمیروں کے سر چاہیئے

اب فقط مسئلہ تاج شاہی نہیں


اب ذرا محترمہ زھرہ نگاہ کی نظم ”متاعِ اَلفاظ“ اور نصیر ترابی کی غزل پر بھی نظر ڈال لیجے۔


اب ذرا محترمہ زھرہ نگاہ کی نظم ”متاعِ اَلفاظ“ پر بھی نظر ڈال لیجے۔


یہ جو تم مجھ سے گریزاں ھو ، میری بات سنو

ھم اِسی چھوٹی سی دنیا کے ، کسی رَستے پر

اتفاقاً ، کبھی بُھولے سے ، کہیں مل جائیں

کیا ھی اچھا ھو کہ ، ھم دوسرے لوگوں کی طرح

کچھ تکلف سے سہی ، ٹہر کہ کچھ بات کریں

اور اِس عرصۂ اخلاق و مروت میں ، کبھی

ایک پل کے لیے ، وہ ساعتِ نازک ، آ جائے

ناخنِ لفظ ، کسی یاد کے زخموں کو چُھوئے

ایک جھجھکتا ھُوا جملہ ، کوئی دُکھ دے جائے

کون جانے گا ؟ کہ ھم دونوں پہ ، کیا بیتی ھے ؟

یہ جو تم مجھ سے گریزاں ھو ، میری بات سنو

اِس خامشی کے اندھیروں سے ، نکل آئیں ، چلو

کسی سلگتے ھُوئے لہجے سے ، چراغاں کر لیں

چن لیں پھولوں کی طرح ، ھم بھی متاعِ الفاظ

اپنے اُجڑے ھُوئے دامن کو ، گلستاں کر لیں

یہ جو تم مجھ سے گریزاں ھو ، میری بات سنو

دولتِ درد بڑی چیز ھے ، اقرار کرو

نعمتِ غم ، بڑی نعمت ھے ، یہ اِظہار کرو

لفظ ، پیماں بھی ، اِقرار بھی ، اظہار بھی ھیں

طاقتِ صبر اگر ھو تو ، یہ غم خوار بھی ھیں

ھاتھ خالی ھوں تو ، یہ جنسِ گراں بار بھی ھیں

پاس کوئی بھی نہ ھو پھر تو ، یہ دلدار بھی ھیں

یہ جو تم مجھ سے گریزاں ھو ، میری بات سنو


نصیر ترابی نے کہا کہ سقوط ڈھاکہ ہمارے لیے بڑا جذباتی مسئلہ تھا، تو بس اسی وقت میں نے ایک غزل ترتیب دی۔


وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی


نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال

شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی


محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا

شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی


عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت

بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی


بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل

غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی


کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن

صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی


کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت

کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی


عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔ

وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی


سقوطِ ڈھاکہ پر امجد اسلام امجد کی نظم سے بہتے آنسو پر ایک نظر

جناب امجد اسلام امجد نے سقوط ڈھاکہ پر جو آنسو بہائے، وہ ادبی تاریخ میں ایک شاندار مقام رکھتے ہیں ۔انہوں نے شاعرانہ رموز سے سقوط کے پس منظر اور ظلمتوں کو رقم یوں کیاکہ اس کے آئینے میں مشرقی پاکستان کے ساتھ روا سلوک کا دھندلا عکس بھی نمایاں ہوکے سامنے آجاتا ہے ۔


اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں

ہم نے نظموں میں تیرے چمکتے ہوئے بام و در کے بیتاب قصے لکھے پھول چہروں پہ شبنم سی غزلیں کہیں، خواب آنکھوں کے خوشبو قصیدے لکھے تیرے کھیتوں کی فصلوں کو سونا گنا، تیری گلیوں میں دل کے جریدے لکھے جن کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں، ہم نے تیری جبیں پر وہ لمحے لکھے

جو تصور کے لشکر میں لڑتے رہے، ہم وہ سالار ہیں ہم گنہگار ہیں

اے زمینِ وطن۔۔۔ ہم گنہگار ہیں

ہم تیرے دکھ سمندر سے غافل رہے تیرے چہرے کی رونق دھواں ہو گئی اور ہم رہینِ غمِ دل رہیظلم کے روبرو لب کشائی نہ کی، اس طرح ظالموں میں بھی شامل رہے حشرآور دنوں میں جو سوئے رہے، ہم وہ بیدار ہیں ہم گنہگار ہیں

اے زمینِ وطن۔۔۔ ہم گنہگار ہیں

جاگتی آنکھ سے خواب دیکھے، ان کو اپنی مرضی کی تعبیر دیتے رہے ہم تیرے بارآور موسموں کے لئے بادِصرصر میں تاثیر دیتے رہے ہم اندھیرے مناظر کو روشن دنوں کی امیدوں سے تنویر دیتے رہے تیرے ساحل کی آزادیوں کے لئے ہم تلاطم کو زنجیر دیتے رہے جو ہمیشہ تجھے آرزو کے جھروکے سے تکتے رہے، ہم وہ فنکار ہیں ہم گنہگار ہیں

اے زمینِ وطن۔۔۔ ہم گنہگار ہیں

جب تیرے زرد پڑتے ہوئے موسموں کو مہکتی شفق کی ضرورت پڑی ہم نے اپنا لہو آزمایا نہیں تیری خوشبو سکْوں کی تمنا لئے آندھیوں کے جلو میں بھٹکتی رہی ہم نے روکا نہیں تیری مٹی نگاہوں میں بادل لئے خشک موسم کی راہوں میں بیٹھی رہی ہم نے دل کو سمندر بنایا نہیں تیری عزت زمانے کے بازار میں دل جلاتی بولیوں میں بکی ،ہم نے کانوں میں سیسہ اتارا نہیں ہم گنہگار ہیں

اے زمینِ وطن۔۔۔ ہم گنہگار ہیں

اے زمینِ وطن!تجھ کو تو علم ہے، لوگ کیوں درِ راہِ ملامت ہوئے جن محافظ دشمنوں کے علم تیرے روشن لہو کی شہادت ہوئے ہم بھی ان کی سیاست کے نخچیر ہیں،آستینوں کے جو سانپ ثابت ہوئے ہم بھی تیری طرح سازشوں کی ہوا کے گرفتار ہیں ہم گنہگار ہیں

اے زمینِ وطن۔۔۔ ہم گنہگار ہیں

ہم گنہگار ہیں اے زمینِ وطن! پر قسم ہے ہمیں اپنے اجداد کی سرحدوں سے بلاتے ہوئے خون کی، اپنی بہنوں کی حرمت کی، اولاد کی ہاں قسم ہے ہمیں آنے والے دنوں کی اور آنکھوں میں ٹھہری ہوئی یاد کی

اب محافظ نما دشمنوں کے علم ان کے کالے لہو سے بھگوئیں گے ہم تیرے دامن کے رسوائیوں کے داغ اپنے آنسوؤں سے دھوئیں گے ہم آخری مرتبہ اے متاعِ نظر! آج اپنے گناہوں پہ روئیں گے ہم

تیری آنکھوں میں اے نگارِ وطن! شرمساری کے آنسو نہیں آئیں گے ہم کو تیری قسم اے بہارِوطن اب اندھیرے سفر کو نہ دہرائیں گے

گر کسی نے تیرے ساتھ دھوکا کیا ،وہ کوئی بھی ہواس کے رستے کی دیوار بن جائیں گے جان دے کر تیرا نام کر جائیں گے

اے زمینِ وطن۔۔۔ اے زمینِ وطن۔۔۔!اے زمینِ وطن ہم گنہگار ہیں


وطن عزیز کی شاعروں اور انشاء پردازوں نے نے اپنا کام کیا اور اپنے تحریروں اور کلام کے ذریعے مسئلہ پر سیر حاصل روشنی بھی ڈالی؛ مگر شاید اربابِ اختیار کی نگاہ میں وہ غیر ضروری مداخلے تھی اور یایہ گوئی رہی ہوگی۔ مگر ان کو سنجیدگی سے سمجھا جاتا تو کئی ایک سانحات نہیں ہوتے اور شاید 16 دسمبر 2014 عیسوی کا سانحہ آرمی پبلک سکول میں یون بچوں کا قتل عام نہیں ہوتا۔ سانحہ ای پی ایس کا اب دس سال ہوگئے ہیں اور ملک کے حالات اب شاید زیادہ دگرگوں ہیں۔ اے کاش ہم سبق سیکھتے۔


More Posts