اگست ۱۴؛ یومِ آزادی: تجدیدِ عہدِ وفا

14 August is the Independence Day of Pakistan. Its a day of celebrations and jubilations. The Country was created on the basis of Two Nation Theory. Here it is discussed in details the pre and post independence situation of Pakistan vis a vis Ideology of Pakistan.

2023-08-02 16:24:45 - Muhammad Asif Raza

آج ۱۴ اگست ۲۰۲۳ عیسوی ہے: ہم پاکستانیوں کا ۷۷ واں یومِ آزادی۔ یہ اللہ سبحان تعالی کا احسان ہے کہ ہم ایک آزاد وطن کے باسی ہیں کیونکہ رسولِ کریم محمدﷺ نے فرمایا ہے کہ " تم میں سے جس نے صبح کی، اس حال میں کہ وہ اپنے گھر یا قوم میں امن سے ہو اور جسمانی لحاظ سے بالکل تندرست ہو اور دن بھر کی روزی اس کے پاس موجود ہو، تو گویا اسے پوری دنیا جمع کرکے دے دی گئی".[ ترمذی 2346] عزیزانِ وطن؛ ہمیں یہ آسانی، یہ فراوانی، یہ فضل و کرم، یہ احسان امتِ محمدﷺ ہونے کے ناطےہی ملی ہے۔ احسان کا بدلہ احسان ہی ہوتا ہے سو کیا ہم اس آزادی کا درست استعمال کر رہے ہیں؟ آج کا دن تجدید عہد کا دن ہے کہ ہم اپنی سرزمین کو اسلامی ریاست بامعنی ریاست مدینہ بنائیں۔ آئیے تجدید عہدِ وفا کریں کیونکہ اللہ سبحان تعالی جب کسی قوم پر مہربان ہوتا ہے تو انہیں اپنی زبوں حالی کا ادراک کرادیتا ہے۔

تجدیدِ عہدِ وفا - زوال کی داستانِ غم کیا تھی؟

سنہ ۱۸۶۷ عیسوی کو انگریز تاجروں نے اپنے ہندوستانی گماشتوں کی مدد سے ہندوستان کے دارالخلافہ دہلی پر قبضا کرلیا۔ اس وقت بہادر شاہ ظفر مغل بادشاہ تھے اور انکا ساتھ مسلمان قوم نے دیا تھا۔ انگریز حکمرانوں نے اس واقعہ کو غدر کا نام دیا تھا اور اس میں شامل مسلمانوں کو چن چن کر تختہ دار پر لٹکایا۔ سرسید احمد خان نے اس پر ایک کتاب لکھی جس کا عنوان ہے "اسباب بغاوتِ ہند"۔ اس کتاب میں صرف ایک جھلک پیش کی گئی۔ کمال دیکھیے کہ ایک غیر ملکی غاصب مسلح گروہ ہندوستان پر حملہ آور ہوتا ہے اور اپنی آزادی کے لیے لڑنے والوں کو غدار قرار دیتا ہے کیونکہ اس کی فوج میں شامل سپاہی بذاتِ خود ہندوستانی ہی تھے۔ ملکہ برطانیہ کے کارندوں نے اپنے ہندوستانی گماشتوں کی مدد سے پھر مسلمانوں کو غلامی کے طوق میں ایسا باندھا کہ آج تک ایک گروہ اس سحر سے باہر نہیں آسکا۔

سنہ ۱۸۵۷ عیسوی میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمان برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جنگ ہار گئے۔ تاجِ برطانیہ نے ہندوستانی تخت پر قبضہ کیا اور پھر منظم طریقے سے مسلمانوں کو اقتدار کی کرسی اور حقِ حکمرانی سے ہٹھانے کی پالیسی پر عمل کیا۔ کمپنی کے خلاف بغاوت میں حصہ لینے پر اگلی دو دہائیوں کے دوران ہزاروں مسلمانوں کو توپ کے سامنے رکھ کر قتل کر دیا گیا۔ مسلمان خاندانوں میں سے پوری سیاسی روح ختم کر دی گئی۔ کمپنی برطانوی راج بن گئی اور مسلمانوں میں اپنے لیے سازگار اشرافیہ کی پرورش کی۔

مغل خاندان کے دور میں مسلمانوں کی اکثریت تعلیم یافتہ تھی کیونکہ کسی بھی طرز اور نوع کی علمیت اور بزرگی کے اظہار کے لیے زبان فارسی، عربی اور اردو تھی۔ برطانوی راج نے مسلم حکمرانی اور نظام تعلیم کو ختم کر کے انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر متعارف کرایا۔ اس نے مسلمانوں طبقے کو مکمل طور پر ناخواندہ میں بدل دیا۔ راج نے ہندو اکثریتی آبادی کو ایک سیاسی قوت میں پروان چڑھایا۔ انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد سنہ 1885 میں ایک برطانوی سول سرونٹ ایلن آکٹیوین ہیوم، سی بی آئی سی ایس نے رکھی تھی۔ جس کا مقصد ہندوستان کے سیاسی اصول کو تبدیل کرنا تھا۔ اس کے ذریعے انگریزی زبان میں تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کے درمیان سول اور سیاسی مکالمے کے لیے ایک پلیٹ فارم بنانا تھا۔

کانگریس پارٹی ہندوؤں کی اکثریت سے آباد تھی اور ان پر احسانات بھی ہونے لگے۔ مسلمانوں نے پہلے پیدا کیے گئے خوف کی وجہ سے سیاست میں حصہ لینے سے گریز کیا۔ دوسرا مسلمان مذہبی طبقے نے انگریزی زبان سیکھنے کے خلاف فتوی دے دیا۔ مسلمانوں کے ذہین لوگ خول میں چلے گئے کہ انہیں صرف بقا کی یہی امید نظر آئی تھی۔ تاہم،کچھ وقت گذرنے کے بعد چند مسلمانوں نے مسلم روحوں کو زندہ کرنے کا سوچا اور پھر سرسید کی علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں میں ایک جان ڈال دی اور سنہ 1906 میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی جو بنیادی طور پر مسلمانوں کے لیے عمومی خیر خواہی کے حصول پر مرکوز تھی۔ مگر یہ صرف ایک اشرافیہ مسلمانوں کا اجتماع تھا اور بہت کم عام مسلمان اس کے معاملات میں دلچسپی لیتے تھے۔ تاہم، علی گڑھ تحریک نے ایک قسم کی مسلم بیداری شروع کی جس کے نتیجے میں نوجوان انگریزی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ مسلمان اپنے حق میں انگریزی زبان میں رائے عامہ کو متاثر کرنے لگے۔ جس کا اثر ہندوستان کے علاوہ خود برطانیہ کی زمین پر بھی محسوس کیا جانے لگا۔

انگریزی تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ایک مخصوص گروہ کو راج حکومت کے تحت ملازمتیں دی گئیں۔ یہ برطانوی نوکر بنیادی طور پر سیکولر، لبرل اور آقاؤں کے فرمانبردار تھے اور حکمرانوں کے سماجی انصاف اور عوامی انتظامیہ کا فلسفہ انکی گھٹی میں تھا۔ مسلمانوں کا یہ طبقہ، بعد از آزادی، پاکستان کے سول سرونٹس، عدلیہ، مسلح افواج اور دانشور طبقہ اس کا حصہ بنا۔ انہی افراد میں، ان ہی کے درمیان سے، علامہ محمد اقبال، مولانا محمد علی جوہر، چودھری رحمت علی، سردار عبدالرب نشتر، چودھری خلیق الزمان، بہادر یار جنگ، عنایت اللہ خاں مشرقی، شیر بنگال مولوی فضلِ حق اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسے مشاہیر شامل تھے۔ دور غلامی میں انگریزی

تعلیمی نظام سے ابھرنے والے ان روشن ضمیر افراد نے مسلمانوں کے لیے آزادی کا سوچا۔


تجدیدِ عہدِ وفا - قراردادِ پاکستان کی طلب کیا تھی؟

محمد علی جناح سرزمینِ ہندوستان میں ایک روشن ستارہ بن کر ابھرے اور مسلمانوں نے انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھ لیا۔ علامہ محمد اقبال نے مسلم لیگ کی صدارت محمد علی جناح کے سپرد کردی اور قوم کو بتایا کہ مسلمانوں کی الگ ریاست کا قیام، جناح ہی کی قیادت میں ممکن ہے۔ 

 پاکستان کا قیام ایک نظریے کے تحت عمل میں آیا۔ نظریہ پاکستان کی حیثیت پاکستان کے وجود میں روح کی ہے۔ ہر تحریک کا ایک مفکر ہوتا ہے۔ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں فکر اقبال کی مرکزی حیثیت ہے۔ اقبال کا دسمبر 1930ء کاخطبہء الہ آباد ہماری تحریکِ آزادی کا میگناکارٹا ہے۔ 

“ ہندوستان کے مسلمان اسلام کی روح سے اپنی وابستگی برقرار رکھیں گے۔ وہ اسلام کو ایک ایسی زندہ قوت سمجھتے ہیں جس کے مستقبل سے وہ قطعاً مایوس نہیں بلکہ وہ اسے ایک ایسی تقدیر کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جس کا فیصلہ کوئی دوسری تقدیر نہیں کر سکتی۔۔۔

 اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے جو انسان کے تصور کو جغرافیائی حدود سے آزاد کرا سکتی ہے۔۔۔۔ اسلام، انسان کی وحدت کو، مادے اور روح کی، متضاد دوئی میں تقسیم نہیں کرتا۔ اسلام میں خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست، ایک کل کے مختلف اجزاء ہیں۔۔ دنیائے اسلام میں ایک عالم گیر نظام ریاست موجود ہے جس کے بنیادی نکات وحی و تنزیل کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں۔

 لیکن ہمارے فقہا جدید دنیا سے بے تعلق رہے ہیں، اس لیے موجودہ زمانے میں انھیں از سر نو مرتب کرکے مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔ اگر ملت اسلامیہ نے اسلام کے دیئے گئے عالمگیر نظامِ ریاست و سیاست کی تشکیل نو کرنی ہے تو اس کے لیے سب سے مناسب ترین خطہ ہندوستان ہے۔ کیونکہ ہندوستان ہی وہ ملک ہے جہاں اسلام ایک بہترین انسانیت ساز قوت کی حیثیت سے ظہورپذیر ہوا ہے۔ حقیقت میں یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ دنیا بھر میں شاید ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں اسلام ایک بہترین مردم ساز قوت کی حیثیت سے جلوہ گر ہوا ہے۔۔۔ مسلمان اگر اسلام کو بطور ایک تمدنی قوت کے زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو وہ کسی بھی وقتی یا محدود مفاد کو حاصل کرنے کے لیے اپنے اجتماعی اہداف کی قربانی دینے کی بجائے ہندوستان کے کسی ایک مخصوص علاقے میں اپنی حکومت بنائیں۔۔۔ میں ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبود کے لیے ایک متحدہ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کررہا ہوں۔۔۔اسلام کے لیے ایک مواقع فراہم کرے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہوجائے جو عربی شہنشاہیت نے اس پر ڈال دیے تھے اور اپنے قوانین، اپنی تعلیم اور اپنی ثقافت کو حرکت میں لاکر ان کی اصل روح اور عصر جدید کی روح سے رابطہ قائم کرسکے"۔۔۔

 

قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کی جدوجہد بڑی جانفششانی اور تدبر سی کی۔ انکی طویل جدوجہد سے کچھ  افکار کا مختصر مطالعہ کرتے ہیں کہ وہ کس مقصد کے حصول کے لئے تگ و دو کررہے تھے-

یکم جنوری 1938ء کو گیا [ بہار] کے مسلمانوں کی طرف سے دیئے گئے استقبالیے میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ

"مسلم لیگ کو اسلام سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم سیاست میں مذہب کو داخل کر رہے ہیں۔ بلکہ اسلام (Complete Code of Life)تو مکمل ضابطہ حیات ہے۔

یہ صرف مذہب نہیں بلکہ قانون، فلسفہ اور سیاست بھی ہے۔ اسلام ہر اس تفصیل پر مشتمل ہے جو ہماری شب و روز کی زندگی سے متعلق ہے۔ جب ہم اسلام کہتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہی کُل اسلام ہے۔  

(Fraternity) (Equality) (Liberty) ... اسلامی نظام حیات کی اساس آزادی، مساوات اور اخوت ہے"


یکم فروری 1943ء کو اسماعیل کالج بمبئی کے طلباء خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’اسلام مسلمانوں کی زندگی بشمول سماجی و معاشرتی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی پہلووں کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کی صورت میں ہم ایک ایسی ریاست قائم کریں گے جو اسلام کے اصولوں کے مطابق چلائی جائے گی۔ اس کے ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی نظام کی بنیاد اسلام کے اصولوں پر رکھی جائے گی۔"

اگست ۱۱، 1947 کو قائد اعظم نے فرمایا 

" اگر ہمیں پاکستان کی اس عظیم الشان ریاست کو خوشحال بنانا ہے تو ہمیں اپنی تمام تر توجہ لوگوں کی فلاح و بہبود کی جانب مبذول کرنا چاہیے۔خصوصاً عوام اور غریب لوگوں کی جانب اگر آپ نے تعاون اور اشتراک کے جذبے سے کام کیا تو تھوڑے ہی عرصہ میں اکثریت اوراقلیت ، صوبہ پرستی اور فرقہ بنددی اور دوسرے تعصبات کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی۔۔۔

ہماری ریاست کسی تمیز کے بغیر قائم ہو رہی ہے یہاں ایک فرقے یا دوسرے فرقہ میں کوئی تمیز نا ہوگی ہم اس بنیادی اصول کے تحت کام شروع کر رہے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے باشندے اور مساوی باشندے ہیں ۔ آپ آزاد ہے آپ اس لئے آزاد ہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں آپ آزاد ہیں کہ اپنی مسجدوں میں جائیں یا پاکستان کی حدود میں اپنی کسی عبادتگاہ میں جائیں آپ کا تعلق کسی مذہب کسی عقیدے یا کسی ذات سے ہو اس کا مملکت کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ بات بطور نصب العین اپنے سامنے رکھنی چاہیے اور آپ یہ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہندو نہ رہے گااور مسلمان مسلمان نہ رہے گا مذہبی مفہوم میں نہیں کیوں کہ یہ ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی مفہوم میں اس مملکت میں اس مملکت کے ایک شہری کی حیثیت سے"۔۔۔

 

تجدیدِ عہدِ وفا - اسلامی ریاست کے قیام کا عہد

اے میری قوم کے لوگو؛ کیا ہم نے اللہ سے مدد نہیں مانگی تھی کہ ہمیں آزادی دے تو ہم معبودِ حق ہی عبادت کریں گے اور آقائے دوجہان محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع کریں گے؟ کیا ہم نے نعرہ بلند نہیں کیا تھا " پاکستان کا مطلب کیا ؛ لاالہ الا اللہ"۔ اس نعرہ کو تخلیق کیا تھا ایک نوجوان اصغر سودائی [ بعد از پروفیسر پرنسپل علامہ اقبال کالج، سیالکوٹ ] نے جو اکثر مسلم لیگ کے جلسوں میں کوئی نظم پیش کیا کرتے تھے. پیش کیا کرتے تھے۔ 1944 عیسوی کو مسلم لیگ کے جلسے میں انہوں نے "ترانہ پاکستان" پڑھا 


ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟ ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ

ﺷﺐ ﻇﻠﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﯼ ہے، ﺍﭨﮫ ﻭﻗﺖ ﺑﯿﺪﺍﺭﯼ ﮨﮯ

ﺟﻨﮓ ﺷﺠﺎﻋﺖ ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ، ﺁﺗﺶ ﻭ ﺁﮨﻦ ﺳﮯ ﻟﮍ ﺟﺎ

ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟  ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ 


ﮨﺎﺩﯼ ﻭ ﺭﮨﺒﺮ ﺳﺮﻭﺭ ﺩﯾﮟ،  ﺻﺎﺣﺐ ﻋﻠﻢ ﻭ ﻋﺰﻡ ﻭ ﯾﻘﯿﮟ

ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﺣﺴﯿﮟ، ﺍﺣﻤﺪ ﻣﺮﺳﻞ ﺻﻠﯽ ﻋﻠﯽ

ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟  ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ


ﭼﮭﻮﮌ ﺗﻌﻠﻖ ﺩﺍﺭﯼ ﭼﮭﻮﮌ، ﺍﭨﮫ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺑﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﻮﮌ

ﺟﺎﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﺟﻮﮌ، ﻏﯿﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﭩﺎ

ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟  ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ


ﺟﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮨﮯ ﺗﻮ، ﮨﻤﺖ ﻋﺎﻟﻤﮕﯿﺮ ﮨﮯ ﺗﻮ

ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﮨﮯ ﺗﻮ، ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﺑﻨﺎ

ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟  ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ


ﻧﻐﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻋﺠﺎﺯ ﯾﮩﯽ، ﺩﻝ ﮐﺎ ﺳﻮﺯ ﻭ ﺳﺎﺯ ﯾﮩﯽ

ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﯾﮩﯽ، ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻨﺎ

ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟، ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ


ﮨﻨﺠﺎﺑﯽ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺍﻓﻐﺎﻥ، ﻣﻞ ﺟﺎﻧﺎ ﺷﺮﻁ ﺍﯾﻤﺎﻥ

ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺟﺴﻢ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺟﺎﻥ، ﺍﯾﮏ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺧﺪﺍ

ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟ ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ


ﺗﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺧﺎﻟﺪ ﮐﺎ ﻟﮩﻮ، ﺗﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﻃﺎﺭﻕ ﮐﯽ ﻧﻤﻮ

ﺷﯿﺮ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﺷﯿﺮ ﮨﮯ ﺗﻮ، ﺷﯿﺮ ﺑﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺁ

ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟  ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ


ﻣﺬﮨﺐ ﮨﻮ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﮐﮧ ﻓﻦ، ﺗﯿﺮﺍ ﺟﺪﺍﮔﺎﻧﮧ ﮨﮯ ﭼﻠﻦ

ﺍﭘﻨﺎ ﻭﻃﻦ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻭﻃﻦ، ﻏﯿﺮ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺖ ﺁ

ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟  ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ


ﺍﮮ ﺍﺻﻐﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﮮ، ﻧﻨﮭﯽ ﮐﻠﯽ ﭘﺮﻭﺍﻥ ﭼﮍﮬﮯ

پھول ﺑﻨﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﻣﮩﮑﮯ، ﻭﻗﺖ ﺩﻋﺎ ﮨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎ

ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯿﺎ؟ ﻻ ﺍﻟﮧ ﺍﻻ ﺍﻟﻠﮧ


آئیےایک لمحے کو فرض کر لیتے ہیں کہ تحریک پاکستان نام کی کوئی شے تھی ہی نہی؛ کوئی نظریہ نہی تھا، مسلمانوں کو اس کی کوئی ضرورت نہی تھی۔ اور یہ ملک انگریز نے اپنی شاطرانہ ضرورتوں کے لیے بنایا تھا۔ پاکستان کا قیام انگریز کی عیاری اور چالاکی تھی۔ مگر کیا یہ حقیقت ہے کہ نہی کہ پاکستان میں 97 ستانوے فیصد برتری سے ہم مسلمان آباد ہیں۔ اور یہ کہ ہم مسلمان اللہ کو وحدہ لا شریک لہ معبود مانتے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ تعالی کا رسول جانتے ہیں اور یہ بھی کہ قرآن مجید فرقانِ حمید، اللہ کی کتاب ہے۔ تو پھر سادہ سے بات صرف یہ ہے کہ کیا ہم اپنی ریاست، سرزمینِ پاکستان پر اللہ تعالی کی حاکمیت قائم کرنے کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ کیا قرآن ہمیں اس پر اتمامِ حجت نہی کرتا؟ کیا ریاستِ مدینۃ الرسولﷺ ہمارے لیے مشعلِ راہ نہی ہے؟ کیا ہم اللہ کی باغی ریاست کے قائل ہیں؟ اگر نہی تو پھر پاکستان کا مطلب کیا ؟ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نعرے سے ہمیں کیوں تکلیف ہو؟ ہم اپنے بزرگوں کو کیوں لعن طعن کریں جنہوں نے اس کلمہ کی بنیاد پر تحریک چلائی اور سرزمینِ پاکستان حاصل کی۔

پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا- اس ریاست کے قیام کا واضع مقصد ایک اسلامی ریاست " جدید مدینہ" کا حصول تھا- [ پڑھیے وینکٹ دھولی پالا کی کتاب مطبوعہ 2015 ""  “

Creating a New Medina" State Power, Islam, and the Quest for Pakistan in Late Colonial North India"]

وینکٹ دھولی پالا نے اپنی کتاب کی اشاعت کے بعد اس کے نفسِ مضمون پر کئی عدد انٹرویوز بھی دیے ہیں، جو یوٹیوب پر موجود ہیں؛ یہاں صرف ایک کا لنک دیا جارہا ہے

سرزمینِ برِ صغیرِ ہند پر اسلامی ریاست کی کیا ضرورت تھی اور اس کے کیا خدوخال ہونگے؟ اس پر خوب بحث ہوئی؛ جس میں غیر مسلموں نے بھی حصہ لیا- 

 نے 1951ء میں ایک کتاب لکھی Wilfred C Smith 

" Pakistan as an Islamic State

پڑھنے کے لیے لنک  

http://www.columbia.edu/itc/mealac/pritchett/00islamlinks/txt_smith_pakistan_1951.pdf ]-

ان دو کتابوں کو پڑھ کر اور وینکٹ دھولی پالا کا انٹریو سن کرآپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ کہ پاکستان کے قیام کی بحث کیا تھی؟

یہ کتاب ۲۰۱۵ میں چھپی ہے اور اس پر بھارت میں خوب گفتگو ہوئی ہے مگر ہمارے ملک پاکستان کے عقل و دانش والوں نے اسے قابلِ توجہ ہی نہی سمجھا؛ محض چند لوگ ہونگے جنہوں نے اسے پڑھا ہوگا۔ صرف ایک سابق سفیر نے اس پر بات کہ ہے جو یہاں ملے گی


تجدیدِ عہدِ وفا - کیا پاکستان اسلامی فلاحی ریاست بن سکا؟

پاکستان کا قیام جدید اسلامی ریاستِ مدینہ کے انقلاب کے لیے ہوا- سو ایک ردِ انقلاب کا ظہور ہونا قدرتی عمل تھا- ایک مٹھی بھر موڈرنسٹ طبقہ، جو دراصل حکمران اشرافیہ ہے، طاقتور ہے اور پاکستان کو سیکولر ملک بنانا چاہتا ہے؛ اس راہ میں حائل ہے- اس گروہ کو پہچاننا ہو تو راولپنڈی سازش کی تحقیق کرلیں؛ جسٹس منیر کی رپورٹ پڑھ لیں- غلام محمد ہو یا اسکندر مرزا یا بھٹو، کوئی انکا مقصد پورا نہی کر پایا تو انہوں نے کمال اتا ترک کا ماڈل اختیار کیا اور ایوب، یحیی اور مشرف کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا-

یہ لبرل/ سیکولر لوگ مسلسل تھیوروکرسی / ملائیت سے ڈرا تے ہیں- اسکی بشریٰ کمزوریوں کو خوب اچھالا جاتا ہے اور اسے 1400 سال قدیم زمانے میں مقید بتایا جاتا ہے-- مگر خود اس طبقے نے پچھلے 70 سالوں میں اس قوم کو بھوک، ننگ، افلاس کے سوا دیا کیا ہے- نہ تعلیم دی نہ روزگار مگر نعرے ہی نعرے اور جی بھر کر کرپشن۔

سچی بات تو یہی ہے کہ آج کا پاکستان اسلامی فلاحی ریاست نہیں ہے۔ بلکہ کڑوی بات یہ ہے کہ آج ہم ایک قوم ہی نہی ہیں بلکہ ایک ہجوم ہیں جو محض پیٹ پوجا کی خاطر ذلیل ہورہا ہے۔ ہمارے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ہم ایک ناکام ریاست ہیں۔

تجدیدِ عہدِ وفا - کیا پاکستان اسلامی فلاحی ریاست بن سکتا ہے؟

پاکستان کی تاریخ کا کمال تو یہ ہے کہ 73 سالہ پاکستان میں آج تک مولوی اقتدار میں نہی آیا کیونکہ اسے ووٹ ہی نہی ملے۔ مگر پاکستانی قوم نے ہمیشہ غلامی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے احتجاج کیا اور جانیں دیں- اس قوم کو پاکستان کا لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ سے رشتے کا مکمل یقین ہے- انکا مزاج صوفیانہ ہے، مگر کردار مجاہدانہ اور غازیانہ ہے۔ جب بھی دشمن نے للکارہ ہے بچہ بچہ سربکف ہوجاتا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج اس قوم کا حصہ ہے اور یہ ریاستِ پاکستان کا ہر صورت میں دفاع کرے گی۔  فوج چند جنرلز، ایڈمرلز یا ایرمارشلز کا نام نہی بلکہ ان  بیرکس، یونٹس اور سکوڈرنز اور ان کے سپاہ کا نام ہے جس کے ماتھے پر " ایمان، تقوی، جہاد فی سبیل اللہ" درج ہے اور جو محاز پر جوش جگانے کے لیے نعرہ حیدری بلند کرتے ہیں۔۔۔ ان افواج کی مدد سے کبھی بھی سیکولر نظامِ حکومت قائم نہی ہوسکے گی-[ یہ راقم کی مصمم را ئے ہے کیونکہ ان صفوں میں تین دھائیاں گزاری ہیں]۔

 ا گر پاکستان کی 76 چھتر سال کی تاریخ سے تالع آزماوں کو سبق نہی مل رہا تو تجربہ کرتے جائیں، آپ مٹی میں مل جائیں گے اور کئی عام لوگ ان بیکار ہجوم کی بھیڑ میں سے ممتاز قادری امر ہو تے جائیں گے۔

پاکستان کا آئین اللہ کو حاکم مطلق گردانتا ہے سو اس کو حرزِ جاں بنائیں اور قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کریں اور حکومت گیری کریں تو ایک فلاحی جمہوری ریاست وجود میں آئیگی اور ہر ادارہ اپنے دائرے میں نظر آئیگا۔ ہم پر، اس وطن اوراس میں بسنے والے سب انسانوں پر، اللہ کی حاکمیت قائم کرنا فرض ہے۔ اور اس کے سوا کچھ اور سوچنے سے بھی ہم اللہ سبحان تعالی کے مجرم بنیں گے۔بحیثیتِ قوم ہمارا ماضی، حال اور مستقبل نظریہ پاکستان سے جڑا ہے۔ اس نظریہ کو سمجھنا اور اس کو اپنی قومی زندگی کا حاصل بنانا ہماری بقا کے  لیے بہت ضروری ہے۔ اس لیے یہ اہم ہے کہ ہم اپنی ہر نسل کو اس سے روشناس کرائیں۔ 

نظریہ پاکستان ایک تسلسل کی داستان ہے اور اس کی مختصر کہانی یہاں سنیں

https://www.youtube.com/watch?v=U7ki_hNbMyM&t=107s

Written by Cdr (R) Muhammad Asif Raza PN, with the help of Data available on Free Web

More Posts